ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم۔ کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی

(از قلم: مختار احمد کوتوال)

0
Post Ad

مولانا نجم الدین عمری ہر خاص و عام کے لئے متعارف شخصیت پہلی ہی ملاقات میں اپنی طرف مائل کرنے اور تحریکی فکر کا اثر چھوڑنے والی شخصیت، آ سان وسلیس انداز گفتگو کے ذریعہ بڑے ہی اطمینان کے ساتھ بات کو رکھنے اور سامع کو اپنی بات پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہوئے گفتگو کی تشنگی کو باقی رکھ کر اگلی ملاقات کا وعدہ کرکے جدا ہونے والی شخصیت۔
مولانا نجم الدین حسین عمری اب ہمارے درمیان نہیں ریے.
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
اب ان سے ملاقات کا وعدہ آ خرت ہی میں پورا ہوگا.انشاء اللہ

1995 کی بات ہے بھدراوتی میں SIO کے اجتماع کے دوران مولانا سے میری ملاقات ہوئی اس وقت آ پ جماعت کے جزوقتی مدرسے میں معلمی کیخدمات انجام دے رہے تھے۔
اس دوران دفتر میں قیام کا موقع رہا مولانا رات کے قیام کا بہترین نظم کیے تھے۔ ہم جب دفترمیں داخل ہورہے تھے اس وقت
آپ بستر پر تکیہ لگاتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ یہاں آ رام کرسکتے ہیں۔
جب صبح ہوئی نماز فجر کے بعد انکے شاگردوں کا آ نا شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ آپ وہاں کے مدرس ہے۔مگر دیر رات تک وہ مہمانوں کی خدمت میں تھے محسوس ہی نہیں ہوا کہ آ پ مدرس ہیں  انکی سادگی یہ باور کراگئی کہ دنیا صرف مسافر خانہ ہے۔
عالم دین ہونے کے باوجود آپ کسی چھوٹی مجلس سیاپنیآپکو الگ نہیں رکھتے اور نہ ہی محفل میں احساس پیدا کراتے کہ آ پ عالم دین،کیا بچے،کیا جوان،کیا بزرگ سب سے ملاقات کا ایک سا رویہ وہی بشاشت، وہی خلوص وہی اپنائیت۔ایک بار کسی فرد سے ملاقات کرلی تو بس وہ مولانا ہی کا ہوکر رہتا،مولانا اس سے وہ تمام چیزیں معلوم کرلیتے جو اسکی ترقی اور تحریک سے وابستگی میں رکاوٹ بنی رہتی. چاہے وہ اسکے گھریلومسائل ہوں،معاشی ہو یا تجارتی مولانا ان مسائل کیحل کی کوشش ایسی کرتے کہ وہ بالآخر ان رکاوٹوں سے باہر ہی آجاتا اور  یہ کام بھی ایسے ہوتا جس کی کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی۔
آ ج ایسے افراد کی ایک بڑی تعداد یقیناً انکی تدفین اور غم میں شریک ہے جو مولانا کے ان احسانات کو یاد کر زار و قطار رو رہے ہیں۔
اور اس بات پر خوش بھی ہیں کے جنت میں ان کا استقبال کچھ اس طرح ہورہا ہیکہ

سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ بِمَا صَبَرۡتُمۡ فَنِعۡمَ عُقۡبَی الدَّارِ۔

*تم پر سلامتی ہو تمہارے صبر کرنے کے صلہ میں، پس (اب دیکھو) آخرت کا گھر کیا خوب ہے۔*

