سب سے بے نیاز ‘ بندۂ مولیٰ صفات مولانا نجم الدین حسین عمری صاحبؒ

0
Post Ad

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
سب سے بے نیاز ‘ بندۂ مولیٰ صفات
مولانا نجم الدین حسین عمری صاحبؒ
اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مولانا نجم الدین حسین عمری صاحب بھی ہم سے جدا ہوگئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔پچھلے دنوں ہوئے جان لیوا حادثہ میں مرحوم شدید زخمی ہوئے ‘افراد خاندان اور وابستگان جماعت نے صحت و عافیت کی خوب دعائیں مانگیں ‘ لیکن قضا کو کون ٹال سکتا ہے:

اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی موت وقت آجائے تو ہرگز نہیں ٹالتا۔ (المنافقون:۱۱)
آخر مولانا راہ خدا میں مصروف رہتے ہوئے ہی رب سے ملاقات کرلی۔موت دراصل ‘ رب سے ملاقات کی ابتداء ہے۔جو شخص رب سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے وہ راہ خدا میں ہمیشہ مصروف رہتا ہے۔گویا رب سے ملاقات کا شوق ہی وہ محرک ہے جو حرکیاتی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے ‘یہی معاملہ مولانا نجم الدین حسین عمری صاحبؒ کا تھا۔

پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے…(الکھف:۱۱۰)
مولانا کی جدائی پر ہم تو صبر کرلیں گے۔ لیکن مرحوم کی اہلیہ صاحبہ‘ والدہ محترمہ اور گھر میں موجود دیگر بیواؤں اور بچوں کا کیا ہوگا؟ سوچیں تو بڑی فکر لاحق ہوتی ہے کہ رب کریم نے مولانا کے افراد خاندان کو کیسی سخت آزمائش میں ڈالا ہے۔اس رحمان ورحیم سے امید ہے کہ ان سب کو صبر وتحمل کے ساتھ مشکلات برداشت کرنے کی قوت بھی عطا کرے گا۔اور اپنے فضل وکرم سے وہ تمام وسائل وذرائع بھی فراہم کرے گا کہ مرحوم کی طرح انکے اہل خاندان بھی بے نفسی کے ساتھ مومنانہ زندگی بسر کریں گے۔ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے ۔ جنت الفردوس عطا فرمائے۔ اہل خاندان کے تمام مسائل اور پریشانیوں کا مداوا فرمائے اور سب کو اپنے دامن رحمت میں لے لے۔

