سوشیل میڈیا کا بآسانی اور بے لگام استعمال، ایک نعمت یا….؟

محمدیوسف رحیم بیدری، بیدر۔ کرناٹک۔ موبائل:۔ 9141815923

1
Post Ad

سوشیل میڈیا جب سے ایک پلیٹ فارم بن کر آیاہے، تب سے خصوصاً نوجوانوں میں ایک مسرت اور خوشی کاماحول ہے۔ سیاسی، لسانی، تہذیبی، مذہبی اور ادبی جہدکاروں نے بھی سوشیل میڈیا کو خوش آمدید کہا اورکروڑہا لوگ اس پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے اور اپنی زندگی کے بے حساب گھنٹے اور لاکھوں دن سوشیل میڈیا پر صرف کرنے میں مشغول ہیں۔
سماجی علوم کے ماہرین کاخیال ہے کہ سوشیل میڈیاکااس قدر استعمال انسان کو تنہائی پسند بناتاجارہاہے۔ اس کی نفسیات میں تبدیلی آرہی ہے۔ خودکشی کے کیسس میں اضافہ ہواہے۔ سوشیل میڈیاسائٹ پر اپنی ویڈیوکلپ بناکر خودکشی کرلینے کے رجحان میں اضافہ انسانیت کے لئے سوچنے والی با ت ہے۔ جو شخص کل تک سوشیل میڈیا پر اپنی اور اپنے دوستوں اور گھر بار کی تصویریں TaqاورUploadکرتاتھا، آخر میں وہ اپنی موت کی ویڈیو بھی راست LIVEنشرکررہاہے۔ یہ نفسیات دراصل سماج سے ایک بغاوت ہے۔ اس میں سماجی ناکامی اورانتظامیہ کی ناکامی کا واضح اشارہ ہے۔ جس انسان کو دنیا میں جینا اور زندگی کرناہے وہ اپنے کام کو چھوڑ کر جارہاہے۔اپنی زندگی کوختم کررہاہے۔ اگر معاملہ دنیاکو چھوڑنے تک محدودہوتاتو کوئی بات نہ تھی۔ چپ چاپ مرجاتالیکن یہ کیابات ہوئی کہ اپنی زندگی کے خاتمہ کو اس نے LIVE دینا ضروری سمجھا۔ راست نشریات کی نفسیات سماج سے خفگی اور اس سے بغاوت کااشارہ ہے۔
سیاسی حوالے سے ہم اگرسوشیل میڈیا کو دیکھیں تو سب سے زیادہ بیچینی سیاسی گلیاروں میں ملتی ہے۔ جب تک پرنٹ میڈیارہا، ایسا نہیں ہواکہ بہت سے لوگ اپنی پارٹی کا موقف بتانے اوراپنے قائد کی بات سمجھانے مختلف مسائل پر بولے جارہے ہوں۔ جو بھی پارٹی کا ترجمان ہوتا یا صدر، نائب صدر، سکریڑی کسی مسئلہ میں کوئی بات کہہ دیتااور بات ختم ہوجاتی۔ سوشیل میڈیاکی آمد نے سیاست دانوں کو شہرت دینے کے ساتھ ساتھ بہت سے کام پکڑ ادئے ہیں۔ اپنی بات رکھنا، اس پر وضاحت دینا تو ٹھیک ہے لیکن حکومت پر تنقید کرنا، حکومت کومختلف کام سے روکنے کے لئے ایک ”سیاسی رکاوٹ“ بنانے کاکام سوشیل میڈیا پر جس منصوبہ بندطریقے سے ہورہاہے اس کی مثال پہلے نہیں ملتی تھی۔ اس قدر رقم اوراس قدر افراد سوشیل میڈیا میں لگے ہوئے ہیں کہ جس کاعوام کو اندازہ نہیں ہے۔ جو سوشیل میڈیا کم قیمت میں آسانی سے عوام کودستیاب ہے، اس پر بڑے پیمانے پر ہونے والاخرچ سیاسی قائد ین سے پوچھیں تواندازہ ہوگاکہ پرنٹ میڈیا کے دور سے زیادہ رقم الیکٹرانک اور سوشیل میڈیا کے دور میں خرچ کی جارہی ہے۔ سیاسی کا م اب آسان نہیں رہا۔ نئی اور اقتصادی طورپر کمزورسیاسی پارٹیاں تو اس رقم کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتیں۔البتہ محلہ اور شہر کے سطح پر دس پندرہ کارکنان اپنے سوشیل میڈیا اکاونٹ پر اپنی خبروں اور تصاویر کو اپلوڈ کرکے خوش رہ سکتی ہیں۔
