مطالعہ سیرت رسول اللہﷺ– راہنما خطوط

از محمد عبداللہ جاوید

0
Post Ad

مطالعہ کتب کے سلسلہ میں یہ بات بڑی معروف ہے کہ اس سے انسانی حواس جلا پاتے ہیں۔شخصی ارتقاء‘ فکری بالیدگی‘ حالات کا صحیح فہم و شعور اورماضی و حال سے واقفیت جیسے کئی فوائد ہیں جن کیلیے مطالعہ کتب کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا۔دریافت اور ایجادات کی دنیا میں نمایاں کردار انہیں لوگوں کا ہوتا ہے جو مستقل مطالعہ کے ذریعہ اپنی علمی وفکری بنیادوں کوپائیدار بناتے ہیں ۔نفسیاتی نقطہ نظر سے یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ کسی شخصیت پر لکھی گئی کتاب کے مطالعہ سے کئی قلبی و روحانی فوائد میسر آتے ہیں۔

دنیا میں ایسی کئی شخصیات ہیں اور سابق میں بھی رہی ہیں جنہوں نے انسانوں کے ایک بڑے طبقہ کو متاثر کیا ہے۔آج کا دور جن انسانی اور معاشرتی مسائل سے دوچارہے ‘ان کا کسی درجہ حل سابق و موجود شخصیات کی زندگیوں سے حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کا اصل سبب یہ ہے کہ جس شخصیت کی زندگی کا مطالعہ کیا جاتا ہے ‘قاری اس کی زندگی اور اسکے کمالات کا موازنہ خود اپنی زندگی ‘اعمال اور حالات سے کرتاہے۔نتیجتاً اس تقابل سے اسکووہ اصول اور اقدار میسر آتے ہیں جن سے نہ صرف اسے ترغیب ملتی ہے بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ ان کے ذریعہ زندگی کے نشیب و فراز آسانی سے پار کئے جاسکتے ہیں۔
چنانچہ مطالعہ کتب کی قسم (genere)میں شخصیات پر لکھی سوانح(biographies)مقبول عام ہورہی ہیں حتی کہ ان پر بن رہی فلمیں(biopic) بھی پوری دنیا کو نفسیاتی و ثقافتی پہلوؤں سے متاثر کرنے میں کامیاب نظر آتی ہیں۔بحیثیت مجموعی مطالعہ کتب اس قدر انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہے کہ کتابوں کی محبت (bibilophilia) اب باضابطہ ایک ڈسپلن کی حیثیت اختیار کرگئی ہے اورbibilophile اس شخص کو کہا جانے لگا ہے جسے کتابوں سے محبت ہے۔

مطالعہ‘ ایک فطری عمل
عرض یہ کرنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسانی صلاحیتوں کوجلا بخشنے اورمختلف امور ومسائل میں مطالعہ کے ذریعہ ترغیب وحوصلہ پانے کامادہ رکھ دیا ہے تو بحیثیت مسلمان‘ ہماری اولین توجہ کی مستحق رسول اکرمؐ کی ذات اقدس ہونی چاہیے ۔اور اس جانب حق و صداقت اور عدل و انصاف کی پیاسی دنیا کو رحمت للعالمینؐ کی مثالی زندگی سے متعارف کرانا اوراس غرض کیلیے تمام معروف ذرائع اختیار کرنا بھی اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔

رسول اکرمؐ کی سیرت سے متعلق مختلف زبانوں میں سینکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں اورآج بھی اس کا سلسلہ باقی ہے۔ہم میں کا ہر صاحب ایمان شخص ‘ زندگی میں ایک سے زائد سیرت رسولؐ پر لکھی کتابوں کا مطالعہ کیا ہوگا۔لیکن اگر ہم اپنے ذرائع و وسائل کا استعمال کرتے ہوئے افراد ملت‘ مرد و خواتین ‘ کا جائزہ لیں تو بلاشبہ ایسے افراد کی تعداد قابل لحاظ معلوم ہوگی جنہوں نے زندگی میں کبھی سیرت رسولؐ کا مطالعہ ہی نہیں کیا ہوگا۔

