مایوسی اورڈپریشن کے مسائل اور حل

0
Post Ad

مجتبیٰ فاروق (حیدر آباد)

یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ حالات کبھی بھی یکساں اور سازگار نہیں رہتے ہیں۔ جس طرح سے موسم بدلتے رہتے ہیں، اسی طرح سے حالات بھی بدلتے رہتے ہیں۔ غم، دکھ، تکلیف، پریشانی، تنگی، مصیبت، بدحالی بیماری اور مفلسی کو دوام نہیں انہیں ہرحال میں زوال پذیر ہونا ہے۔ بعض اوقات ایک نوجوان کو اپنی پسند کا کرئیر یا پروفیشن نہیں مل پاتا ہے یا اس کو وقت پر روزگار نہیں ملتا ہے تو وہ ذہنی تناؤ اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ بے روزگاری ایک ایسی وبا ہے جو کسی بھی نوجوان کا سکون وچین چھین لیتی ہے اور اس کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے نیز گھر، خاندان اور سماج میں بھی اس کو ایک بے کار اور فضول انسان سمجھا جاتا ہے اور بعض اوقات اس کو بے روزگار ہونے کے طعنے بھی سننے کو ملتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بالکل مایوس ہو جاتا ہے اور اس اضطراب، کشمکش اور ٹنشن کی حالات میں زندگی گزارنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے۔ ذہنی تناؤ، خوف، گبراہٹ، پریشانی اور اضطراب اب نوجوانوں میں عام ہیں اور ان کو Minor Disorders کہا جاتا ہے۔ اسی کی بدولت وہ بعض اوقات نشہ آور ادویات (Drugs) کا سہارا بھی لیتا ہے اور بعد میں وہ اس کا عادی بھی بن جاتا ہے۔ یہ ایسی عادت ہے جو چھڑائے نہیں چھوٹتی ہے۔ نشہ آور ادویات کا استعمال ایک خطرناک سماجی برائی ہے۔ Drug Abuse Information Rehabilitation and Research Centre کی ایک رپورٹ کے مطابق زیادہ تر نوجوان نشہ آور اشیاء کا استعمال چودہ سے بیس سال کی عمر کے درمیان کرتے ہیں ۔ ۲۰۱۲ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور اقوام متحدہ کی جانب سے کرائے گئے سروے سے خطرناک صورت حال سامنے آئی کہ نویں جماعت میں آنے سے پہلے ۵۰ فیصد بچے کسی ایک نشے کا کم سے کم ایک بار استعمال کر چکے ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں UNDCP کے مطابق نشہ آور ادویات استعمال کرنے والوں کی تعداد بیس کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ ایسے نوجوان سماج کے لیے نقصان دہ اور مضر ثابت ہوتے ہیں یہاں تک کہ بعض نوجوان خود کشی کا راستہ بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ بدقسمتی سے نشہ آور اشیاء، افیون، بھنگ، گانجا اور چرس ہر جگہ دستیاب رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان تک رسائی بہ آسانی حاصل ہوجاتی ہے۔ ان اشیاء کا کوئی بھی نوجوان شکار ہو سکتا ہے۔ نشہ آور ادویات کے استعمال کے بعد نوجوان نفسیاتی اور ذہنی مریض بن جاتا ہے۔ اسلام نے نشہ آور ادویات سے دور رہنے کی تاکید کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون (المائدہ : ۹۰)
اے ایمان والو! یقیناً شراب اور جوا اور بت اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ان سے پرہیز کرو، امیدہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہو گی۔
اسی طرح سے بعض نوجوان ایک اور گندی عادت یعنی ’پورنوگرافی‘ کے شکار ہو جاتے ہیں۔ جب ایک نوجوان کو اس کی لت لگ جاتی ہے تو اس سے باہر نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا ہے یہاں تک کہ یہ اس کی مستقل عادت بن جاتی ہے۔ بقول ایک عرب شاعر :
وکأس شربت علی لذۃِِ
وأخریٰ تداویت منھا بھا
جب میں نے شراب کا جام لذت کے حصول کے لیے نوش کیا تو اس کے علاج کے لیے دوا کے طور پر دوسرا جام پیا۔
انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹس اور اس طرح کی جنسی بے راہ روی بھی عام ہے اور ان سائٹس تک آسانی سے رسائی حاصل ہو جاتی ہے۔ نوجوان انہی حرام اور مضرت رساں چیزوں کو ذہنی سکون اور نفسانی خواہشات کا ذریعہ بناتا ہے اور ان ہی کے ذریعہ سے وہ تناؤ، ڈپریشن، ٹنشن اور اضطراب کا ازالہ کرنا چاہتا ہے۔ ان ہی چیزوں کے استعمال سے جسمانی ارتقا، ذہنی نشونما، شعور کا عمل اور ذمہ داری کا احساس متاثر ہوتا ہے۔ محبت میں ناکامی، خود پسندی، مقابلہ جاتی امتحانات میں ناکامی وغیرہ نے ذہنی تناؤ اور ڈپریشن میں مزید اضافہ کیا ہے۔ اس کی وجہ سے خود کشی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف ۲۰۱۶ء میں ۹۴۷۴ طالب علموں نے خود کشی کی۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ نوجوان گردوپیش کے حالات اور ماحول سے بھی متاثر ہوتا ہے۔ یہ مایوسی، ڈپریشن، گردو پیش کے ناسازگار حالات نوجوانوں کو تعمیری اور مثبت کام کرنے میں بے انتہا خلل ڈالتے ہیں۔ یہ بات واضح رہے کہ نا سازگار حالات ہمیشہ نہیں رہتے۔سخت حالات اور مشکلات ہر زندگی کا حصہ ہیں۔ انسان کو صبر اور امید کے ساتھ ان کا سامنا کرنا چاہیے کیونکہ دکھ، اداسی، تکلیف اور مصیبت کے بعد کا مرحلہ امن وامان، سکون، آسانی اور خوشحالی کا ہوتا ہے۔ امن وامان، فراخی اور خوشحالی گویا بدحالی، تکلیف اور ناسازگار حالات کا پیچھا (Chase) کرتی ہیں۔ یہی اللہ کا قانون ہے جس پر ہمارا محکم ایمان ہونا چاہیے۔ آج ہم انتہائی مشکل حالات سے گزر رہے ہیں لیکن یہ ہمیشہ رہنے والے نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراً (الشرح :۵) پس مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے۔ یہ آیت دو مرتبہ آئی ہے۔
ان میں اللہ تعالیٰ نے قاعدہ کلیہ بیان فرمایا ہے کہ مصائب اور تکالیف سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ ان کے بعد آسانی اور خوشحالی کا دور آنے والا ہے۔ ان آیات سے بخوبی یہ پتہ چلتا ہے کہ اچھے اور خوشحالی کے دن آنے والے ہیں۔ انسان کے پاس سب سے قیمتی چیز وقت ہوتی ہے غفلت، ٹال مٹول، تساہل پسندی اور حیلے بہانے جیسے اوصاف انسان کے سب بڑے دشمن ہوتے ہیں۔ یہ انسان کو کبھی بھی صحیح Track پر آنے نہیں دیتے ہیں۔ اسی بات کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان خود بھی مادی ضروریات میں اپنے آپ کو حد سے زیادہ مصروف رکھتا ہے جس کی وجہ سے اس کی زندگی توازن سے ہٹ جاتی ہے اسی لیے انسان کو بار بار اس بات کی تاکید کی جاتی ہے کہ روح پر بھی توجہ مرکوز کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ وَإِلَی رَبِّکَ فَارْغَبْ (الشرح:۷)
’’لہٰذا جب تم فارغ ہو تو عبادت کی مشقت میں لگ جاؤ اور اپنے رب کی طرف توجہ رکھو۔‘‘
روح کو صحیح و سالم رکھنے کے لیے انسان کے پاس ہمیشہ وقت کی قلت رہتی ہے لیکن اسے ایسے مواقع ملتے رہتے ہیں جن کا کام ہی روح کو ٹھیک ٹھاک کرنا ہوتا ہے اور یہ اوقات روح کو صحیح و سالم رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ مواقع اسی روح کو خدا رخی (God Oriented) بنانے کے لیے ہی مخصوص ہوتے ہیں تو مبالغہ نہ ہوگا۔ رمضان بھی ان ہی مواقع میں سے ایک ہے جس کا کام ہی انسان کی روح کو خدا پرست بنانا ہے۔ رمضان اللہ کی رضا اور اس کی عبادت میں لگ جانے کا دوسرا نام ہے۔ نیز قرآن مجید اور سیرت کی روشنی میں زندگی گزارنا ایک عظیم کار خیر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور کام کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ انسان کو دلاسہ دینے والا بننا چاہیے۔ نوجوان طبقہ کو بار بار دلاسہ اور حوصلہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی بھی مایوس اور ستم رسیدہ یاغم زدہ نوجوان کو دلاسہ دینا ایک حسن عمل ہے۔ دلاسہ دینا یا کسی کو پُرامید (Optimism) کرنا نہ صرف ایک نوجوان کے لیے فائدہ مند ہے بلکہ یہ بہتر مستقبل کی طرف سفر شروع کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ یہی معاملہ قرآن میں مایوس بندوں کے بارے میں وارد ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے مایوس بندوں کو دلاسہ دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ یَا عِبَادِيَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَۃِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیْعاً (الزمر :۵۳)
’’اے نبی ﷺ! کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے‘‘۔
قرآن مجید میں ایک اور جگہ ارشاد ہے:
وَلاَ تَیْْأَسُواْ مِن رَّوْحِ اللّہِ إِنَّہُ لاَ یَیْْأَسُ مِن رَّوْحِ اللّہِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْکَافِرُون (یوسف:۸۷)
’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو یقیناََ اللہ کی رحمت سے وہی مایوس ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں‘‘
مذکورہ بالا آیات سے خالق اور مخلوق کے درمیان رشتہ کی اہمیت و افادیت کا پتہ چلتا ہے۔ اس سے یہ اہم بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ انسان کی فکری و عملی حالت کیسی بھی ہو پھر بھی اس کو اللہ تعالیٰ دلاسا دیتا ہے کہ مایوس ہونے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، بس تم میری طرف واپسی کرو۔ بعض اوقات نوجوانوں کو ایک سازش کے تحت مایوس کیا جاتا ہے اور انہیں ڈرایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں سید علی خامنہ ای کی یہ تقریر قابل ذکر ہے کہ جب انہوں نے جوانوں سے مخاطب ہو کر کہا تھا ’’میرے عزیز جوانو! دشمن آپ کے سلسلے میں کچھ زیادہ ہی سرمایہ کاری کرتا ہے آپ اس بابت زیادہ ہی چوکنا رہیں۔ کچھ کو بے تعلقی و لاپروائی کا شکار بناتا ہے تو کچھ کو مایوسی اور ناامیدی کے جال میں پھانستا ہے۔ یادرکھیے کہ ناامیدی جوانوں کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے۔ جوانوں کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ ان کے اندر ناامیدی جلدی گھر کر جاتی ہے، اسی لیے امید بھی جلدی ہی جاگا کرتی ہے۔ آپ کے دلوں میں دشمن جس مایوسی اور ناامیدی کے بیچ بویا کرتا ہے اس سے خود کو بچانے کی بہت سخت ضرورت ہے‘‘
ہر انسان کو ایسے وقت کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے جب اس کو حوصلہ اور دلاسہ دینے کی سخت ضرورت محسوس ہوتی ہے، اس کے برعکس یہاں کرونا وائرس یا موذی امراض کے شکار مریضوں اور اس کے گھر والوں کو ظالموں کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے، اس روش سے باز آنا چاہیے۔ مایوس افراد اور مصیبت زدہ کو دلاسا دینے کی سخت ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کا حوصلہ بلند رہے۔ منفی خیالات (Negativity) اور سوچ بھی ذہن کو پراگندہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ رویہ نوجوان کو آگے بڑھانے کے بجائے بہت پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ یہی منفی سوچ نوجوانوں کو اپنے خالق و مالک سے بھی اور معاشرہ سے بھی بد ظن کر دیتی ہے۔ منفی سوچ اور طرز عمل میں ہر صورت میں تبدیلی لانی چاہیے۔ منفی خیالات یا سوچ تب ہی ایک انسان میں پروان چڑھتے ہیں جب اس کا ذہن بالکل خالی رہتا ہے اور وہ کوئی کام نہیں کرتا ہے۔ یعنی بے کار رہنا بھی منفی اور برے خیالات کو جنم دیتا ہے۔ اسی لیے خلیفہ دوم حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ ’مجھے ناپسند ہے کہ میں تم کو بے کار اور فارغ دیکھوں اور نہ دنیا کے لیے کوئی کام کرو اور نہ آخرت کے لیے کوئی کام‘ نوجوان ذہنی طور سے بھی اور عملی طور سے بھی اپنے آپ کو ہمہ وقت متحرک رکھیں۔ اس کے علاوہ نوجوان اپنے آپ کو تین چیزوں سے مضبوط کریں: ۱؎ تلاوت قرآن ۲؎ ذکر و ازکار ۳؎ سیرت کا مطالعہ
تلاوت قرآن
نوجوان قرآن مجید سے تعلق مضبوط کریں اور روزانہ اس کی تلاوت کو لازم پکڑیں، اس کا فہم حاصل کریں اور اس تعلق سے تراجم وتفاسیر کا مطالعہ بھی کرتے رہیں۔ قرآن مجید کے ذکر سے ہی اس کو سکون ملے گا اور اس کے بغیر سکون کہیں بھی نہیں مل سکتا ہے۔ تلاوت قرآن انسان کی روح کو زندہ رکھتی ہے۔ تلاوت قرآن کی کیفیت ایسی ہو جو قرآن نے بتایا ہے:
وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیْمَانا (الانفال :۲)
’’جب انہیں اللہ کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو یہ آیتیں ان کے ایمان میں اضافہ کرتی ہیں‘‘
قرآن مجید ذکر ہے اور اس ذکر سے اپنے روح و جسم کو تر و تازہ کرتے رہنا چاہیے۔ جو بھی اس ذکر سے منہ موڑے گا اللہ اس کی زندگی کو غارت کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنکاً وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمَی (طہٰ:۱۲۴)
’’اور جو شخص میری نصیحت سے اعراض کرے گا تو اس کے لیے تنگی کا جینا ہے اور قیامت کے دن ہم اس کو اندھا اٹھائیں گے‘‘
اذکار کا اہتمام
ذکر عین عبادت ہے۔ روح کی تقویت اور اس کی سالمیت کے لیے اذکار و استغفار بہت ضروری ہے اور اس کا ہر وقت اہتمام کرنا چاہیے۔ انسان کو اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرنا چاہیے۔ وہی تمام بندوں کا نگراں بھی ہے اور اسی کا ذکر ہر پل کرنا چاہیے۔ ذکر و اذکار اور دعا سے دل اللہ تعالیٰ کی طرف جھک جاتا ہے اور دل کو سکون ملتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُہُم بِذِکْرِ اللّہِ أَلاَ بِذِکْرِ اللّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب (الرعد :۲۸)
’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور جن کے دل اللہ کی یاد سے مطمئن ہوتے ہیں۔ سنو! اللہ کی یادسے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘۔
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَالذَّاکِرِیْنَ اللَّہَ کَثِیْراً وَالذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللَّہُ لَہُم مَّغْفِرَۃً وَأَجْراً عَظِیْماًَ (الاحزاب :۳۵)
’’اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے اور یاد کرنے والی عورتیں ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے‘‘ ۔
غور و فکر اور تدبر کے ساتھ ذکر و اذکار کا اہتمام کرنا بہت ضروری ہے کیوں کہ زبانی ذکر مطلوب نہیں ہے اور وہ غافل دل کی علامت ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاذْکُر رَّبَّکَ فِيْ نَفْسِکَ تَضَرُّعاً وَخِیْفَۃً وَدُونَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ وَلاَ تَکُن مِّنَ الْغَافِلِیْن (اعراف :۲۰۵)
’’اور پروردگار کو دل ہی دل میں عاجزی اور خوف سے اور پست آواز سے صبح وشام یاد کرتے رہو اور دیکھو غافل نہ ہونا‘‘
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!