ابو اسماعیل (بابو چاچا)نہیں رہے

0
Post Ad
 ریاست کرناٹک کی ایک انفرادیت ان معنوں میں ہے کہ یہاں مذہبی گروہ زیادہ ہیں،وقت وقت پر سماجی اصلاح کے لئے کئی شخصیات نے خدمات انجام دی ہیں۔ان کی کوششوں سے تبدیلی بھی محسوس کی گئی۔سماج میں پائی جانے والی خرابیوں ،برائیوں،چھوت چھات، فرقہ پرستی، انارکی ،ذات پات اور ظلم و استحصال کے خلاف آوازیں بلند ہوتی رہیں ہیں ۔800 سو سال پہلے کی ایک شخصیت بسوناجی کاتذکرہ ہوتا ہے اور آج ان کے متبعین ان کی تعلیمات کو باقاعدہ ایک دھرم کی شکل دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
بسوناجی کی جاۓ پیدائش باگے واڑی ہے،بسون باگے واڑی ان ہی سے منسوب ہے ۔ ظلم و استحصال ،فرقہ پرستی،ذات پات کے نظام کے خلاف انہوں نے آواز بلند کی، مساوات،ہمدردی اور انسانیت دوست کی باتیں کہیں،سماجی برائیوں کے خلاف باقاعدہ ایک مورچہ کھول رکھا تھا۔لیکن سماج پریورتن مخالف قوتیں انکے نظریات سے خائف تھیں انہوں نے پرزور مخالفتوں کا آغاز کیا اور انہیں شہر چھوڑنے پر مجبور کیا۔ تین ندیوں کا (کرشنا,گھٹپربھا اور ملپربھا) سنگھم *کوڈلسنگم میں شری بسوناجی ڈوب گئے (یاڈوبو دیا گیا).بسون باگیواڑی میں ایک اسمارک اور ایک بڑا مندر ہے۔اسمارک میں ان کی زندگی کی تفصیلات موجود ہیں۔آج بھی باگیواڑی کے لوگوں میں امن،بھائی چارہ،فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا باقی ہے۔یہاں کے سوامی جی اسی پیغام کی نشریات میں مصروف ہیں۔بسوناجی کی تعلیمات کو قبول کرنے والوں کو لنگایت کہتے ہیں،یہ کمیونٹی سیاسی،تعلیمی اور معاشی اعتبار سے مظبوط ہے۔ باگیواڑی ایک چھوٹا سا تعلقہ مستقر ہے،یہاں مسلمانوں کی آبادی 15فیصد ہے۔(کل آبادی 40ہزار) مسلمان تعلیمی،معاشی اور سیاسی اعتبار سے کمزور ہیں۔چند شخصیات کی کوششوں سے تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے۔ 1975 کی بات ہے کہ اس شہر میں ایک ہی مسجد تھی (جامع مسجد)اس کی ایک انتظامیہ کمیٹی تھی۔اس کمیٹی کا صدر ایک نوجوان تھا، چہرے پر چھوٹی سی ڈاڑھی ،ساتر لباس، چاک و چوبند اور پیروں سے معذور, عمر 25سال ہوگی۔یہ نوجوان نمازوں کا پابند،انتظامی امور اور خدمت خلق کے جذبہ سے لبریز اس کا مزاج تھا۔ اس نوجوان کا نام *بابوصاحب باغبان جن کا آج (20/فروری 2023) انتقال ہوگیا۔ اناللہ وانا الیہ رجعون اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے،جنت الفردوس میں جگہ عنایت کرے اورمتعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین 1975ءجنوری میں مولانا محمد جعفر منییار صاحب کا پروگرام بیجاپور میں طئے تھا،رائچور سے بیجاپور جاتے وقت نماز ظہر کے لئےباگے واڑی کی جامع مسجد پہنچ گئے۔مولانا رحمت اللہ علیہ کی نگاہ اس نوجوان پر ٹک گئی جو مسجد کا صدر تھا۔پہلی ملاقات میں ہابمی تعارف کے بعد ان کے ہاتھ شہادت حق کتاب تھما دیاتھا۔
