اولیائے طلبہ کی آزادانہ رہنمائی۔ وقت کی اہم ترین ضرورت

0
Post Ad

بیدر۔ 22ستمبر (محمدیوسف رحیم بیدری) جیسے ہی پی یوکالج اور دہم جماعت کے نتائج سامنے آتے ہیں، مستقر بیدر، ضلع بیدر، ریاست کرناٹک اور بیرون ریاستوں سے ہمیں فون موصول ہوتے ہیں کہ بیدر میں واقع اسکول اور کالجس کی بابت رہنمائی فرمائیں۔ان کا ماحول، فیس وغیرہ کیا کچھ ہے؟ ہم ان فون کالس کرنیو الوں کی رہنمائی کچھ حدتک کرتے ہیں اور جب یہ دریافت کیاجاتاہے کہ ہمارے طلبہ کو اسکالرشپ کے ذریعہ کون کون سے اسکول یاکالجس مدد کرسکتے ہیں (عموماً کالجس کی بابت لوگ اس طرح دریافت کرتے ہیں) تو ہم خاموش رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں کیونکہ ہمارا تجربہ ہے کہ ہم نے یاہمارے قریبی سماجی کارکن دوستوں نے جن اسکولوں یا کالجس میں طلبہ وطالبات کو سابق میں شریک کروایاتھا ان کا آئندہ کا رویہ ان کے وعدے کے برعکس ہوتاہے۔ وہ زائد رقم طلب کرنے لگتے ہیں یاپھر اپنی کہی گئی بات سے مکر جاتے ہیں۔ یہ معاملات خانگی اقلیتی تعلیمی اداروں کے ہیں، ایک دونہیں بکثرت سننے میں آتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اس میں کچھ غلطی اولیائے طلبہ کی ہوگی اور کچھ غلطی اسکول یاکالج انتظامیہ کی ہوگی بہر حال ایک دوسرے کے تئیں اسکول (کالج) کی انتظامیہ اور اولیائے طلبہ غیر مطمئن ہیں۔انھیں کسی نہ کسی قسم کاخدشہ لاحق رہتا ہے۔ ایسے میں ہم نے اکثر سوچاہے کہ کہہ دیں کہ آپ لوگ بیدر کے بجائے اپنے مقام یا صدر مقام کے کالجس اور اسکولوں میں تعلیم حاصل کرلیں۔ پھر خیال آتاہے کہ اس طرح کی رہنمائی مناسب نہیں ہے۔ ہمارے چنددوستوں نے بیرون ریاست کے دوستوں سے کہہ بھی دیاہے کہ ایک ریاست چھوڑ کر دوسری ریاست میں کیوں آرہے ہیں؟ وہیں کسی اچھے اسکول یاکالج میں اپنے بچوں کوداخل کرائیں۔ لیکن ہم یہ سب کہہ نہیں سکے۔اسی مسئلہ کے پیش نظر ہم سمجھتے ہیں کہ آج بھی اہلیان بیدر کو ریاست کرناٹک اور بیرون ریاست سے آنے والے اولیائے طلبہ کی رہنمائی کے لئے کسی بھی کالج یا اسکول کے پرچم کوچھوڑ کرآزادنہ طورپر آگے آنا چاہیے۔خصوصاً مختلف ملی تنظیمیں اولیائے طلبہ کی رہنمائی کا بیڑا اٹھائیں تو عین ممکن ہے کہ صدفیصد درست اوربے لوث رہنمائی ہوسکے۔جس کے ذریعہ طلبہ کابھلا ہوگا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!