بسواکلیان میں ضمنی اسمبلی انتخابات اور مسلمانوں کا موقف

0
Post Ad

تجزیہ نگار:ڈاکٹر سید اسد اللہ اسدؔ۔موبائیل:9341022635
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حلقۂ اسمبلی بسواکلیان میں ضمنی انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔اب جبکہ پرچۂ نامزدگیاں کے ادخال کی تکمیل ہو چکی ہے اور تمام امیدواران عوام کو رجحانے میں لگے ہوئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بی جے پی سے شرنو سلگر،کانگریس سے مالا بی نارائن راؤ،جنتا دل سیکولر سے سید یثرب علی قادری(علی صاحب)،مجلس اتحاد المسلین(ایم آئی ایم)سے عبدالرزاق چودھری عرف بابا چودھری اور دیگر دو آزاد امیدواران میں سابق رکن اسمبلی ملیکارجن کھوبا انتخابی میدان زور آزمائی کررہے ہیں۔ایسے میں حلقۂ اسمبلی کا اقلیتی طبقہ خصوصاً مسلمان ہر بار کی طرح مختلف سیاسی پارٹیوں میں بٹ کر اپنا اتحادی شیرازہ بکھیرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ یہاں رائے دہندوں کی آبادی کا تناسب دیکھا جائے تو تمام حلقۂ اسمبلی میں مسلم رائے دہندے 25سے 30فیصدمعلوم ہوتے ہیں۔لیکن یہ یہاں کے مسلمانوں کی ستم ظریفی کہیے یا مفاد پرست سیاسی قائدین کی خود غرضی کہیے یا یہاں کے مسلمانوں کی بے حسی کہیے کہ آزادی کے بعد سے آج تک کوئی مسلم لیڈر اسمبلی لیول تک ابھر کر نہیں آیا اب جبکہ یہاں کی نئی نسل میں سیاسی شعور بیدار ہوا ہے ایسے پھر سے سیاسی شیرازہ بندی بے تکی معلوم ہوتی ہے۔ہر چند کہ یہ شہر اولیاء اللہ، صوفیوں اور سنتوں کی تعلیمات سے ہمیشہ سرسبز و شاداب رہا ہے۔یہ شہر تمام ریاست کرناٹک میں قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بہترین مثال مانا جاتا ہے۔یہاں کسی بھی سیاسی لیڈر کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تباہ کرسکے۔یہ سر زمین محبت،اخوت اور بھائی چارہ کی پروردہ رہی ہے۔تاہم افسوس اس بات کا ہے کہ یہاں مسلمانوں میں صرف دو جگہ اتحاد پایا جاتا ہے۔ایک کسی مسلم کا جنازہ جا رہا ہو تو سبھی اپنی مصروفیات کو چھوڑ کر تعظیماً کھڑے ہوتے ہیں اور جیسے ہی میت کی تدفین عمل میں آئی اور یہاں سب بکھرتے چلے گئے۔اتحاد کا دوسرا مقام یہاں کسی دعوت میں نظر آتا ہے دعوت ختم اور اتحاد بھی ختم۔یہاں ایک اور افسوس ناک المیہ یہ ہے کہ یہاں اگر ایک گھر میں چار بھائی ہوں تو وہ چاروں الگ الگ سیاسی جماعتوں یا الگ الگ مذہبی جماعتوں سے وابستہ رہیں گے۔ایسے ناگہانی حالات میں بھی یہاں کی عوام سے اتحاد کی امید اس لئے نظر آتی ہے کیونکہ یہاں کے لوگوں میں اولیاء اللہ کی تعلیمات اور ان کا تقدس معجزن ہے۔اور یہی امید کی شمع یہاں سے مسلم قیادت کا احیاء کرسکتی ہے۔مجھے امید ہے کہ یہاں کے مسلمان خود متحد ہوکر اور دیگر اقوام کے رائے دہندوں کو اپنا ہم نوا بنا کر یہاں سے مسلم امیدوار کو کامیاب بنائیں گے۔وگر نہ اسی طرح بکھر جائیں گے تو پھر پچیس برس سیاسی طور پر پسماندہ ہوجائیں گے۔اس شعر کے مصداق کہ
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!