بسواکلیان کے مسلم ووٹرس خود متحد ہونے کے علاوہ دیگر طبقات کے ساتھ بھی اتحاد کریں گے؟

1
Post Ad

محمدیوسف رحیم بیدری، بیدر۔ کرناٹک۔ موبائل:9141815923

عموماً مسلمان اپنے بارے میں سوچتے ہیں اور جیسے جیسے ملک عزیز ہندوستان میں سیاسی انحطاط بڑھ رہاہے، مسلمان کچھ زیادہ ہی اپنے بارے میں سوچنے لگاہے۔ وہ مسلمان جس کو دنیابھر کی رہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے دنیامیں بھیجا تھا آج وہ خود اپنی سیاسی رہنمائی سے محروم ہے۔یہ سیاسی رہنمائی نہ ہونے کانتیجہ ہے کہ وہ خود تک محدود ہوتاجارہاہے اور مسائل ہیں کہ بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ ان ہی مسلمانوں میں بسواکلیان کے مسلمان بھی شامل ہیں۔
بسواکلیان کا مسلمان ہونہارہے، کاروباری ہے، تجارت پیشہ ہے۔ محنتی ہے، جفاکش ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ہائی وے کے قریب رہتاہے۔ ممبئی، پونہ، شولاپور، لاتور، گلبرگہ اور حیدرآبادجیسے شہروں سے کاروباری طورپر جڑا ہواہے۔ کاروبار کا ایک وسیع تجربہ اور میدان اس کے سامنے ہے۔کاروبار کے میدان میں بڑے نہ سہی مستحکم مسلم نام بھی یہاں سے لئے جاسکتے ہیں۔ یہاں کامسلمان سیاحت کادلدادہ بھی ہے چونکہ دیگر تعلقہ جات کے مسلمانوں کی بہ نسبت بسواکلیان کے مسلمانوں کے ہاتھ میں پیسہ جلد آجاتاہے، اس لئے سیاحت اور گھومنا پھرنا، دنیاکو محسوس کرنا اس کی جیسے سرشت میں شامل ہوچکاہے۔ تعلیم کی طرف بھی بسواکلیان کامسلمان متوجہ ہے۔
لیکن جب وہ سیاست کی طرف پلٹتاہے تو اپنے طبقہ کا کوئی بڑا نام اس کو سننے نہیں ملتا۔ وہی سیاسی پسماندگی جو دیگر تعلقہ جا ت کامقد رہے یہاں کے مسلمانوں کابھی مقدر ہے۔ سیاسی شعور ہے، تاہم اجتماعی سیاسی بیداری کم ہے۔ یہاں کامسلمان باہر سے آنیو الے افراد کی قدر ضرور کرتاہے لیکن اپنی مسلم لیڈرشپ سے وہ گویا معذور ہے حالانکہ قریب قریب 30فیصد کی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اردو بولی سمجھی اور پڑھائی جانے والی زبان ہے۔کئی اردو اسکول ہیں جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کرتی ہے۔یعنی اس کی اپنی زبان بھی سرکاری سطح پر محفوظ ہے۔ فی الحال انگریزی اسکولوں کی باڑھ بھی آئی ہوئی ہے جو اردو اسکولوں کو کھانے اور اس کو تباہ وبرباد کرنے میں لگی ہے، ہرشہر کی طرح یہ اردو اسکول انگریزی اسکولوں کا نرم نوالہ بنے ہوئے ہیں۔اور ان انگریزی اسکولوں کو مسلم اقلیت چلاتی ہے۔ بہرحال یہاں کاماضی مسلم نوابوں کے ساتھ جڑا رہاہے۔ایسے میں ایک امیدنئی نسل سے بندھتی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اس تعلقہ کی قیادت کرے گی لیکن نئی نسل کی تربیت کہاں ہوئی ہے؟ یہ نکتہ اہم ہے۔ جن نوجوانوں کی تربیت سیاسی طورپر نہ ہوئی ہو وہ سیاسی قیادت سے معذور ہی سمجھے جائیں گے۔
