بھوک سے بے حال لوگوں کے لئے رحمت کا دسترخوان

محمد عبد اللہ جاوید

0
Post Ad

کیا آپ جانتے ہیں صرف دو ہزار جیسی معمولی سی رقم سے تقریباً سو بھوکے لوگوں کو پیٹ بھر کھانا کھلایا جاسکتا ہے ؟ جی ہاں یہ سچ کر دکھایا ہے سندہنور شہر کے سالڈریاٹی کےنوجوانوں نے ۔یہ یکم نومبر 2024کی بات ہے۔شہر کے چند نوجوانوں نے بھوک سے بے حال لوگوں کا احسا س کرتے ہوئے انہیں کھانا کھلانا طے کیا تھا۔ ان کا یہ عزم کوئی وقتی جذبہ نہیں تھا‘بلکہ اس میں اخلاص او ر مستقل مزاجی تھی۔ گیارہ ماہ کے مسلسل سفر کے بعد آج ہمیں ان کی بے لوث عوامی خدمت کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ شہر کے قلب میں موجود تعلقہ سرکاری دواخانہ کے احاطے میں ہر روز بعد نماز مغرب‘ کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ چند نوجوانوں روزانہ ٹیبل ‘ پلیٹ اور کھانے پینے کی اشیاء لئے بڑے سلیقے سے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ شہر کے بھوکے لوگ عموماً اورسرکاری دواخانہ میں شریک مریض اور ا ن کے متعلقین خصوصاًفوری ایک قطار میں جمع ہوجاتے ہیں۔ بڑے نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پلیٹ میں کھانہ لے کر وہیں کسی جگہ بیٹھ کر تناول کرتے ہیں۔لوگوں کے کھانے کا منظر بڑا دل پذیر تھا۔ کھانے والے‘ واقعی بھوکے اور حاجت مند ہوتے ہیں‘ کیونکہ کھانا بالکل سادہ ‘بغیر گوشت ‘ دیا جاتا ہے۔ البتہ کھانا مختلف قسم کا اور لذیز بنانے پر پوری توجہ دی جاتی ہے۔کھانے سے قبل حاجت مند لوگ جس انداز سے پلیٹ لے کر قطار میں کھڑے ہوتے ‘ اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں‘ ان کا سارا جسم او ربطورخاص چہرہ ‘ بڑا رقت انگیز منظر پیش کرتا ہے۔ انہیں دیکھ کر یقیناً دل پگھلتا ہے۔قیامت کا وہ منظر یاد آجاتا ہے جب رب اپنے ایک بندے سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے کہ میَں دنیا میں بھوکہ تھا تو نے مجھے کھانانہیں کھلایا؟(صحیح مسلم)۔لوگوں کو کھاناکھلانے کا عمل صرف ایک وقتی عمل نہیں ہوتا ‘بلکہ یہ عمل اپنے اندر درس و عبرت کے بے شمار پہلو لئے ہوئے ہے۔ کھاناکھانے اور کھلانے والے ‘بہ یک وقت ‘ رب کریم کی بے پایاں رحمت کامظہر بنے ہوتے ہیں۔ جو ہم کھاتے ‘ کھلاتے اور پلاتے ہیں ‘ اصل میں ہمارا رب ہمیں کھلاتا اور پلاتا ہے(وَ الَّذِیْ هُوَ یُطْعِمُنِیْ وَ یَسْقِیْنِ۔سورہ الشعرا:۷۹)۔کھانے پینے کے سارے اسباب وہی فراہم کرتا ہے۔آسمان سے بارش برسانے سے لے کر زمین کو زرخیز بنانے ‘ بیج اور دانے کو پھاڑنے اور لہلہاتی فصل اگانے تک وہی ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔لہذا کھانا کھلانے کے اس عمل سے ایمان کا گہرا ہونا بالکل اسی طرح فطری ہوجاتا جس طرح غذا کے جسم میں جانے کے بعد بھوک کامٹ جانا اور پیٹ کا بھرجانا۔پھر یہ عمل ‘ مشاہدہ کرنے والوں کو بھی اپنے درس میں شامل کرلیتاہے‘چنانچہ منتظمین سے معلوم ہوا ہے کہ نہ صرف مسلمان بلکہ ہمارے ہند وبھائی بھی مالی تعاون کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ماہانہ تقریباً ساٹھ ہزار کی رقم بغیر زیادہ محنت و مشقت کے حاصل ہوجاتی ہے۔ کچھ تو مخیر حضرات ماہانہ طے شدہ رقم خودسے ادا کردیتے ہیں۔اور کچھ لوگ بجائے یوم پیدائش اور شادی کی سالگرہ وغیرہ منانے کے بدلے منتظمین کو پیسہ یا اجناس وغیرہ دلوادیتے ہیں تاکہ غریبوں کا بھلا ہو۔