مختصر کہانی سنگھاسن کی سیاست

محمدیوسف رحیم بیدری، بیدر۔ کرناٹک موبائل:9141815923

0
Post Ad

پالی ٹیکل سائنس پڑھاتے ہوئے دیپک گھناٹے لیکچرر نے طلبہ سے سوال کیاکہ”خاندان کی اہمیت موجودہ سیاسی مثال کے ذریعہ پیش کریں“۔

روشنی نے اپناہاتھ کھڑا کیا۔ دیپک سر نے اس کو اٹھایا تو اس نے کہا”سر خاندان کسے کہتے ہیں؟“سرکو بڑا غصہ آگیا۔ پھر بھی ضبط کرتے ہوئے کہاکہ ”دادا، دادی، والد والدہ اوربیٹا بیٹی کے سلسلہ کو خاندان کہاجاتاہے“سبھی طلبہ خاموش تھے۔ دیپک سر نے دوبارہ دریافت کیا”اسٹوڈنٹ بتاؤ کہ موجودہ سیاسی تناظر میں خاندان کی اہمیت کتنی ہے؟“موبائل پر پب جی کھیلنے میں مصروف ہارون درانی نے اٹھ کر کہا”سر! خاندان کی بڑی اہمیت ہے، ہم درانی قبیلہ سے ہیں، اور ہمارے خاندان کی شاخیں افغانستان سے لے کر ہندوستان تک پھیلی ہوئی ہیں“ ہارون درانی کے خاموش ہوتے ہی سر نے اس کوگھورتے ہوئے کہا”میاں!اس میں سیاسی اہمیت کو پیش کریں، خاندان بڑا ہوسکتاہے لیکن اس کی سیاسی اہمیت بھی ہونی چاہیے۔ استاد بسم اللہ خان کابھی خاندان بڑا ہے لیکن سیاسی اہمیت صفر ہے“ کچھ توقف لے کر انھوں نے کہا”نیکسٹ“کلاس کے سب سے ذہین طالب علم اشوک ہوکرانے جب جواب دینے کے لئے اٹھ کھڑا ہواتو تمام طلبہ تالیاں بجاکر اس کاخیر مقدم کرنے لگے۔دیپک سر کے چہر ے پر مسرت کی لہر دوڑ گئی۔

انھوں نے طلبہ سے کہا ”اب آپ لوگ میرے سوال کامکمل جواب سننے کے لئے تیار ہوجائیں، سوال یہ ہے کہ خاندان کی اہمیت موجودہ سیاسی مثال کے ذریعہ پیش کریں“ اشوک ہوکرانے نے استاد محترم اور تمام طلبہ کی سمت منہ کرکے جھک کردونوں طرف وش کیا اور کہا”خاندان کی اہمیت اظہر من الشمس ہے۔ جاہلیت کے دور میں دنیاپر خاندانوں نے ہی حکومت ہے لیکن جمہوری نظام آ نے کے بعددنیا کو امید تھی کہ خاندانی حکومت کاجاہلانہ سلسلہ ختم ہوجائے گالیکن ایسا نہیں ہوا۔ جمہوری سیاست نے خاندانی نظام کو بہرحال اپنے لئے باآمادگی ئدل قبول کرلیا۔پاکستان میں بھٹو اور نواز خاندان، بنگلہ دیش میں شیخ مجیب اور شیخ حسینہ کی حکومت، اسی طرح ہمارے بھارت میں نہرو۔ گاندھی خاندان کی حکومتیں سیاست کے سنگھاسن پر براجمان رہیں۔ جس سے پتہ چلتاہے کہ سیاست میں خاندان اور خاندانی حکمرانی کی بڑی اہمیت اور ایک روایت موجودہے جس کاآغاز دورجاہلیت سے ہوااوراب اکیسویں صدی تک چلاآیاہے جس کی تازہ مثال کرناٹک کے نو منتخب وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی ہیں جن کے والدایس آربومئی بھی کرناٹک کے وزیراعلیٰ تھے۔ آج وہ خودبھی ریاست کرناٹک جیسی کان کنی،آئی ٹی بی ٹی، ریشم، بیدری ورک، سیاحت اور تاریخ سے بھرپور ریاست کے وزیراعلیٰ بن چکے ہیں۔ پریوارواد سے جمہوریت کے علاوہ ہندتواکو بھی مفر نہیں ہے“

پانچ منٹ سے زیادہ وقت تک تالیاں بجتی رہیں۔ طلبہ مسرور تھے۔ پولیٹیکل سائنس کے دیپک گھناٹے سرکا ذہن خوشی سے سرمست تھا، انہیں یقین ہوچلاتھاکہ ان کی تعلیم مستقبل میں بھی رائیگاں نہیں جائے گی کی طلبہ ان کی سیاسی تدریس کو بھی باشعورطریقے سے سمجھ لیتے ہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!