اس تناظر میں دو پہلوں سے غور و خوص ہونا چاہیے۔ ایک یہ کہ جن لوگوں نے کتب سیرت رسول ؐکا مطالعہ کیا ہے ‘ ان کے پیش نظر اب مطالعہ کا طریقہ اور ترجیحات کیا ہونی چاہیے۔ دوم یہ کہ افراد ملت میں سیرت رسولؐ کے مطالعہ کا رجحان کیسے فروغ دیا جاسکتا ہے؟ذیل میں ‘پہلے نکتہ پر گفتگو پیش نظر رہے گی یعنی جنہوں نے سیرتؐ کا مطالعہ کیا ہے ان کے پیش نظر اب کیا راہنما خطوط ہونے چاہئیں۔ اس سے وہ لوگ بھی استفادہ کرسکتے ہیں جنہوں نے اب تک سیرت رسولؐ کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔

مطالعہ سیرت رسول اللہؐ کی اہمیت و ضرورت
قرآن کریم انسانوں کی ہدایت واصلاح کیلیے ہے۔اس غرض کیلیے اس کتاب کا پڑھنا (اقراء)لازم قراردیا گیا۔مطالعہ قرآن کے معنی مطالعہ سیرتؐ کے بھی ہوں گے کیونکہ قرآ ن نے رسول اللہؐ کی زندگی کوتمام انسانوں کیلیے بحیثیت ایک بہترین نمونہ (اسوہ حسنہ)پیش کیا ہے۔مطالعہ سیرتؐ سے مراد نہ صرف یکسوئی سے احادیث کا پڑھنا مراد ہوگا بلکہ آپؐ کی سیرت مبارکہ پر لکھی کتابیں بھی اس میں شامل ہوں گی۔اور یہ قاری پر منحصر کرتاہے کہ وہ کس کمال درجے سے احادیث رسولؐ کو سیرتِ رسولؐ سے تقابل کرتے ہوئے حق بات تک رسائی کرجاتاہے۔

ایک اورپہلو یہ ہے کہ انسان کی ذہنی ساخت اور فہم و ادراک کی قوتوں پر زمانے کی ترقی اور حالات کابڑا گہر ا اثرپڑتاہے۔ یعنی جو بات پہلے سمجھی گئی تھی‘ اس کو مزید بہتر انداز سے سمجھنے میں فی زمانہ کافی وسائل و ذرائع میسر آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہر زمانہ کی ترقی ‘ پچھلے زمانوں کی ترقی سے آگے کے مراحل طے کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس پہلو سے اگر سیرت رسولؐ پر آپ غور فرمائیں تو محسوس ہوگا کہ اب زمانے کے نشیب و فراز اورمسائل و دشواریوں نے انسانوں کو گویاپہلے سے زیادہ رشد و ہدایت کا محتاج بنادیا ہے۔

انسانی ترقی کے تدریجی مراحل درحقیقت دین اسلام کی تعلیمات سے ہم آہنگ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ زمانے کی ترقیاں ‘چاہیں کبھی بھی ہوں اور کسی بھی پہلو سے ہوں‘وہ حقیقی معنوں میں دین اسلام کو سمجھنے کیلیے زمانے کو سازگار اور انسانی قلوب و اذہان کو مخصوص انداز سے تیار وآمادہ کرتے ہیں۔قرآن کریم ‘ سیرت رسول ؐ اور علوم اسلامی پر اب تک بے شمار تفاسیر اور کتابوں کا شائع ہونا ‘زمانے اور انسان کے اسی تدریجی ارتقا ء کی غمازی کرتا ہے ۔یہ تمام تصنیفی کام محض اجر و ثواب کے لیے نہیں ہوئے ہیں بلکہ ہر کاوش کیلیے علمی و فکری بنیادیں اور متعلقہ دور کے تقاضے رہے ہیں جن کے مطالعہ سے اسوقت بھی حیرت انگیز انقلاب برپا ہوا تھا اور آج بھی ان ہدایت و راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔اس تناظر میں آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ سیرت نبویؐ کا ہر پہلو ‘ درپیش حالات وضروریات کے تحت کیسے بے پناہ اصلاح و تربیت کا سامان بہم پہنچا سکتاہے؟

