محمد یوسف رحیم بیدری کے افسانچے

برائے رابطہ: 9141815923

0
Post Ad

۱۔بحفاظت
رات میں سیٹی صرف شہر میں نہیں جنگل میں بھی بجتی ہے. جس کی وجہ سے ریل کو پتہ چل پاتا ہے کہ وہ محفوظ ہے.
۲۔ بے خبر بچے
بچوں کو معلوم نہیں تھاکہ ان کا باپ ان کیلئے کس قدر محنت کرتا ہے اور کہاں کہاں ذلیل وخوار ہوتا رہتا ہے،اس کی خاموشی اور سادگی کو بچے اسکی بے وقوفی سمجھتے تھے
۳۔ پچہتر سال پر سیاست
پچہتر سال منانا آسان تھا. لیکن پچہتر سال کی تاریخ کو نئی نسل کے سامنے ایمانداری سے پیش کرنا ناممکن. وہاں، سیاست ہی سب کچھ تھی. پارٹی کو دوبارہ برسراقتدار لاکر تاریخ رقم کرنا تھا
۴۔غریبی کا بسیرا
راستے مشکل اس لئے ہیں کیونکہ غرباء کے لئے گھر وں کا حکومت نے انتظام نہیں کیا ہے.اس لئے راستوں پر غریب بسیرا ہونے سے مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں. برداشت کر لیا کریں
۵۔ احتیاطی نعرہ
بات احتیاط سے ہو رہی تھی. اس نے ”ہر ہر شمبھو” کہہ کر اپنی راہ لی.
۶۔طفلانہ محبت
باپ بہت آسانی سے دستیاب اور مولڈ ہوجایا کرتاتھا. لیکن اس کے باوجود بچوں کو ماں ہی سے محبت تھی
۷۔مقابلہ
اس نے ہواؤں کو پیچھے ڈھکیلا اور مضبوطی سے کھڑکی بند کر لی
۸۔لگام
پردے والا عشق تھا. جسکی آگ کے بجھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. مگر وہ بھاگ بھی نہیں سکتے تھے. پردے نے بزدل بنا رکھا تھا.بڑے سال بعد محسوس ہوا کہ پردے نے عزت رکھ لی، ورنہ سبھی کہتے اس کی ماں گھر سے بھاگ گئی تھی، اس کا باپ بھگا کر لے آیا تھا.
۹۔زائد ظلم
سوال پوچھ لیاگیا کہ سفر میں سب سے زیادہ ظلم کس پر ہوا؟ میں نے جوابا کہا”میری عینک پر” میرے برجستہ جواب پر عینک تالیاں بجا نے لگی.
۰۱۔چیخ وپکار
وہ ایک بڑی تعداد ریل کا سفر کر رہی تھی. جن میں خواتین، بچے، مرد، بوڑھے سبھی شامل تھے. رات ابھی باقی تھی کہ وہ غول اٹھ بیٹھا اور آپس میں گفتگو کرنے لگا.اس غول کی کائیں کائیں سے دیگر مسافرین کی نیندیں حرام ہو گئیں
۱۱۔چہرہ شناسی
حضرت تقدس مآب بتا رہے تھے، چہروں کوپڑھتے ہوئے رب کو یاد کرنے کا ہنر نہیں آتا تھا.کیوں کہ نیت حائل ہو جاتی تھی، اس لئے رب سے ملاقات نہ ہوسکی. ایک لاڈلے مرید نے پوچھا ”اعلیٰ حضرت، کس کی بات کر رہے ہیں آپ” انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا. دوسری باتیں شروع کردی تھیں
۲۱۔فطری آنکھ مچولی
ریل کے سفر کے دوران علی الصبح اسکی چارسالہ بیٹی سورج سے آنکھ مچولی کھیل رہی تھی. باپ مطمئن نظر آ رہا تھا کہ دختر فطرت سے قریب ہے
۳۱۔دہلہ
وہ ایک ایسا دہلہ تھا، جس کا کوئی نہلہ نہیں تھا
۴۱۔ترغیب
اس نے چائے پینے کا آفر دیا. میں نے چائے قبول کرلی لیکن میری چائے کی رقم مجھے ہی دینی پڑی. سوچ رہا ہوں کہ پھر آفر کے کیا معنی؟
۵۱۔اکیلگی
اس میں اچھائی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی بلکہ وہ سرتاپا اپنے حق میں اچھا تھا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!