کل جب پرنٹ میڈیا میں کوئی اختلافی چیز شائع ہوتی تھی تو دوسرے دن اس کاجواب آتاتھا۔ درمیان میں کئی گھنٹوں تک سکون رہتاتھالیکن سوشیل میڈیا آنے اورہزارہاچینلوں کی بھرمار کے بعد حالات یوں ہیں کہ سیاست دانوں کو کسی بھی مسئلہ میں فوری جواب دیناہے۔ جیسے ہی وہ جواب دے گا۔ اس جواب کا جواب فریق کے پاس تیار ہے۔ پھر انھیں جواب دینا ہے۔ گویا سیاسی زندگی میں اور کوئی کام نہیں ہے۔ مسلسل لگے رہئیے۔باتھ روم جارہے ہوں تو پہلے جواب دیں پھر باتھ روم جائیں والی کیفیت اعلانیہ دیکھی جاسکتی ہے۔ابتداء میں تو سوشیل میڈیا اوسط درجہ کے سیاست دانوں کے لئے بہترتھالیکن اب ان کی زندگی اجیرن بن چکی ہے۔ اورجیساکہ آپ سب جانتے ہیں، تمام سیاسی پارٹیوں کے پاس میڈیاسیل کے نام پر دراصل ”سوشیل میڈیا سیل“ کی باڑھ آئی ہوئی ہے۔ یہ لوگ میڈیا سے مخاطب ہونہیں سکتے کیونکہ پارٹیوں نے گراؤنڈ سطح کے ان نئے نوجوانوں کو اس خود ساختہ”میڈیا سیل“ کا ذمہ داربنادیاہے۔ ا ن کاکام ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے واقعات پر نظر رکھیں اور اپوزیشن میں ہیں تومسائل کو اٹھائیں اور اقتدار میں ہیں تو اپوزیشن کی جانب سے کئے جانے والے سوالات پر نظر رکھیں اور خود ہی گراونڈ سطح پرجوابات دیتے رہیں اور ہوسکے تو ہنگامہ بھی کھڑا کردیں،بلکہ ایک دوسرے کے گلے پکڑ لیں۔ جس کو”ڈیجیٹل سیاسی ہنگامہ“ کہاجاسکتاہے۔ اس تعلق سے ابھی سروے نہیں ہواکہ کتنے نوجوانوں کو سیاسی پارٹیوں نے ہائیر کررکھاہے لیکن سچ یہ ہے کہ پوری قومیں ”اس سیاسی ڈیجیٹل مہاماری“ میں لگی ہوئی ہیں۔ اور معاشرے میں اپنے سیاسی افکار ونظریات پھیلاتے ہوئے پورے معاشرے کو اپنے رنگ میں رنگنا چاہتی ہیں۔ دس پندرہ سال پہلے ایسا نہیں تھا۔
سیاسی ماہرین کاکہناہے کہ سوشیل میڈیا کازمانہ نہیں تھاتب سیاست میں کافی سکون تھا۔ترقیاتی کام بھی قاعدے اور کوالٹی کے ہوتے تھے۔ اب صرف لیپاپوتی سے کام لیاجارہاہے تاکہ سوشیل میڈیا پر تصاویر اور ویڈیو ڈال کرسیاست دان عوام کو مطمئن کرسکے۔ ایک اور سیاسی ماہرنے سوال کیاہے کہ یہ بتائیں سوشیل میڈیا کے اس دور میں آیا معاشرہ سکون سے رہ رہاہے۔ ماناکہ آپ کی آواز فوری طورپر حکومت تک پہنچ رہی ہے۔ جب آپ کی بات حکومت سوشیل میڈیا کے ذریعہ سن رہی ہے تو کیامسائل حل ہورہے ہیں؟ معاشرے میں اگر امن وسکون نہیں ہے تو ایسی مشینوں اور ایجادات سے کوئی فائدہ نہ ہوگااسلئے سوچئے کہیں سوشیل میڈیا کی بدولت اپناسکون تو غارت نہیں کررہے ہیں؟
ٹوئیٹر پر ہونے والی سیاست دانوں اور فلم اسٹاروں کی جنگ کو چینلوں نے اپنے ذریعہ عوام تک پہنچاکر سیاست دانوں اورفلم اسٹاروں کو جہاں ہیرو بنایا وہاں ان کی جنگ کو عوام تک پہنچاکرعوام کو آج بھی تالی بجانے والااور تماشائی ہی بنائے رکھا۔ جمہوریت میں عوام بادشاہ ہے لیکن یہ ایک ایسی مشینی جمہوریت ہے جہاں ہر شخص تماشائی ہے۔ تالیاں بجانا اس کا کام ہے۔ اس سے بڑھ کرعوام کاکوئی رول نظر نہیں آتا۔
کورونا کی مہاماری کے اس عہد میں گذشتہ سواسال کے درمیان آن لائن پروگرام، کلاسیس، اور ویبینارکا بڑے پیمانے پر تعارف اوراستعمال شروع ہوچکاہے۔ کہاجارہاہیکہ آئندہ کے انسان کو آ ن لائن رہناہے۔ گھر ہی دفتر ہوگاوغیرہ وغیرہ۔ کئی ایک معرو ف کمپنیوں نے اپنے آ ن لائن ویبینار مفت چلارکھے ہیں۔یونیورسٹیزبھی اپنے آڈیٹوریم کاتعارف پورے ملک اور دنیا میں مفت داخلہ کے ذریعہ کروارہی ہیں۔ا س قدرآ ن لائن پروگرام اور ویبینار کی بھرمار ہے کہ یاد نہیں رہتاکہ کس کا پروگرام کون سی تاریخ اور کس وقت ہے؟ اس قدر آن لائن ٹریفک اور پروگراموں پر روک ممکن نہیں ہے۔