جناب محبوب عالم برگن ناظم علاقہ بلگام 1965کی بات یاد کرتے ہوۓ کہتے ہیں, بیجاپور انجمن کالج میں میٹرک کا طالب علم تھا اور مرحوم باغبان صاحب اسی کالج میں آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے۔ہماری ملاقاتیں ہر دن ہوا کرتی تھی،ہم اچھے دوست بھی تھے۔ مارچ 1975کو ملک پر یمرجنسی نافذ ہوگئی تھی،حالات دیگرغوں تھے۔جماعت کے ذمہ داروں کو قیدوبند کی آزمائش سے دوچار ہونا پڑاتھا۔ مرحوم ایک طرف جماعت کے ذمہ داران کو دیکھ رہے تھےجوسنت یوسفی سے گزر رہے ہیں،ان کے گھروں میں آزمائش کے پہاڑ تھے،گھر کی خواتین اور بچے رب کریم سے عافیت کی دعائیں مانگ رہے تھے۔دوسری طرف تالیکوٹ تک یہ خبر پہنچی کہ جامع مسجد باگیواڑی کے صدر شہادت حق کتاب کا مطالعہ کر رہے ہیں، مرحوم جناب سید سراج الدین قاضی صاحب کے فرزند مرحوم ڈاکٹر حسام الدین قاضی صاحب باگے واڑی پہنچ کر جناب بابو صاحب سے ملاقات کر کہ جماعت کا بنیادی لٹریچر پہنچانا شروع کیا۔ اس عرصے میں مرحوم کو جماعت کا بنیادی لٹریچر مطالعہ کرنے کے ذوق میں اضافہ ہوا۔ مطالعہ کی گہرائی نے مرحوم کو جماعت سے قریب کردیااور فکری اعتبار سے مظبوط ہوگئے۔
1975سے لیکر آخری دم تک (48سال)ان پر تحریکی فکر کا غلبہ رہا۔انتقال سے 5 دن قبل مرحوم بات ہو رہی تھی،صحت ناساز رہنے کے باوجود انہیں جماعت اور جماعت کے مختلف کاموں کی فکر تھی۔باگیواڑی میں تحریکی کام کا آغاز مرحوم نے کیا تھا،آج 4 ارکان ،50 کارکنان،SIO,GIO کی یونٹوں کے علاوہ تمام شعبہ جات اور ذیلی ادارے قائم ہیں۔خواتین میں مضبوط کام ہے،مرحوم پیروں کی معذوری کی وجہ سے چل نہیں سکتے تھے لیکن انہوں نے تحریک کو چلایا،ادھر ایک سال سے گھر کے ہو کر رہ گئے تھے،ہاسپٹل میں اڈمیٹ ہونے سے ایک دن قبل تک ارکان و کارکنان سے ربط میں رہے ابو اسماعیل ہفتہ واری اجتماعات (مرد و خواتین کے الگ الگ)کی رپورٹیں لیتے، غیرحاضر ارکان و کارکنان سے رابطہ قائم کرتے، غیر حاضری کی وجہ دریافت کرتے اور آئیندہ شریک ہونے کی نصیحت کرتے۔ مخاطب کرنے کاایک نرالا انداز تھا۔ہر ایک کو بابا،اماں،بیٹا،بیٹی اور آپا کہہ کر پکارتے تھے۔2007میں باگل کوٹ کے امیرمقامی رہے، جماعت،تبلیغی جماعت،اہل حدیث،سنت الجماعت،عام مسلمان یا برادران وطن اس بات کی گواہی دیں گے کہ ابو اسماعیل ہمدرد،مسائل کو سمجھ کر حل کرنے والے،پیار و محبت اور مسکراتے ہوۓ بات کرنے والے تھے۔خواتین و نوجوان بچیاں ان کو اپنا باپ سمجھتے تھے۔پیروں سے معذور تھے،ان کے پاس کوئی گاڑی نہیں تھی،گھر کے باہر آکر بیٹھ جاتے،راستے سے گزرنے والا مسلم ہو کہ غیر مسلم انہیں جہاں جانا ہے وہاں چھوڑ دیتے،کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ مخالفین بھی ہفتہ واری اجتماع کے لئے جماعت کے دفتر لا کرچھوڑ دیتے تھے۔مرحوم کی اہلیہ (مرحومہ)بڑی خدمت گزار تھیں، کبھی کبھی وہ کہتی تھیں کہ *دیکھو میں جماعت کے ذمہ داروں سے تمہاری شکایت کرتی ہوں،تم اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے،مرحوم بابو چاچا ہاتھ جوڑ کر ہستے ہوۓ کہتے تھے ایسا مت کرو، اب سے میں اپنی صحت کا خیال رکھوں گا*۔ دو ارکان جماعت کا پیار و محبت ، ایک دوسرے پر نچھاور کی ایک مثال پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔جناب مکتوم صاحب نداف رکن جماعت کو سالوں مرحوم کی خدمت کرتے ہوۓ ہم نے دیکھاہے، نمازکا وقت ہوتا تو جناب مکتوم صاحب اپنے گھر سے مرحوم کے گھر پہنچ جاتے تھے، تین پہیوں والی گاڑی میں بیٹھاکر ٹھیلتے ہوۓ مسجد تک لاتے نماز کے بعد واپس گھر چھوڑ دیتے تھے ۔جہاں بھی اجتماعات منعقد ہوۓ مثلأ دہلی،حیدرآباد،کلبرگی،ڈاونگیرہ،باگلکوٹ اوربنگلور اسی طرح کی خدمت انجام دیتے تھے ۔جناپ بابو صاحب کےانتقال پر جناب مکتوم صاحب نے کہا ایک نیک انسان کی خدمت کے لئے اللہ نے مجھے موقع دیا تھا میں نے نبھانے کی بھرپور کوشش کی۔دورے پر ذمہ دار آتے تو فوری اعلان کردیتے تھے کہ ہمارے ذمہ دار خطاب کریں گے‌۔اعلان کرنے کا انداز اس طرح تھا
محترم بھائیو نمازادا کرنے کے بعد بیٹھے رہو جماعت کے ذمہ دار آۓ ہیں تقریر کریں گے۔ایک آدمی بھی اٹھ کر نہیں جانا چاہئے واقعی سب کے سب بیٹھ جاتے۔اگر ان سے کہاجاتا کہ صاحب اعلان سے پہلے ذمہ دار سے بات کرلینا چاہئے تو مسکراتے ہوۓکہتے اس کی ضرورت نہیں ہے۔مجھ پر ناظم علاقہ کی ذمہ داری تھی گلبرگ سے باگلکوٹ جانا تھا،باگیواڑی رات 12.30بجے پہنچا،(شدید بارش کی وجہ سے بہت تاخیر ہوگئی تھی)جامع مسجد کے گیٹ کے پاس انتظارکررہے تھے،امیر مقامی ساتھ تھے۔تاخیر سے پہنچنے پرمیں نے شرمندگی کا اظہار کیاتو کہنے لگے,آپ کے انتظار میں وقت ضائع نہیں ہوا،بلکہ اجرکا میٹر چل رہا تھا*،میرے ہاتھ میں پوریوں کا ڈبا تھماتے ہوۓ کہا یہ ہماری بیٹی کے لئے ہیں لیتے جانا۔ چھوٹے شہروں میں برادریوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے،آپ کا تعلق باغبان برادری سے تھا،شمالی کرناٹکا میں باغبان برادری کا ایک مقام ہے،معاشی میدان اور سماج میں اثر رسوخ کے اعتبار سے مظبوطی ہے۔برادری میں مرحوم کا ایک بڑا مقام تھا،جناب مرحوم نظم و ضبط کے بڑے پابند تھے،شاید ہی کوئی بتا سکے کہ کسی بھی اجتماع میں تاخیر سے پہنچے ہوں،سپ سے پہلے پہنچنے والوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے‌۔21,22جنوری 2023 کے اجتماع ارکان میں عدم شرکت کی محترم امیر حلقہ سے اجازت لے لی تھی۔اجتماع کے بعدمجھ سے تفصیلات حاصل کر لئے۔1979کی بات ہے جناب ملالیاقت احمد صاحب ناظم ڈویژن تھے،دورے پر گئے تو اپنے گھر لے گئے ،خود چاۓ بنا رہے تھے،لکڑیوں کا چولہا تھا،پھونک پھونک کر مرحوم کاحال برا ہورہاتھا،چاۓ بنی تو کہنے لگے *جس پر محنت لگتی ہے وہ چیز اچھی بنتی ہے* باگیواڑی کے مضافات پر بھی مرحوم توجہ دیتے تھے،رفقاء کو اس کام پر لگا دیا کرتے۔باگلکوٹ میں مسجد کی تعمیر میں ہمارے ایک صاحب نے بڑی مدد کی تھی ،وہ ایک مرتبہ باگلکوٹ آۓ ،مرحوم امیر مقامی تھے،ان کی دلچسپی ،متحریک شخصیت،تڑت،فکر مندی اور پیروں کی معذوری، دیکھ کر کہا کہ یہ تو *اخوانی یاسین ہے۔