اس سے معلو م ہوا ہے کہ بے جا رسوم و رواج کا خاتمہ وعظ و نصیحت کے ساتھ عملی اقدامات سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر معاشرہ یہ جان جائے کہ کس مسئلہ کا حل کیسے اور کون کرے گا‘ تو وہ یقیناً ترجیحی بنیاد پر معاشرتی مسائل کے حل میں اپنا تعاون پیش کریں گے اور ان تمام رسوم و رواج سے از خود دور ہوجائیں گے جو محض وقت کا زیاں اور پیسو ں کا اصراف ہے۔غالباً لوگوں کو کھانا کھلانے کے یہ وہ روحانی‘اخلاقی ‘ معاشرتی‘ معاشی اور انسانی پہلو ہیں جن سے متعلق فائدے بے شمار ہیں ۔ دین اسلام جن اخلاقی اقدار کے فروغ اور جن معاشرتی برائیوں کے ازالہ کا علمبردار ہے‘ اس کے لئے یہ دین اپنے ماننے والوں کی مزاج کی آبیاری کرتا ہے۔ نماز‘ روزہ اور صدقات و خیرات اسی مزاج کے فروغ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اور نتیجتاً وہ احساس پیدا ہوتا ہے جوگھر سے فرد کو اور جیب سے پیسے کونکلواتا ہے ۔ یہی احساس ‘معاشرتی مسائل کے حل کے لئے کلیدی رول اداکرتا ہے۔ اور یہ واضح کرتا ہے کہ مسائل کاحل ‘ وسائل کی بنیاد پر نہیں بلکہ احساس کی بنیاد پر ہوتا ہے۔اگر وسائل کی بنیاد پر مسائل کا حل ہوتا تو ہمارے ملک کی یہ صورت حال نہ ہوتی ۔ہمارے ملک میں ارب پتیوں کی خاصی بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ُہرون انڈیا(Hurun India)کی جانب سے جاری کردہ فہرست کے مطابق ہمارے ملک میں 334 ارب پتی موجود ہیں ۔یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ایک ارب پتی کے پاس جتنی دولت ہوتی ہے اس سےایک دن میں تقریباً دس کروڑ لوگوں کو کھانا کھلایا جاسکتا ہے۔ محکمہ زراعت کے مطابق ہمارے ملک میں وافر مقدار میں اناج پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ملک کی 50% سے کچھ زیادہ آباد ی دن میں تین مرتبہ کھانا کھاتی ہے۔(ہندوستان ٹائمز ‘جولائی 2024)۔ ہمارے ملک کی% 74آبادی کو معاشی تنگی کی وجہ سے غذا ئیت سے بھرپور کھانا حاصل کرنے کےلئے کئی مشکلات کاسامنا کرناپڑتا ہے ۔یعنی تقریباً 100 کروڑ کی آبادی صحت مند غذا کے حصول میں ناکام ہے۔(انڈیا ٹوڈے‘17 جولائی 2023)۔اور 2022میں جاری کردہ فہرست کے مطابق گلوبل ہنگر انڈکس میں ہمارا ملک121میں سے 107درجہ پر ہے۔(دی نیو ہیومیانیٹرین‘19 ڈسمبر 2022)۔لوگوں کی خدمت اور ان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لئے وسائل سے زیادہ ‘ احساس و مروت ضروری ہے جو بغیر ایمان ممکن نہیں۔اللہ کے رسولﷺ سےجب یہ سوال کیا گیا کہ مَاالْاِسْلَام ؟ تو آپﷺ نےاس کا ایک جواب یہ ارشاد فرمایا کہ اَطْعِمُ الطَّعَام۔لوگو ں کو کھانا کھلانا اسلام ہے۔ قربان جائیے رسالت مآب ﷺ ‘ جنہوں نے ہمیں لوگوں کی خدمت کے ذریعہ ‘اسلام کا نمائندہ بننے کی سعاد ت سے ہم کنار فرمایا۔اللہ کرے کہ کھانا کھلانے کا عمل ‘صرف لوگوں کو مفت کھانے کا عادی نہ بنائے ‘ بلکہ اس سے معاشرہ میں لوگوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لئے ترغیب ملے اور بحیثیت مجموعی معاشرہ میں مسائل کے حل کے لئے ہر سطح پر باہمی تعاون و اشتراک عام ہو۔قابل مبارک باد ہیں ‘ ڈاکٹر وسیم صاحب‘ ابواللیث صاحب‘ خواجہ حسین صاحب‘ ابواللیث عرفان صاحب‘ سید شعیب پاشاہ صاحب‘سید تنویر صاحب‘ فاروق عطار صاحب‘سید اظہر صاحب‘محمد علی مرتضی صاحب‘ عمرصاحب‘ مشتاق صاحب ‘پاشاہ صاحب ‘اجمیر صاحب اور تمام متعلقین ‘ جو پچھلے گیارہ ماہ سے بلاناغہ‘ لوگوں کی بھوک مٹانےکے مبارک کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی بے لوث خدمات قبول فرمائے اور مزید کی توفیق دے۔آمین یارب العالمین

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!