اخلاقی محاسن آزادی کی ضامن
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات سے نواز کر بہت سارے اختیارات دے کر اچھے برے کی تمیز سکھا کر سلیقہ سکھا کر اختیارات کی آزادی کو کیسے استعمال کرنا ہے یہ تمام چیزیں سکھا کر دنیا میں بھیجا ہے تاکہ امتحان لیے سکھے ۔لیکن موجودہ معاشرہ بہت سارے مسائل کا شکار ہے آئے دن ہم نت نئے حادثات کو دیکھ رہے ہیں بے حرمتی سے عورتوں کی عزت پر حملہ ہو رہا ہے کتنی بے دردی سے عورتوں کی جان لے رہے ہیں تو داعی گردہ کو بے دار ہونا چاہیے برائیوں کو رد کرنے کے لیے اٹھ کھڑنا ہے عورتوں کی عزت کی حفاظت کرنا ہے ۔بے شک اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس کے ساتھ ساتھ نظام رحمت بھی ہے مغربی تہذیب کی بے لگام آزادی نے کہرام مچا رکھا ہے “*میرا جسم میری مرضی کا نعرہ*” آزادی نسواں کے اس نعرے پر بے پردگی بڑھ گئی۔جنسی آزادی نے معصوموں کو اپنا نشانہ بنا لیا ہے یہ نعرہ انسانوں کو غلامی کی شکل جکڑ لیا ہے پہلے بھی انسان غلامی کی شکل میں ہونے کے باوجود ذہنی طور پر تو آزاد تھا اب اس نعرے کا شکار ہو کر گھر خاندان اخلاق حیا عفت کو بالائے طاق رکھ کر با ہر کی دنیا میں دلچسپی تلاش کر رہا ہے شادی عورت کے لیے تحفظ کا حصار تھی لیکن مغربی تہذیب نے عورت کو آزادی کے نام پر روشن خیالی مردوں کی برابری کا خواب دکھا کر اپنے ہاتھوں سے اس تحفظ کے حصار کو توڑ دیا ہے باہر کی دنیا میں چند سکوں کے عوض مردوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر ناچ رہی ہے ۔ بچوں کی تربیت کو نوکروں کے حوالہ کر کے مردوں سے کندھے سے کندھا ملا کر چل رہی ہے پھر بھی ذہنی پریشان ہے سورہ جاثیہ میں فرمانے الٰہی ہے ” کیا تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا جس نے اپنے خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا” اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا اور اسکے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اُن پر پردہ ڈال دیا اللہ کے نظام سے چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کا حال ایسا ہوتا ہے ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنئزیشن رپورٹ کے مطابق دنیا کے 89 بلین افراد ذہنی مرض کا شکار ہے ڈپریشن عام ہو گیا ہے ان خرابیوں سے انسانی معاشرہ کو ہلاکت و بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے ان ساری چیزوں میں عورت کی بے پردگی کی وجہ بہت اہم ہے بے پردہ عورتوں پر نظر پڑتے ہی ہوس پرستوں کی نیت بدل جاتی ہے ۔اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کرتے کرتے اتنا نیچے گر جاتے ہیں کہ حیوانیت کی سطح پر پہنچ جاتے ہیں عورت باسانی اس جال میں پھنس جاتی ہےنہ اس کو اپنی حیا کا ہوش نہ جسم کا ہوش ایسی صورتِ حال میں ہمیں بیدار ہونا ہے بی بی فاطمہ کی نقش قدم پر چلنا ہے اپنے آخری ایام زندگی کے آخری لمحات پر حضرت علی سے فرماتی ہیں اے علی اگر میرا انتقال ہو جائے تو میرا جنازہ رات کو اٹھانا تاکہ لوگوں کی نظر زیادہ نہ پڑے حضرت علی نے فرمایا ایک جنازے میں کوئی کسی کو کیا دیکھ لے گا تو بی بی فاطمہ کا جواب تھا تم سے کم اتنا تو تصویر کر لیگا کہ میت تھوڑی سی چھوٹی ہےلمبائی ہے موٹی ہے دُبلی ہے یہ تک بی بی فاطمہ کو گوارہ نہ تھا اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ عورت گھر کی چار دیواری میں رہے اپنی عصمت کی حفاظت کرے بچوں کی تربیت کرے سورہ نور میں فرمان الٰہی ہے نظر نیچے رکھو غض بصر کا حکم دیتا ہے۔جب ایک لڑکی بے پردہ گھر سے نکلتی ہے ایک اجنبی شخص کی نظر اس پر پڑتی ہے اور اگر نیت میں برائی ہو تو دونوں عذاب کے مستحق ہوتے ہیں لیکن لڑکی لڑکے سے زیادہ عذاب کی حقدار ہے کیونکہ اسکے اس طرح نکلنے پر اس پر نظر پڑی ورنہ نہ پڑتی تو ہم عورتوں کو زیادہ احتیاط برٹنی چاہیے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حدود میں رہنا ہے آزادی کس میں ہے اس کا صحیح تصوّر دنیا کے سامنے لانا ہے اخلاق کے دائرے میں رہنا ہے اخلاق کا دائرہ انسانوں کہ دائرہ نہیں بلکہ اللہ کا بنایا ہوا دائرہ ہے آج انسان T۔B۔G۔L یعنی گنڈراس بھی بدل رہا ہے ۔قرآن اس بات کی تعلیم دیتا ہے کے اللہ تعالیٰ کے نظام میں چھیڑ چھاڑ کرنے والوں پر اللہ کا عذاب آتا ہے قومیں کے قومیں تباہ ہو گئی عبرت کے لیے ہمارے سامنے بے شمار واقعات ہے آج ہمیں پھر سے حضور کی سنتوں کو اجاگر کرنا ہے برائیوں کو روکنا ہے حضور کے زبان کے مطابق اگر اطراف میں برائیاں دیکھیں تو اپنے ہاتھوں سے روکنا ہے اگر یہ نہ ہو سکھے تو اپنی زبان سے روکنا ہے اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو اپنے دل میں برا سمجھنا ہے یہ ہمارے ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے اس کے لیے ان اخلاق کو اپنا نا ہے۔حیا کے کلچر کو عام کرنا ہے حیا ایمان کا ایک چز ہے ۔گاندھی جی نے کیا خوب کہا ہے کہ ینگ انڈیا ( اکتوبر 1925)مذہب اور اخلاق ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہیں۔مذہب اخلاقیات کی جڑ ہے اور اخلاقیات مذہب کا پھل یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں،مذہب بنیاد ہے جس پر اخلاقیات کی تعمیر ہوتی ہے اخلاقیات مذہب کا عملی اظہار ہے ،اس صورتِ حال میں داعی گردہ کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے ۔جن کا فرض لوگوں کو خیر کی طرف بولنا ہے اور برائیوں سے روکنا ہے اس صورتِ حال کی اصلاح کے لیے قرآن مجید اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ موثر کوئی رہنمائی نہیں ہو سکتی ۔انسان اس راہ ہدایت پر مخلصانہ طور پر پوری طرح عمل کریگا تو نفس کی غلامی اور گمراہی سے نجات پا سکتا ہے ۔جدید تہذیب و ترقی کے نام پر جن بیڑیوں میں جکڑا گیا ہے اس سے آزادی حاصل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