مولانا بھدراوتی سے ہی SIO کے ممبر بنے اور سیدھے صدر حلقہ منتخب ہوئے انکے ساتھ سکریٹری حلقہ کی حیثیت سے تنظیم نے خدمت کا شرف بخشا۔
*ففرو الی اللہ* اجتماع عام کی سنہری یادیں جسمیں مولانا جی جان سے محنت کی اور کاموں کی تنظیم ایسے کی کہ نہ SIOکے کام متاثر ہوئے نہ اجتماع عام کے۔
اسی دوران میں اور مولانا *اجتماع گاہ الیکٹرانک سٹی* کے لئیحلقہ کی اسکوٹر پر سوار نکلے *کورمنگلا* کے قریب ٹرافک پولیس نے پکڑ لیا مولانا کی *سادہ لوحی اور دعوت دین کے جذبہ نے* ٹرافک پولیس کے غصہ کو اتنا ٹھنڈا کیا کہ وہ *ففروالی اللّٰہ* کے معنی جان گیا اجتماع میں شرکت کی دعوت بھی قبول کی اور بڑے ادب کے ساتھ وداع کرتے ہوئے کہ آپ پر جھپٹنا میرے لئے مفید رہا۔ *یہ ایک داعی کا کردار تھا جسکا مظاہرہ مولانا نیکیا۔*
احساس ذمہ داری کا معاملہ بھی نرالہ تھا۔ تھے تو وہ مولانا مگر طلباء تنظیم کے ذمہ دار رہ کر اپنے ماتحتین کی تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،مربی کا رول بھی ادا کیا۔ ایک عصری علوم کا طالب علم بن کر۔
جب ہم دوروں کا پروگرام ترتیب دینے بیٹھتے تو جس یونٹ کے دورے پر ہمیں جانا ہونا وہاں کی ایک ایک چیز سے آ گاہ کرتے وہاں کی خوبیاں وہاں کی خامیاں افراد کا مزاج یہ معلومات اس لئے دی جاتی کہ ہمارا دورہ کامیاب دورہ بن جائے۔
فرد شناسی  کی ایک نمایاں خصوصیت مولانا میں کوٹ کوٹ بھری ہوئی تھی فرد کی خوبیوں کو جان کر اسکے نشوو نما کے لئے موقعوں کی تلاش میں رہتے اس نوجوان کو تنظیم کا حصہ بننے تک اس سے ربط میں رہتے بعد میں وہ نوجوان از خود  مولانا کے ربط آجاتا تو کبھی جدا نہیں ہوتا۔
ہمیشہ کسی کسی نہ کام کے انجام دہی کی فکر میں اپنے آپ کو مصروف رکھتے وہ فکر اپنی ذاتی کبھی نہیں ہوتی بلکہ تنظیم و تحریک کی ہی ہوتی۔
فطری جذبات کا بھی مولانا خیال رکھتے ذمہ داری کے موقع پر ماہ یا دو ماہ میں جب گھر پر جانے کے باری آ تی تو مولانا اپنی چھٹی کے دن کم کرتے ہماری, چھٹی کے دن بڑھا دیتے اپنی ضرورت پر ہماری ضرورت کو ترجیح دیتیہرمعاملے میں ایثار کا عملی نمونہ بن کر دکھایا۔
میرے بڑے بھائی کے سڑک حادثہ میں انتقال پر مولانا نے میریوالدین کی ہمارے گھر حاضر ہوکر ہمت بندھائی صبر کا دامن ٹوٹنے نہ دیا۔
پچھلے جب مولانا کے چھوٹے بھائی نصرت علی کا انتقال ہوا تو میں تعزیت کے لئے مولانا سے ملاقات کی تو مولانا نے اس صبر وتحمل سے گفتگو کی کہ انکے صبر کو دیکھ کر مجھے آگے کچھ پوچھنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔
اپنی اہلیہ محترمہ انیس فاطمہ صاحبہ کی بھی اسی انداز سے تربیت کی کہ وہ تحریک کے کام کے لئے ہمشہ تیار رہتی۔
ایس آئی او آفس میں بہت ہی کم مواقع ایسے آ ے جہاں ہم نے باہر جا کر کھانا کھایا ہو،ہر روز مولانا کہ ہاں کھانا بنایا جاتا اور پروسا جاتا۔
دونوں کی خدمت اور صبر ناقابل فراموش ہے۔ *مولانا کے احسانات کو ہم کبھی بھلا نہیں سکتے .

مولاناجب شعوری طور پر تنظیم کے ذریعے تحریک میں شامل ہوئے تو پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اس دن سے آخری دم تک اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ دین کی خدمت کے لئے لگے رہے۔

ایسی بہت ہی کم مثالیں دور حاضر میں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں جہاں شوہر اور بیوی دونوں نے بڑے ہی جوش و خروش سیاپنی ضروریات اور مسائل کو بالائے طاق رکھ تحریک کے وقف کردیا ہوں۔

 یہ گھڑی محترمہ انیس فاطمہ صاحبہ اور مولانا کی والدہ کے لئے انتہائی صبر اور آزمائش کی گھڑی ہے جہاں ایسا شوہر جس نے ایثار و قربانی کی مثالیں رقم کی ہوں اور  ایسا بیٹا جس کے سامنے اسکے جوان بھائیوں نے دار فانی سے کوچ کرجانے پر ماں کو صبر کی تلقین کی ہو  وہ خود مالک حقیقی سے جاملے تواس ماں پر کیا گذر رہی ہوگی.

قربان جائیں ہمارے ان اسلاف پر جنہوں نے اپنیشوہر اور اپنے بیٹوں کو خداکی راہ لگا کر یہ کہا کہ تھا کہ

جان تو دی جو دی تھی اسکی تھی
سچ تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔

اسلاف کے یہ نقوش ہمارے لئے مشعل راہ ہے جو ہر آزمائش اور صبر کے موقع پر ہمارے ایمان کو جلا بخشتے ہیں

اللّٰہ مولانا نجم الدین حسین عمری مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے انکے حسنات کو قبول فرمائے۔جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
تحریک کو نعم البدل عطا کرے۔ پسماندگان و وابستگان جماعت کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین یارب العالمین

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!