افسانچہ ”پہلی اور آخری نصیحت“

محمدیوسف رحیم بیدری، بیدر۔ کرناٹک۔ موبائل: 9141815923

0
Post Ad

قرآن پڑھتے پڑھتے نعیم حسینی کو محسوس ہواکہ ترجمہ کے علاوہ قرآن کی تفسیر بھی پڑھ لیناچاہیے جس سے معلومات میں اضافہ ہوگا۔ انھوں نے ایک تفسیر پوری دلجمعی کے ساتھ پڑھ ڈالی۔ خواہش میں بڑھوتری ہوئی کہ دیگر تفاسیر بھی پڑھی جائیں۔

نعیم حسینی کی مختصر لائبریری میں آج 100سے زائد تفاسیرکا ذخیرہ ہے۔ اس کے باوجود نعیم حسینی کاجی علم ِ وحی کو جاننے سے نہیں بھرتاہے۔ اس علم کے حصول کے لئے تفسیر پر تفسیر دیکھناانھوں نے عادت بنالی ہے

ان کےپیر ومرشد نے ایک موقع پر نعیم حسینی کو نصیحت کی ”میاں!یہ سب کیا ہے؟جس قدر تم نے علم حاصل کیا ہے پہلے اس پرعمل تو کرو۔ مسطح زمین پر سفر کو علمی سفر کہتے ہیں اور تم ہوکہ علم کی دلدل میں پھنستے جارہے ہو۔ حالانکہ حقیقی علم دلدل سے مبرا ہوتاہے“ انھوں نے توقف کیا۔ اور روزمرہ کے اپنے لہجے پرذراسازور دے کر استفسار کیا”تم شاید نہیں جانتے؟کہ اللہ جل جلالہُ کے کلام کی تشریح اس کے منتخب بندگان ہی کرسکتے ہیں“نعیم حسینی کچھ نہیں بولے۔پیرومرشد کی باتیں نگاہیں نیچی کئے،کان لگاکر سنتے رہے۔انھوں نے کہا” کتاب اور تفاسیر کی کتابوں میں علم ضرور ملتاہے لیکن الہام اور القاء بھی کوئی چیز ہے۔ میاں! تم اِن چیزوں پر بھی نظر رکھاکروبلکہ انہیں حرزِ جاں بنانے کی کوشش کرو،ہم فقیروں سے بھی تمہاری صحبتیں ضروری ہیں جو آج کل کم سے کم ہوگئی ہیں“

پیرومرشد کوایسی جلالی کیفیت میں کسی نے نہیں دیکھاتھا۔ اس واقعہ کے اٹھارہ انیس برس تک وہ اہل جہاں کی نظروں کے سامنے رہے لیکن کبھی انھوں نے نعیم حسینی سے کچھ نہیں کہا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!