17/فروری کے افسانچے

محمدیوسف رحیم بیدری، بیدر۔ کرناٹک۔ موبائل:9141815923

0
Post Ad

۱۔ جوانی کی رنگینیاں
جوانی ٹوٹ کر آئی تھی۔ اس لئے قانون، سماج بلکہ سماجیات کے سارے اخلاق اور بندھن توڑ دئے گئے۔ اس منہ زور جوانی کاسبھی نے نظاراکیا، کسی نے واہ کے ساتھ اور کسی نے عبرت کے ساتھ۔ جیل کے اوقات بھی جوانی کو لطف دے گئے۔
اب جوانی جاچکی ہے۔اورجاتے جاتے اپنے پیچھے پچھتاوؤں کاایک لامتناہی سلسلہ چھوڑ گئی ہے۔ خیال ناگ بن کرڈس لیتاہے کہ جو کچھ کیا،نہیں کرناچاہیے تھا۔ موت جیسی ڈائن ڈرا دیتی ہے۔جس کے سبب نیند بھی پوری نہیں ہوپاتی اور جب آئینہ سامنے لایاجاتاہے توخود چہراذہن ودل کو دہشت زدہ کردیتاہے۔پوچھنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی کہ اس قدر خوف ناک چہرا کندھوں پرآخرکس سزا کے طورپر رکھ دیاگیاہے؟سزاؤں کو دِل جانتاہے۔ کس چیز کے بدلے ہے،یہ جاننا چاہتاہے۔

۲۔بے فیض چہرا
موت کاخوف اس کو نہیں تھا۔ اورجب ایکسیڈنٹ سے فوت ہوگیا تو پورا چہر امسخ تھا۔ دیکھنے والے بھی دیکھ نہیں سکے تھے اور دیکھنے کے لئے کچھ بچابھی نہیں تھا۔

۳۔ گونگی صدا
اس نے کہاتھاکہ ہم پھرملیں گے۔ دل نے کہا”کیا ضرور ت ہے؟کیوں کہ نئے زخم کاشوق نہیں ہے اور پرانے زخم بھی کون سا سنبھلنے دیتے ہیں؟“لیکن یہ بات اظہا رکے لئے نہیں تھی۔

۵۔ کاروبارِ دین
اس کے نزدیک علم دین ایساتھاجیسے کسی شاپنگ مال میں فروخت کے لئے رکھی گئی قیمتی شئے، جس کے خریدار توکم ہوتے ہیں لیکن ہوتے ضرور ہیں۔ گذشتہ دوسال کے کورونا کی ہیبت ناکی کے بعد خریداروں میں البتہ اضافہ ہوگیاتھا۔
اور اس کا حال یہ تھا کہ وہ زندگی کالازمی جزء پانی تک مفت تقسیم کرنے کاقائل نہیں تھا۔ یہاں تو علمِ دین کی با ت تھی جو زندگی کے لئے کُل کی حیثیت رکھتاتھا۔

۴۔ اظہارِ ناحق
پل پل کااظہار غلط تھا۔ لوگ بدظن ہوجاتے ہیں۔لوگ ہی کیوں اپنے نطفہ سے پیدا ہونے والی اولادیں بھی منہ موڑ لیتی ہیں۔ اس لئے عمر کے آخری پڑاؤ میں یادآیاکہ حضرت نے کہاتھا، اولیاء اللہ کی سیرت پڑھاکرو، ان کی باتیں پژمردہ روحوں کے لئے مہمیز کاکام دیتی ہیں۔
اِن دِنوں وہ اولیائے کرام کی سیرتیں پڑھنے میں لگے ہیں لیکن آنکھیں اور جسم ساتھ نہیں دیتے۔ بے اختیارآنکھوں سے آنسو ؤں کانکل پڑنامعمول بن رہاہے۔یہ معمول بھی غلط ہے کہ اظہار ہی کی علامت ٹہرا

۶۔اس کاخوف
اس حقیقت کا پتہ چلاکہ رونے سے کچھ نہیں ہوسکتا۔پھر یوں ہواکہ کل تک اپنے حق کے لئے رونے گانے والا، آج اپنے حق کے لئے ڈٹ گیا، خود کو اس نے احتیاط، قانون، طاقت اورتعلق و علم سے لیس کرنا ضروری سمجھا۔ آج اس کے خوف کایہ عالم ہے کہ لوگ اس کاحق اس کے قدموں میں لاکر رکھ دیتے ہیں۔بے ایمانی کا تاریک خیال تک ذہن کے دہشت زدہ گوشوں میں نہیں آتا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!