کلیان کرناٹک کے 872 اسکولوں کو دو لسانی(کنڑا۔ انگریزی) تعلیم کے لیے منتخب کیا گیا ہے: ڈاکٹر آکاش ایس ہندی، اردو، مراٹھی اور دیگر زبانوں کی آیا یہ حق تلفی نہیں ہے؟!

0
Post Ad

بیدر۔ (محمدیوسف رحیم بیدری) 15/جون کو کلبرگی سے یہ خبرسامنے آئی تھی کہ پرائمری سطح پر معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے، ریاستی حکومت نے کلیان کرناٹک ڈویژن کے 872 سرکاری اسکولوں میں پہلی جماعت سے بچوں کے لیے دو لسانی (کنڑ اور انگریزی) کلاسیں موجودہ تعلیمی سال 2024-25 سے شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔کلبرگی ڈویژن کے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر آکاش ایس نے یہ بات کہی۔ بیدر-97، بیلاری-119، کلبرگی-165، کوپل-109، رائچور-176، وجئے نگر-134 اور یادگیری-72 اس طرح کل 872 اسکولوں میں رواں تعلیمی سال میں پہلی جماعت سے کنڑ اور انگریزی میڈیم میں پڑھایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ، خطہ کے 7 اضلاع میں منتخب 872 سرکاری پرائمری اسکولوں میں دو لسانی (کنڑ اور انگریزی) کلاسیں شروع کرنے کے لیے اسکول کی سطح پر قواعد کے مطابق مہمان اساتذہ کی تقرری بھی کی جائے گی۔ریاست کے سرکاری اسکولوں میں پہلے سے ہی انگلش میڈیم میں پڑھائے جانے والے اسکولوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے، بنگلورو ڈویژن میں سب سے زیادہ 1,291 اسکول ہیں، جب کہ کلبرگی ڈویژن میں سب سے کم 418 اسکول ہیں۔ میسور اور دھارواڑ ڈویژن میں بالترتیب 871 اور 503 اسکول ہیں۔ جب یہاں انگلش میڈیم اسکولوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے انہوں نے یہ معلومات دی کہ میسور میں 139، بنگلور میں 129، دھارواڑ میں 36 اور کلبرگی میں 33 اسکول ہیں۔اسی طرح، جب ہم تازہ ترین SSLC امتحان کے نتائج پر نظر ڈالتے ہیں، تو پہلی 10 پوزیشنوں پر دھارواڑ ڈویژن کے شرسی اور کاروار کی ہے، جبکہ باقی تمام بنگلور اور میسور ڈویژن کے اضلاع ہیں۔ سرفہرست 10 اضلاع میں فی 1 لاکھ بچوں پر کم از کم 100 سے زیادہ 200 اسکول ہیں اور فی اسکول پر منحصر بچوں کی تعداد 600 سے 700 ہے۔ کلیان کرناٹک کے علاقے پر نظر ڈالیں تو یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہاں ہر ایک لاکھ بچوں کے لیے 40 سے کم اسکول ہیں اور ہر اسکول پر انحصار کرنے والے بچوں کی تعداد 2 سے 4 ہزار ہے۔ جب اسکول کم بچوں سے بھرا ہوا ہے، یقیناً کلیان کرناٹک محکمہ کے بچے انگریزی پڑھانے کی کمی کی وجہ سے نتائج میں متوقع ترقی نہیں کر پا رہے ہیں۔بنگلورو، میسور ڈویژن میں دو لسانی تدریسی اسکولوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے اور وہاں بہترین نتائج دیکھے جاتے ہیں۔ اب، اگر کلیان کرناٹک میں دو لسانی اسکولوں میں اضافہ کیا جاتا ہے، تو بچوں کو یکساں مواقع اور سیکھنے کا موقع ملے گا۔ ڈاکٹر آکاش ایس نے کہا کہ اس سے اس علاقے کا نتیجہ بھی بہتر ہوگا۔ انہوں نے امید ظاہر کی۔کلیان کرناٹک ریجن ڈیولپمنٹ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر اجے سنگھ کا ڈریم پروجیکٹ ”اکشرا اوشکار” پروگرام کلیان کرناٹک خطے میں دو لسانی تعلیمی نظام کو فروغ دے گا۔ اس سے تعلیمی لحاظ سے پسماندہ کلبرگی خطہ کے دیہی علاقوں کے غریب بچوں کو اپنی مادری زبان کنڑ کے ساتھ انگریزی سیکھنے کی سہولت بھی حاصل ہوگی۔