مطالعہ سیرتؐ کے راہنما خطوط
سیرت رسولؐ کے مطالعہ کے لیے حسب ذیل خطوط کار ہونے چاہیے:

(1) رسول اللہ ؐ کی ذات اقدس ‘مثالی نمونہ ہے۔ان معنوں میں کہ کوئی بھی شخص اس سیرتؐ کی روشنی میں اپنی دنیا و آخرت سنوارسکتا ہے۔ مطالعہ سیرت کا ایک بنیادی پہلو ‘ سیرت نبویؐ سے بامعنی استفادہ اور راہنمائی ہونا چاہیے۔مطالعہ اس نہج پر ہو کہ آپؐ کے اسوۂ حسنہ کاہر پہلو ‘زندگی کیلیے راہنما بن جائے۔بطورخاص تعلق باللہ‘ رضائے الہی‘مومنانہ کردار‘ اعلائے کلمۃ اللہ‘ معاملات کی شفافیت‘ انسانوں کی خدمت‘ صلہ رحمی‘ قیامت کی نشانیاں‘ پر فتن دور میں مطلوبہ کردار جیسے موضوعات کا گہرا فہم و شعور حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

(2) رسالت پر ایمان کا اہم ترین تقاضہ ‘ اتباع رسول اللہؐ ہے۔آپؐکی اتباع‘قابل عمل ہے۔بلکہ رسول اللہؐکی زندگی ‘اتباع کیلیے قابل عمل نمونے پیش کرتی ہے۔آپؐ کا اٹھنا ‘بیٹھنا‘ کھانا‘پینا‘ سونا اور جاگنا‘ بول چال ‘ گھر اور پڑوس کیلیے آپؐ کا کردار ‘ معاشرتی امور پر توجہ اور ان کے اصلاح کی کوشش….غرض صبح اٹھنے سے رات سونے تک کے تمام معاملات میں آپؐ کے اسوہ کے مختلف پہلو راہنما بن جاتے ہیں۔یہ ایک اعزاز کی بات ہوگی کہ آپ خود ان عملی پہلوؤں کو سمجھیں اور عملاً اپنی زندگی میں اختیار کریں۔آپؐ نے فرمایا لَاآکَلُ مُتَّکِےْاً (بخاری) تو آپ بھی کبھی ٹیک لگا کرکھانا نہ کھائیں۔جب رسول اکرمؐ کا فرمان تبَسُّمُکَ فِیْ وَجْہِ اَخےْکَ صَدَقَۃٌ (ترمذی)پڑھیں تو ہر حال میں اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا آپ کی شخصیت کی پہچان بن جائے۔آپؐ نے فرمایا اَنَا خَےْرُکُمْ لِاَھْلِی(ترمذی)تو آپ بھی اپنے اہل و عیال کیلیے سراپا رحمت بن جائیں۔جب آپؐ نے فرمادیا کہ مَنْ رَاءَ مِنْکُمْ مُنْکَراً فَلْےُغَےِّرُہُ بِےَدَہٖ(مسلم) تو جب بھی جہاں بھی برائی دیکھیں تواسکو ہاتھ سے مٹانا‘ آپ کے معمولات کا حصہ بن جائے۔
ایسے اور بھی بے شمار امور ہیں جن پر غور و فکر اور عمل‘ اتباع کے دائرے میں آتا ہے۔ سیرت نبویؐکا مطالعہ ان عملی پہلوؤں کو ان کی حقیقی اسپرٹ میں سمجھنے اور اپنی زندگیوں میں ڈھالنے کے لیے ہونا چاہیے۔

