دکنی ادب کے فن پاروں کو جامعاتی سطح کے نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت:ڈاکٹر انیس صدیقی بزم امید فردا کے زیر اہتمام ویبی نار بعنوان ”کرناٹک کا قدیم اردو ادب”

0
Post Ad

بیدر۔13جون (محمدیوسف رحیم بیدری)کم وبیش چار صدیوں پر محیط دکنی زبان و ادب کی شاندار روایت، تاریخ ادبیات اردو کا روشن باب ہے. دکنی زبان کے کئی با کمال اور عظیم المرتبت ادبا وشعرا نے اپنی گراں قدر قلمی کاوشوں سے خزینہ ادب کی ثروت مندی میں اضافہ کیا ہے. ان خیالات کا اظہار معروف ادیب و محقق ڈاکٹر انیس صدیقی نے بزم امید فردا بنگلور کے زیر اہتمام منعقدہ ویبی نار بہ عنوان ”کرناٹک کا قدیم اردو ادب” میں کیا. انھوں نے اپنے صدارتی خطاب میں دکنی زبان و ادب کے آغاز و ارتقاء کا اجمالاً جائزہ لیتے ہوئے ان اکابرین تحقیق کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا، جنھوں نے اپنی تحقیقی بصیرت، جستجو و لگن سے کئی گم گشتہ ادب پاروں کو دریافت کرنے کا کار عظیم انجام دیا.ان محققین اور مورخین کی وسیع تر کاوشوں کے باوجود دکنی شعر و ادب کے سیکڑوں مخطوطات مختلف کتب خانوں میں اہل نظر تحقیق کاروں کی نظر کرم کے منتظر ہیں، لیکن عہد حاضر میں جامعات میں جو تحقیقی مقالے لکھے جا رہے ہیں ان میں دکنی ادب سے متعلق موضوعات اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہیں.ڈاکٹر انیس صدیقی نے مزید کہا کہ نئی نسل میں دکنی زبان و ادب کے ذوق و شوق کو پیدا کرنے کے لیے ہائی اسکول، گرایجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی جماعتوں کی اردو نصابی کتابوں میں دکنی فن پاروں کو شامل کیا جانا چاہیے. بالخصوص دکن کے علاقے کی جامعات میں دکنی ادبیات کو ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھائے جانے کی ضرورت ہے۔ویبی نار کے مقالہ نگاروں میں سب سے پہلے نئی نسل کے معروف قلم کار ڈاکٹر سید علیم اللہ حسینی نے اپنا مقالہ بہ عنوان ”عادل شاہی دور میں دکنی ادب کا ارتقاء” پیش کیا. اپنے معلومات افزا مقالے میں انہوں نے دبستان بیجاپور کے اہم ادبا و شعرا کی علمی و ادبی خدمات کا، ان کی تصانیف کے تناظر میں مفصل جائزہ لیا. ڈاکٹر علیم اللہ حسینی مختلف شعرا کے کلام کے حوالے سے یہ ثابت کرنے کی سعی کی کہ عادل شاہی دور کے شعر و ادب میں اخلاقی و اصلاحی پہلو نمایاں ہے.دوسرے مقالہ نگار ڈاکٹر طیب خرادی نے اپنے مقالے ”قدیم اردو کی نشوونما میں حضرت خواجہ بندہ نواز رح کا حصہ” میں ممتاز صوفی بزرگ اور اردو کے اولین نثر نگار حضرت خواجہ بندہ نواز رح کی علمی وادبی کاوشوں کا بھرپور احاطہ کیا. انھوں نے مختلف حوالوں کے ذریعے کثیر التصانیف حضرت بندہ نواز رح کی اہم تصانیف کے مشمولات کا نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ جامع انداز میں جائزہ لیا.تیسرے مقالہ نگار، اردو تحقیق و تنقید کے باب میں منفرد پہچان کے حامل ڈاکٹر غضنفر اقبال اپنی نجی مصروفیات کے باعث شریک ویبی نار نہ ہوسکے. ان کا قلم بند مقالہ ”دکن کا شعری نابغہ؛:نصرتی”، بزم امید فردا بنگلور کی رکن محترمہ صبا انجم عاشی نے پیش کیا. ڈاکٹر غضنفر اقبال نے اپنے نہایت معلوماتی اور پر مغز مقالے میں دبستان عادل شاہی کے نامور سخنور نصرتی کی شعری کائنات کا مفصل محاسبہ، نصرتی کی مثنویوں ‘گلشن عشق’، ‘علی نامہ’ اور ‘تاریخ اسکندری’ کے خصوصی حوالے سے کیا اور. نصرتی کو دکن کے شعری نابغہ سے تعبیر کیا.ویبی نار کے آغاز میں بزم امید فردا بنگلور کے بانی و سرپرست اور اردو کے سرگرم جہد کار جناب سید عرفان اللہ قادری نے ویبی نار کی غرض و غایت بیان کی. مہمانان ویبی نار کا خیر مقدم محترمہ صبا انجم عاشی نے کیا. نوجوان قاری و نعت خواں جناب سید شفیق الزماں نے قرآت قرآن مجید اور نعت شریف پیش کی. سید عرفان اللہ کے اظہار تشکر پر یہ ویبی نار کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ اس بات کی اطلاع جناب سید عرفان اللہ نے دی ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!