یہاں اس بات کاتذکرہ دلچسپ رہے گا کہ دولسانی فارمولہ پنڈت نہرو کافارمولہ نہیں ہے۔ پنڈت نہرو اور اس وقت کی کانگریس نے پورے ملک میں سہ لسانی فارمولہ نافذ کیاتھا۔ جس میں ایک مادری زبان، ایک ریاستی زبان اور ایک ہندی /انگریزی زبان کی تعلیم طلبہ پڑھاکرتے تھے۔ لیکن اب جب کہ دولسانی فارمولہ دیاگیاہے تو صرف اور صرف کنڑا اور انگریزی میں اسکول کھلیں گے۔ اس سے لسانی اقلیتیں جیسے اردو، مراٹھی، ہندی، تیلگو اور ملیالم وغیرہ کی حق تلفی ہوگی۔ دوسری بات یہ کہ مولانا آزاد ماڈل انگریزی ہائی اسکول کو یہاں کلیان کرناٹک میں متعارف کروایاگیا۔ لیکن اردوپڑھنے والے طلبہ کو پرائمری کے فوری بعد مولانا آزاد ماڈل انگریزی اسکول میں داخلہ دیاگیا۔ جہاں کنڑا کو پہلی زبان کے طورپر پڑھایاگیانتیجہ کے طورپر بچے فیل ہوگئے۔ اِمسال بیدر کے فیض پورہ انگریزی اسکو ل کے دہم جماعت کانتیجہ 24%آیاہے اور جملہ 10ضلع اسکولوں میں سے صرف 1اسکول کانتیجہ ہی 63%تک پہنچ سکاہے۔ یہ ناکامی دراصل انگریزی ذریعہ تعلیم اور کنڑی زبان کو زبان اول پڑھنے کانتیجہ ہے۔ لہٰذا لسانی اقلیتوں کے تعلیمی حقوق نہ چھینتے ہوئے اردو حامی سابق وزیراعلیٰ دھرم سنگھ کے فرزند ڈاکٹراجے سنگھ (چیرمینکلیان کرناٹک ریجن ڈیولپمنٹ بورڈ) سے گذارش کی جاتی ہے کہ وہ اپناڈریم پراجیکٹ ایسا رکھیں جس سے پنڈت نہرو کے خوابوں کاہندوستان متاثر نہ ہو۔نیاکرنے کے چکر میں کانگریس پارٹی دھول نہ چاٹ لے۔ علاقہ کلیان کرناٹک کے محبان ِ اردو کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے حق کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ سرکاری اردو اسکولوں کوبچائیں۔ غریب احباب بھی اپنے اپنے کاروبارپر دھیان دینے کے بجائے اردو اسکولوں کی طرف بھی توجہ دیں۔ جن علمائے کرام اور ملی تنظیموں نے بغیر کسی مطالبات کے کانگریس کو ووٹ دیاہے وہ علمائے کرام اور ان ملی تنظیموں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اردو اسکولوں کی بقا کے لئے حکومت پر اثر انداز ہوں اور اگر ہوسکے تو اس فیصلے کے خلاف عدالت کادروازہ کھٹکھٹائیں۔ ورنہ اپنی مادری زبان سے ہاتھ دھونے کاجو نقصان ہوگا وہ بہت بڑا ہوگا۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ کئی دہائی پہلے کانگریس حکومت نے گوکاک کمیشن رپورٹ کے ذریعہ اردو کوبے حدنقصان پہنچایاتھا۔اب سدرامیاحکومت دولسانی (انگریزی اور کنڑا) زبان کافارمولہ سرکاری اسکولوں پر لاگو کرتے ہوئے اردو، مراٹھی، تیلگو، اور ہندی وغیرہ زبانوں سے کھلواڑ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اہل ِ علم اور اہل زبان سہ لسانی فارمولے کو درست سمجھتے ہیں۔ اور نیوایجوکیشن پالیسی نے بھی مادری زبان کی حفاظت کی بات کہی تھی مگر کرناٹک کی سدرامیاحکومت کچھ نئے منصوبے کے ساتھ سامنے آئی ہے تو اس منصوبہ پر ملت اسلامیہ غورکرے اور اس کی مخالفت کرے۔ خصوصاً کانگریس پار ٹی کامینارٹی ڈپارٹمنٹ اس بارے میں کیاسوچتاہے وہ بھی عوام کے سامنے آنا چاہیے۔کیوں کہ کانگریس پارٹی کامینارٹی ڈپارٹمنٹ کارول کہاجارہاہے کہ ملت کے حق میں ہمیشہ مشکوک رہاہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!