(3) موجودہ حالات کی بہتری کیلیے رسالت مآبؐ کی وہ کونسی تعلیمات ہیں جن کے ذریعہ اصلاح کا کام ہوسکتا ہے؟ حالات کے صحیح فہم و شعور سے متعلق کیا راہنمائی ملتی ہے؟ سیرت کا مطالعہ اس طرح ہوکہ حالات سے متعلق ان امور کیلیے موثر راہنمائی میسر آجائے۔حالات کی بہتری کیلیے نبویؐلائحہ عمل کا ہر جز اپنے اندر رشد و ہدایت کا بے پناہ سامان رکھتا ہے۔ بس اس ایک دعا پرغور فرماکر دیکھ لیں۔ اَللّٰھُمَّ خُذْ بِےَدِنَا فِی الْمَضَاءِق – اے اللہ مشکل حالات میں تو ہمارے ہاتھ تھام لے۔ وَاکْشِفْ لَنَا وُجَوہَ الْحَقَاءِق- اور ہم پر حالات کی صحیح عکاسی فرمادے- وَافِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَ تَرْضٰی- اور ایسے اعمال انجام دینے کی توفیق عنایت فرما جن سے تو خوش اور راضی ہوتا ہے۔

(4) رسول اللہؐ کی تعلیمات میں بڑی وسعت ہے۔ مطالعہ اس طرح سے ہو کہ موجودہ دور کی ترقی ‘حالات اور ضروریات کے لحاظ سے تعلیمات نبویؐ میں موجود وسعت بخوبی معلوم ہوجائے۔مثلاً آپ ؐ نے اونچائی پر اللہ کی تکبیر بیان کرنے کی تاکید فرمائی ہے‘ آپؐ اور حضرات صحابہ کرامؓ کا ایسا ہی معمول تھا۔اُس زمانے میں اونچائی کاایک تصور تھا لیکن دور حاضر کی ترقی نے اس اونچائی کو مزید بلندیاں عطا کی ہیں۔ غور کریں تو محسوس ہوگا کہ آپؐ کی تعلیمات میں کتنی وسعت پائی جاتی ہے۔حلف الفضول کی اہمیت اور سیرت میں اس کے مقام سے ہم سب واقف ہیں۔ اسوقت کے حالات اور اس نظم کا بننا اور آج کے حالات اوراس نظم کی ضرورت پرغور فرمائیں۔ اسی طرز پر صلح حدیبیہ اور میثاق مدینہ کا آج کے حالات سے تقابل کرتے ہوئے غور فرمائیں….آپؐ کی حکمتِ دعوت اور انقلاب کی وسعتیں از خود واضح ہوجائیں گی۔
غرض اُس وقت کے حالات و ضروریات کا آج کے دور کے تقابل کے ساتھ سیرت رسولؐ کا مطالعہ ہو۔ غایت درجے غورو فکر اور مطالعہ حدیث و سیرت سے ان اصولوں اورقدروں کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے جن سے نہ صرف فرد یا افراد مستفید ہوں بلکہ پورا معاشرہ تعلیمات نبوی ؐ سے منور ہوجائے۔

(5) سیرت بنویؐ کے مطالعہ کا ایک طریقہ ایسا بھی ہو جس سے مختلف علوم و فنون اوررائج رجحانا ت کو صحیح طور سے سمجھنے اور ان کے قابل اصلاح پہلوؤں پر توجہ دینے میں مدد مل سکے۔ جیسے تصور انسانیت اورمختلف ماہرین سماجیات کے افکار۔ ماہرین نفسیات کے مخصوص تصورات نیز موجودہ رجحانات میں رہن سہن ‘بناؤ سنگھار اور مخصوص وضع وقطع اختیار کرنا وغیرہ۔
آپ جانتے ہیں دنیا کے تصور انسانیت میں فی الوقعی خدا کا کوئی وجود نہیں‘ جبکہ سیرت و تعلیمات نبویؐ سے مترشح ہوتا ہے کہ بغیر خدا کی محبت کے انسانوں سے انسانوں جیسا سلوک ممکن ہی نہیں۔نفسیاتی پہلو سے انسان کا مقام ومرتبہ ایک جانور سے زیادہ نہیں بتایاگیا جبکہ رسول اکرمؐ کی تعلیمات سے عظمت انسانی اور اسکے اعلی وارفع مقاصد واضح ہوتے ہیں۔سیرت رسول اللہؐ کامطالعہ ان پہلوؤں سے ہو تو ممکن ہے کہ نت نئے ظلم سے دوچار دنیا کو سکون و عافیت کا ماحول فراہم کرنے کا جذبہ ہمارے اندر پیدا ہوگا۔