دوسری جانب انسان اور جنٹلمین یامستقبل بنانے والے نوجوانوں سے آن لائن پروگراموں نے ان کاسکون چھین لیا ہے۔طلبہ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہورہاہے۔ شاید آپ میری بات سے متفق نہ ہوکیونکہ آپ نے سوشیل میڈیا کی تباہی پر زیادہ غور نہیں کیاہے۔ اسلئے آپ مجھ سے اتفاق نہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں، سچ ہی کہتے ہوں گے کہ سوشیل میڈیایاانٹرنیٹ کی آمد نے بہت کچھ آسان کردیاہے، بلکہ انسانی دسترس میں پہنچادیاہے۔ تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جویہ سمجھتے ہیں کہ انٹرنیٹ کے بے تحاشہ استعمال نے
۱۔ انسان کوتنہا کردیاہے۔ ۲۔ انسان اپنامقصد زندگی بھول چکاہے۔ اور انٹرنیٹ کا ناظر بن چکاہے۔ ۳۔ انٹرنیٹ اور سوشیل میڈیا چلانا ہی اس کامقصد زندگی ہے وہ اس کے بغیر جینے کاتصورنہیں کرتاجبکہ بحیثیت انسان ا س کو اپنے خالق ومالک اور اس کا کنبہ یعنی انسانوں کی فلاح وبہبودکے لئے جیناہے۔ ۴۔ مردو خواتین کے آپس میں ملنے اور زندگی کرنے کی ضرورت اور حقیقت کوانٹرنیٹ اورسوشیل میڈیا نے پارہ پارہ کردیاہے۔ قربتوں کو ہجر اورہجرکو تصوراتی قربتیں میسر ہیں، گناہ ہرگھر کی کہانی بن چکا ہے۔ ۵۔ ہرقسم کے جرائم میں بے تحاشہ اضافہ ہواہے۔جس کا ڈاٹا جمع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ۶۔سوشیل میڈیا اور انٹرنیٹ کی بے لگام آزادی پر حکومت کنڑول نہیں کرپارہی ہے کیونکہ عوام سمجھتی ہے خود حکومت ظلم کے ہتھیار سے لیس رہ کر برسراقتدارآئی ہے اس لئے انٹرنیٹ کو لے کر اس کے جائزمطالبات اور انسانی فلاح کے کام بھی عوام کی نظرمیں اہمیت نہیں رکھتے۔ ۷۔ انسان انسان کی صورت سے بیزار اور سوشیل میڈیاکابے دام غلام بن چکاہے۔ ۸۔ یہ غلامی امریکہ اور مغربی ممالک کی دین ہے۔ اوراس غلامی کاRatio ترقی پذیر تماشائی ممالک میں زیاد ہ ہے۔
مذکورہ نقصانات سے بچنے کے لئے کوشش کریں کہ
۱۔ سوشیل میڈیا کااستعمال کم کیاجائے بلکہ کم سے کم وقت سوشیل میڈیا کو دیں۔ ۲۔ اپنے مقصد زندگی کویادرکھتے ہوئے اپنی زندگی کے قیمتی ترین وقت کو محفوظ کرنے اور مثبت کام میں لگانے کی سعی کریں۔ ۳۔ انسان سماجی جانور ہے ناکہ سوشیل میڈیائی مخلوق، اسلئے سماج میں رہنے، ایک دوسرے کادکھ سکھ قریب پہنچ کر ملاقات کے ذریعہ جاننے اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کے اقدامات کئے جائیں۔ غیرمرد اور غیر عورت کا تصور گناہ سمجھاجائے اور گناہ کرنے پرحکومت اور خداکی طرف سے ملنے والی سزاؤں کااستحضار ہو۔ ۴۔ انسان جرائم سے بچے۔ شرافت انسانی مزاج اور انسانی سماج کی ضرورت ہے۔ ۵۔ اچھی حکومتوں کوبرسراقتدار لانا عوام کافریضہ ہے۔ ایسی حکومتیں جو انسانوں کا مسیحا بن کر حکومت کریں۔ اوراس کے لئے ہرقسم کی قربانی دینے کو عوام اپنافریضہ سمجھے۔ ایسی حکومتیں ہی انسانوں کے حق میں بہتراقدامات کرسکتی ہیں۔ اگر حکومتیں سوشیل میڈیا پلیٹ فارم پر پوری پابندی عائد کردیں تب بھی عوام کو یقین ہوگاکہ یہ ہمارے حق میں بہتر ہے۔ ۶۔ غلامی سوائے اللہ کے کسی کی نہ ہو۔ انسان صرف احترام کے لائق ہے۔ لہٰذا ترقی یافتہ ممالک کا احترام کیاجاسکتاہے لیکن ان کی غلامی نہیں۔

1 تبصرہ
  1. محمدیوسف رحیم بیدری کہتے ہیں

    جزاک اللہ خیرا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!