مرحوم کے فرزند اسماعیل کی اچھے ماحول پر پرورش ہوئی ہے،روزی روٹی کے لئے بڑی محنت کرتے ہیں،اپنے باپ کی بڑی خدمت کرتے رہے،مرحوم کی بہو جو جماعت کی کارکن ہیں،بے لوث خدمت مثالی ہے.مرحوم اپنے بیٹے،بہو اور بیٹی کی تعریفیں کیا کرتے تھے اور دعائیں دیا کرتے تھے۔میں نے ایک مرتبہ میری بیٹی ام ہانی کا ویڈیو بھیج کر دیکھنے کے لئے کہا،تھوڑی دیر بعد انہوں نےکہا بچی اپنے نانا (سے مراد مرحوم) پر گئی ہے۔مرحوم دیہات کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوۓ کہاکرتے تھے۔ *میں موٹا ہوں اور میری تقریر بھی موٹی ہوگی* جماعت اسلامی آپ کی ہے،دنیامیں کیسا رہنا اور آخرت میں کامیابی کے لئے کیا کرنا بتاتی ہے۔
اتوار کے دن امیر مقامی جناب سلیم صاحب کا فون آیاکہ جناب ابو اسماعیل صاحب کی صحت بہت بگڑ چکی ہے،بیجاپور میں اڈمیٹ ہیں۔وہ روتے رہے،میں دلاسہ دیتے رہا،معلوم ہوا کہ ناظم علاقہ جناب محبوب عالم برگن ،ناظم ضلع مولانا عبدالقادر جامعی،امیر‌مقامی بیجاپور ، جماعت،جناب محبوب علی بلگانور،جناب الطاف حسین، پروفیسر عبد الرحمن ناصر،جناب سید بہا والدین قاضی صاحب اوردیگر حضرات کے علاوہ خواتین کی بڑی تعداد ہاسپٹل پہنچ کر عیادت کی۔سب کے سلام کا جواب اشارے سے دیتے رہے،جناب مکتوم صاحب رکن جماعت جب پہنچے تو آنکھ کھول کر دیکھتے رہے،پھر آنکھیں بند کرلیں۔ان شااللہ اب آخرت میں ملاقات ہوگی۔مرحوم سے میرے دیرینہ تعلقات تھے،1990میں ایس ائی او بیجاپور کا ڈی او تھا،مرحوم ناظم حلقہ ہائے کارکنان تھے۔32سال کے عرصے میں میں نے ہمدرد،مربی،داعی،رہنما دیکھا،درگزر کرنا،ہمیشہ متحرک رہنا،افراد کی تلاش میں لگے رہنا،صلاحتوں کو پہچاننا اور کام پر لگا دینا مرحوم کی خوبیاں تھیں۔تدفیں کے لئے باگے واڑی پہنچا،میرے ساتھ جناب محمد تاج الدین صاحب،ناظم علاقہ اور امیر مقامی الکل جناب محمد حسین تھے،مرحوم کے فرزند،ان کے رشتہ دار اور رفقاء کے کہنے پر میں نے نماز جنازہ پڑھایا۔مختصراظہار خیال کا موقع رہا۔جناب محمد عبداللہ جاوید صاحب (سابق امیرحلقہ) نے بھی اظہار خیال فرمایا۔ جناب محمد عاصم الدین صاحب امیر مقامی رائچور تشریف لائے تھے‌۔باگلکوٹ،نونگر،تالی کوٹ،مدے بہال،الکل اور اطراف و اکناف کے رفقاء بڑی تعداد میں شریک تھے۔تبلیغی جماعت،سنت الجماعت،جمیعت العلماء،اہل حدیث سے وابستہ افراد کی شرکت بڑی تعداد میں ہوئی‌،مساجد،مدارس کے علماء بھی نماز جنازہ میں شریک رہے۔مرحوم کا جنازہ دیکھنے کے لئے شہر اور بیرون شہر سے خوتین کی تشریف لائے تھے۔تحریک اسلامی کےایک دور کا اختتام یہاں پر ہواتوایک دوسرے دور کا آغاز ہوا۔اب اس علاقے کے رفقاء کی بڑی ذمہ داری ہے کہ اس مشن کو نہ صرف جاری رکھیں بلکہ بڑے پیمانے پر جماعت کے پیغام کو عام کریں۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے جنت میں بلند مقام عطا کرے،تحریک اسلامی کو نعم البدل عطا فرمائے ،ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے آمین
(محمد یوسف کنی معاون امیر حلقہ 23/فروری 2023)
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!