آج کے افسانچے

محمدیوسف رحیم بیدری، بیدر، کرناٹک۔ موبائل:9141815923

0
Post Ad

1۔ بزدل بستی
بہادر لوگ مرگئے ایسانہیں ہوابلکہ بہادر لوگوں کو مار دیاگیا۔ اب اس بستی میں بزدل پید اہوتے ہیں۔کیوں کہ وہاں بزدلوں ہی کو پید اہونے کی اجازت ہے۔

2۔دولاکھ کا انعام
اس کی کتاب پر دولاکھ روپئے انعام کااعلان ہوچکاتھالیکن اس کے پاس اپنی کتاب کہاں تھی؟ اس نے اپنی کتاب تلاش کی لیکن چارسال بعد دئے جانے والے اس انعام کی انعام یافتہ کتاب کاایک نسخہ بھی اس کے پاس نہیں ملا۔ اپنی نصف بہتر سے پتہ کیاتواس نے کہاکہ گھر میں کتابیں رکھنے کا مسئلہ پیدا ہوگیاتھا، ایک سال پہلے ردی والے کو کتابیں فروخت کردی گئیں۔ 40کیلو سے زائدوزن تھاکتابوں کا۔اس کولگاجیسے 40کیلووزنی کتابیں اس کے ذہن پرپھینک ماری گئی ہوں اور وہ کسی بھی قسم کے انعام کامستحق قرارنہیں دیاجارہاہے۔

3۔ آخری صف کاآدمی
سب کواس طرح کایقین تھاکہ کوئی کام پیسے دے کر کرنے سے ہی خوب اور بروقت ہوتاہے، اس میں رنگارنگی اور کوالٹی آتی ہے۔ اس بات سے مہرخان متفق نہیں تھا۔ ضد اور اپنے موقف پر اڑے رہنے والے افراد نے مہرخان کو پیچھے ڈھکیل دیاہے۔مگرآج بھی مہرخان سب کچھ کام مفت کرتاہے۔ طلبہ میں کتابیں تقسیم کرنا ہویایونیفارم یاغریب عوام تک ان کی ضروریات کی چیزیں پہنچاناہو۔لوگ شکوہ سنج ہیں کہ مہرخا ن ہی نے غریبوں کو مفت خوری کی عادت ڈال رکھی ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ انھیں روزگار لگاکر دیاجائے۔ مہرخان کہتاہے روزگار کے لئے حکومتی سورس چاہیے۔ مجھ سے مفت امداد ہی ممکن ہے۔اوریہ ممکنہ کام میں کررہاہوں۔

4۔علم پرڈاکہ
وہ اپنی زبان کادیوانہ تھا۔ اس قدر دیوانہ تھاکہ ہر حرف کی پوجاکیاکرتاتھا۔ وہ سمجھتاتھاکہ علم کی یہ دیوی صرف اس پر مہربان ہے۔ عرصہ تک اس کو خوشی ہوتی رہی کہ علم کی دیوی اس پر مہربان ہے لیکن آہستہ آہستہ اسے محسوس ہواکہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو انسٹی ٹیوٹ بناکر اس دیوی سے پیسہ کمانے لگے ہیں، وہ ان کے خلاف لڑتارہا۔ انھیں علم دشمن قراردیتارہا مگر اس کی یہ باتیں لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ وہ کوشش کرتارہاکہ اپناموقف سمجھائے۔ آخرکار وہ نیم پاگل ہوگیا۔
بڑے فرزند نے ایک کمپیوٹر اوراس کو وائی فائی کنکشن دے کراسے گھرمیں بٹھادیاہے۔ آج کل وہ سوشیل میڈیا کی ہرسائٹ پر مل جاتاہے لیکن صورتحال وہی ہے کہ اس کی باتوں سے اتفاق کرنے والے نہیں کے برابر ہیں۔ اداروں کی جانب سے علم کی دیوی کوبنیاد بناکر لوگوں کی جیب پر ڈاکہ ڈالنے کاسلسلہ جاری ہے۔

5۔ دلیلِ ذلالت
لیڈرتقریر کررہاتھا۔ اس کی تقریر کاتعلق ملک کی ترقی سے تھا۔ اس نے ملک کے غیرترقی یافتہ ہونے کاالزام ملکی شہریوں پرلگاتے ہوئے کہاکہ ”ہمارے شہریوں کی نیتیں کفایت شعاری اور حالات کے مطابق زندہ رہنے کی تھیں، اسی نیت کے عین مطابق ہمارے ملک میں ترقی نہیں ہوسکی، اگر یہ لوگ زندگی کرنے کے حریص ہوتے، اور ملک کی ترقی چاہتے تو ملک کی ترقی عین ممکن تھی“تقریرسننے والے لوگ حیرت سے منہ کھولے ذلیل کرنے والی اس کی دلیل کوسن رہے تھے۔ جب کہ تقریب کے ایک حصے میں نوجوان اسکی تقریر پر احتجاج کررہے تھے کہ حکومت اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام ہے۔ گذشتہ 20سال سے اس حکومت کے سبب ملک 50سال پیچھے چلاگیاہے۔کیوں کہ اس پارٹی کے پاس کوئی ترقیاتی ماڈل نہیں ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!