(6) مخلوط سماج کی بھلائی کیلیے سیرت رسولؐ سے کیا رہنمائی میسر آتی ہے؟ مختلف اقوام کے ساتھ تعاون دینے اور لینے کے کیا رہنمااصول معلوم ہوتے ہیں؟دیگر اقوام کے مذہبی رسوم و رواج کی موجودگی میں افراد ملت کیسے اپنا تشخص برقرار رکھ سکتے ہیں؟سیرت کے مطالعہ سے ان پہلوؤں پر بھی اطمینان ہونا چاہیے اور انفرادی و اجتماعی عمل کی ترغیب بھی ملنی چاہیے۔اس ضمن میں مطالعہ اور غوروفکر کے لیے مکی دور اور مدنی دور کے ابتدائی سال پیش نظر رہنے چاہیے۔

(7) کسی بھی قابل عمل تصور اور منصوبہ کو سمجھانے کا آج کل ایک انوکھا طریقہ اختیار کیا جارہا ہے۔ مختلف عمر کے بچوں کوکوئی بھی تصور یا منصوبہ اس طرح سمجھایا جاتا ہے کہ وہ تمام متعلقات سے بخوبی واقف ہوجائیں ۔کسی بھی میدان میں اپنائے جانا والا یہ ایک منفرد طریقہ ہے ۔اگر سیرت رسولؐ کا ہم اپنے بچوں کے ساتھ مطالعہ کریں تونہ صرف ان میں پیارے بنیؐ سے متعلق محبت و عقیدت میں اضافہ ہوگا بلکہ سیرت کے ایسے بے شمار پہلو رونما ہوں گے جنہیں سمجھاتے ہوئے خود ہمارے علم و فہم میں اضافہ ہوگا اور سیرت کے مختلف پہلوؤں کو نئے سرے سے سمجھنے میں مدد ملے گی۔جیسے رسول اللہؐ کی بچپن کی پاکباز زندگی‘ تعلیم و تربیت کیلیے آپؐکادیہات میں گذر بسر ‘غار حرا میں قیام ‘وحی کا نزول‘ آپؐ کاامی ہونا‘ بچوں کیلیے آپؐ کی شفقت و محبت ‘واقعہ معراج و شق القمر‘ابتلا و آزمائش ‘ ہجرت ‘ غزوات وغیرہ۔
یہ چند راہنما خطوط ‘مطالعہ سیرت رسولؐ کیلیے نئی جہتوں کا ایک قابل عمل خاکہ پیش کرتے ہیں۔ان پر مزید غوروفکر اور ترجیحات کے پیش نظر مطالعہ کا باضابطہ آغاز باعث خیر و برکت ہوگا۔آپ اپنے مطالعہ کیلیے سیرت رسول اللہ ؐ سے متعلق کسی کتاب کے علاوہ مجموعہ حدیث کا انتخاب کرسکتے ہیں۔سچ بات تو یہ ہے کہ رسول اکرمؐ سے جتنی راہنمائی حاصل کی جائے گی اور جس قدر روز مرہ کے انفرادی و اجتماعی معمولات ومعاملات آپؐ کی تعلیمات کی روشنی میں انجام پائیں گے اسی قدر ہمارے دلوں میں رسول اللہ ؐ کی محبت پروان چڑھے گی اور- فِدَاہُ اُمِّی وَ اَبِی – میرے ماں باپ آپؐ پر قربان- جیسے الفاظ دل کی عمیق گہرائیوں سے ادا ہوں گے جیسے حضرات صحابہ کرامؓ فرمایاکرتے تھے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!