کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موج دریا کا حریف

عبد الکریم بڑ گن الکل

0
Post Ad

انسانی زندگی میں شعور و احساس کی بڑی اہمیت ہوتی ہے شعور و احساس، انسان کو اخلاقی اقدار کا پابند بناتا ہے۔ وعدہ خلافی ،مکر وفریب ،بد دیانتی ، لوٹ کھسوٹ سے محفوظ رکھتا ہے ۔اس کی نگاہ بلند و بالا ہوتی ہے ۔اوروہ شعور کی نگاہ سے دنیا کے پیچ و خم کو دیکھتا ہے ۔

دنیاوی زندگی کی اہمیت اس کے نزدیک اتنی ہی ہوتی ہے جتنی ،سفر کے دوران ذرا سستانے کے لئے درمیان میں کسی درخت کے سائے کی مدد لی جاتی ہے ، پھر وہ مسافر اپنی سمت سفر رواں دواں ہوتا ہے۔ مصائب و آلام اس کی راہ کھوٹی نہیں کر پاتیں۔ وہ مصائب و آلام سے سے متاثر تو وقتی طور پر ضرور ہوتا ہے لیکن اس کا حوصلہ کبھی کم نہیں ہوتا ۔اگر شعور و احساس کسی بلند مقصد کے لیے ہو تو وہ اس کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہو جاتا ہے وہ موجوں کی مخالف سمت میں بھی لڑنا پسند کر سکتا ہے وہ ہواؤں کا رخ موڑنے کیلئے بھی آمادہ ہوجاتا ہے وہ تپتی دھوپ میں احد احد کی صدا بھی بلند کرنے میں عارمحسوس نہیں کرتا سرکش بادشاہوں کے دربار میں جاکر دعوت حق دینا ، بندگی رب کی طرف بلانا بھی اس کے لئے دشوار نہیں ہوتا۔

حق کی اشاعت کے لئے لوگوں کی مخالفت مول لینا ,موج دریا کا حریف بن کر ہاتھ پاؤں شل کر لینا اس کے لیے کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوتا اس کے لیے وہ ہر قسم کی قربانی دینے کو اپنی سعادت سمجھتا ہے۔ اس شعور کے بغیر مطلوبہ تبدیلی پیدا نہیں ہوتی۔اگر شعور و احساس، کم درجے کا ہو تو معمولی حیلہ و بہانہ بھی اسے اسفلا سافلین تک پہنچا سکتا ہے۔
اور وہ شخص موجوں سے لڑنے کے بجائے ساحل پر رھنے ھی میں اپنی عافیت تصور کرتا ہے ۔
جس شخص میں مدافعتی قوت (immunising power) امونایزنگ پاور نہ ھو تو اسے معمولی کھانسی و بخار بھی زیر کر سکتی ھے۔ ا اس لئے چاہیے کہ آدمی اپنی نگاہ بلند رکھے ، سخن، دل نواز رکھے، پھر اس کے بعد جان کو پرسوز رکھنا ہی ھے، تب کہیں جا کر وہ اپنی نگاہوں میں جنت کا نظارہ کر سکتا ہےجس کا اس سے وعدہ کیا گیا ہے۔ وہ عافیت کو خیر آباد کہہ کر کشمکش ھی کو زندگی قرار دیتا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمرود کے ساتھ،
حضرت موسی علیہ السلام کا فرعون کے ساتھ
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا شرارے بولہبی کےساتھ پنجہ آزمائی کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے بلکہ اس آخری نبی نے یہاں تک کہاکہ اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند بھی لا کر رکھ دیں تو میں یہ کار دعوت نہ چھوڑوں گا، یا تو اللہ کا دین غالب ہوجاے ، یا اس کام کو کرتے ہوئے میری جان چلی جائے ۔

مقصد کے شعور کو بیدار اور برقرار رکھنے کے لئے کسی نے بہت درست کہا ہےکہ

کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موج دریا کا حریف
ورنہ میں بھی جانتا ہوں عافیت ساحل میں ہے ۔

ہمیں روایتی مسلمان ہونا نہیں ھے، بلکہ قصداً مسلمان ہونا ہے اور یہ پرواہ کیے بغیر کے اس سے کون خوش ہوتا ہے اور کون ناخوش – بلکہ ہمیں فکر اس بات کی کرنی ہے کہ میرے رب کی رضا اور خوشنودی کن کاموں میں ہے ؟

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!