اسمبلی کے موجودہ ضمنی انتخابات2021 میں مسلمان کی ایک نسل جو1992کی بابری مسجد کی شہادت کے وقت تھی وہ اپناشباب پورا کرچکی ہے بعدوالی نسل میں سیاست سے زیادہ تعلیمی جراثیم پائے جاتے ہیں۔ فی الحال کی نئی نسل اپنی سیاسی تربیت سوشیل میڈیا سے لے رہی ہے۔ یہ بات ایسے ہی ہوئی جیسے کوئی سوشیل میڈیا کھول کر پانی پی ہورہاہو۔ پیاس کیسے بجھے گی؟ووٹ دینے والے کو سیاست نہیں آتی۔ جس کو سیاست آتی ہے اس کو ووٹ حاصل کرنا ہوتاہے۔ اور ووٹ حاصل کرنے کے لئے یاووٹوں کاذخیرہ کرکے انہیں ایک امیدوار کی جھولی میں ڈالنے کافن وقت بھی مانگتاہے، صلاحیت بھی اور وسائل بھی۔ بسواکلیان کامسلمان وقت، صلاحیت اور وسائل سے لد اپھندا ہوتاتو ا س کے درمیان خود قیادت ہوتی تاہم جیسی کچھ قیادت ہے وہ یکجا ہو، اپنابھلا برا سوچے اور سیاسی بلوغیت کا مظاہر ہ کرے۔ فسطائی طاقت کو روکنے کے لئے کم ضرر پہنچانے والی پارٹی کے امیدوار(آزادامیدوار بھی ہوسکتاہے)یا مسلم امیدوار کو ووٹ دینے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے لیکن اس کے لئے خود باشعور مسلم نوجوان (مردوخواتین)اگر آگے بڑھ کر دیگر طبقات کے نوجوانوں کے ساتھ مل کرگھر میں نہ بیٹھتے ہوئے کام کرتے ہیں اور کسی ایک اچھے امیدوار کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے اور اس کو استعمال کرنے کے فن سے واقف ہوتے ہیں تو کہاجاسکتاہے کہ بسواکلیان کے مسلمان(مردوخواتین)نے عملی سیاست میں بھی قدم رکھ دیاہے۔ہوسکتاہے ایسا کیا بھی جارہاہوگا(جس کا ہمیں بخوبی اندازہ نہیں ہے) لیکن اگر بڑے پیمانے پر ایسا نہیں کیاجاتاہے تو فسطائی پرچم بسواکلیان کے مختلف محکمہ جات پر لہراتے دیر نہیں لگے گی۔حالانکہ یہ وہ بستی ہے جہاں کبھی فسطائی طاقتیں پنپ نہیں سکیں۔ لیکن یہ سوچ کر بھی مسلمانوں کااپنے گھروں میں بیٹھے رہنا مناسب نہیں ہے۔
اور جو مسلمان یہ سمجھ رہے ہیں کہ 2018؁ء کو ہم مسلمانوں نے اپنے اتحاد کا مظاہر کردیا تھاآج وہی اتحاد 2021میں بھی مطلو ب ہے تو یہ ان کی غلط فہمی ہوگی۔ جولوگ انتخاب جیتنا چاہتے ہیں ان کے لئے یہ فارمولہ صد فیصد درست ہوسکتاہے لیکن جنھیں دلوں کوجیتنا ہے اور آئندہ تمام طبقات کے ساتھ مل جل کر صدیوں تک اس قطعہ میں عزت وشان اور وقار کے ساتھ آباد رہناہے،ایسے مسلم نوجوان(مردوخواتین)پر زائد ذمہ داری آن پڑتی ہے کہ وہ صرف مسلمانوں کے اتحاد پر اکتفا نہ کریں بلکہ ان کااتحاد تمام غیر مسلم بھائیوں سے ابن آدم کی بنیاد پر ہواورسیاسی حوالے سے بھی ہوکیونکہ فسطائی طاقتوں نے ملک کے حالات کو کچھ اس قدر پیچیدہ اور ناہموار بنادیاہے کہ ہرطرف خوف ودہشت اور کل کاسورج دیکھنے کیلئے زندہ رہنے کی فکر کاماحول ہے۔ جس سے بسواکلیا ن بھی بچا ہوانہیں ہے۔ آئندہ چھ دن میں بسواکلیان کے مسلمان کون سی فراست مومنانہ کااظہا رکرتے ہوئے ”تمام طبقات کے ساتھ اتحاد“ کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے قطعہ کی ہمہ جہت ترقی کے لئے ایک محنتی، جفاکش، ہمدرداور غم خوارانسانیت رکن اسمبلی منتخب کرنے میں کس طرح کامیاب ہوتے ہیں، اس کو دیکھنا ہوگا۔بقول شاعر ؎
کیوں زمانہ بھول جاتاہے ہمیں؟
رازداں سے ہم نے یہ پوچھا نہیں

1 تبصرہ
  1. محمد یوسف رحیم بیدری کہتے ہیں

    السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
    خیروعافیت محترم ایڈیٹر صاحب…. میرا مضمون شایع کرنے پر ممنون ہوں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!