اے اللہ ہم پناہ مانگتے ہیں تیری نعمت کے زوال سے‘ تیری عافیت کے چھن جانے سے‘ تیری دی ہوئی صحت کے بگڑ جانے سے‘ تیرے عذاب کے اچانک آجانے سے اور ہر طرح کے تیرے غضب سے۔(براویت حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ۔صحیح مسلم)
ایسے نازک موقع پر ہم سب مولانا کے افراد خاندان کے ساتھ ہیں۔رفقائے جماعت بطور خاص مقامی و قریبی رفقاء مولانا کے اہل خاندان کی خبر گیری کریں۔ اللہ کے رسولﷺ کی کئی احادیث ہیں جن میں آپﷺ نے اللہ کی راہ میں نکلنے والوں کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ انکے گھروں کی حفاظت کرنے والوں اور انکے اہل و عیال کی کفالت کرنے والوں کو اجر عظیم کی بشارت دی ہے۔بے شک اللہ رب العزت نے اپنے راہ کے مجاہدوں کا ذمہ اٹھایا ہے۔ وہ اپنی راہ میں نکلنے والوں کے اہل عیال کی حفاظت اور مدد کیلئے اپنے بندوں کے دلوں میں جذبہ ڈال دیتا ہے۔ جو ان کی مددوحفاظت کریں گے ان کے لیے بڑی بشارتیں ہیں اور جو ان سےصرف نظر کرتے ہیں ان کے لیے وعیدیں ہیں ۔
مولاناکا تحریکی سفر
مولانا نجم الدين حسین عمری صاحبؒ کے تحریکی سفر کا آغاز ۱۹۹۰ کے اوائل میں ہوا۔ مرحوم اُس وقت بھدرواتی‘ضلع شموگہ میں مقیم تھے۔ اس کے بعد ایس آئی او کے ممبر بنے۔ ۱۹۹۷ کی میقات میں آپ کا سکریٹری حلقہ کی حیثیت سے تقرر ہوا۔ اس کے بعد ۱۹۹۹ کی میقات میں آپ صدر حلقہ منتخب ہوئے۔ اس سے فراغت کے بعد جماعت میں شامل ہوئے اورپچھلے تقریباً ۲۳ سالہ عرصہ میں ضلع، علاقہ، حلقہ کی سطح کی ذمہ داریاں ادا کیں۔
مولانا کےاوصاف حمیدہ
(۱) مولانا کی جماعت میں ذمہ داریاں بدلتی رہتی تھیں۔ لیکن ذمہ داریاں کسی بھی سطح کی ہوں‘ حلقہ کی یا علاقہ و اضلاع کی ‘آپ نے کبھی ناگواری کا احساس ہونے نہیں دیا۔ حالانکہ نظم و انصرام کے اصولوں کے تحت ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے مقام کی تبدیلی نفسیاتی دباؤ ڈالتی ہے۔جو لوگ اس کو انگیز کر جاتے ہیں‘وہ صابر و بردبار معلوم ہوتے ہیں‘جیسے مولانا تھے۔ لیکن جو لوگ اپنی فطری کمزوریوں کی بنا اس دباؤ کو انگیز نہیں کرسکتے ان سے متعلق تاثر ابھرتا ہے کہ وہ منصب کی چاہت رکھتے ہیں۔ ذمہ داریاں کسی بھی سطح کی ہوں‘اصل بات راہ خدا کی جدوجہد ہے۔ اگر یہ اخلاص سے جاری رہے تو لازماًہر وابستہ فرد کی زندگی میں ایک ایسا مرحلہ ضرور آتا ہے کہ وہ منصب کی چاہت سے بالکل بے پرواہ ہوجاتا ہے۔ہر حال اور ہر حیثیت میں مصروف رہنا اس کی پہچان بن جاتی ہے۔ رفقائے جماعت کو اس درجہ اپنی ذاتی تربیت کی کوشش کرنی چاہئے۔ منصب کی چاہت جماعت میں ہرگز مطلوب نہیں اسلئے کہ جس دین کی اقامت جماعت چاہتی ہے اس کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے‘رسول اکرمﷺکا فرمان ہے:
(براویت حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ:صحیح بخاری)۔
ہم ہرگز کسی ایسے شخص کو ذمہ دار مقرر نہیں کریں گے جو ذمہ دار بننا چاہتا ہے۔
(۲) مولانا کی ایک اور قلندرانہ ادا ایسی تھی جو انہیں سب کی واہ واہی سے بالکل بے پرواہ کئے راہ خدا میں مصروف رہنے کا محرک بنی۔ وہ ان کی بے نفسی ہے۔ اس سے مراد بس اپنے کام کی دھن۔ نہ کسی کی تعریف کی فکر نہ کسی اسٹیج پر تقریر پر توجہ۔ایک ذمہ دار کے بارے میں غالباً یہ سمجھا جاتا ہے کہ ذمہ دار یوں کی ادائیگی کے لئے تقریر بہت ضروری ہے۔جبکہ معاملہ ایسا نہیں ہے ورنہ دستور جماعت میں مطلوبہ صفات کے تحت اس کا بھی ذکر ہوجاتا۔ دراصل تقریر صرف کا ایک ذریعہ ہے ۔ اس کے سلسلہ میں محتاط رویہ نہ اختیار کیا جائے تو یہی ذریعہ‘ خارجی مسائل اور جمود کی وجہ بن جاتا ہے۔محتاط رویہ سے مراد یہ کہ تقریرکو‘ جماعتی کام انجام دینے کے لئے موجود بیسیوں ذرائع میں سے ایک ذریعہ سمجھا جائے ۔ تقریر ہی کو جماعتی کاموں کی اصل اور ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے ضروری سمجھنا ‘ غیر محتاط رویہ ہے۔مولانا کی شخصیت اس سلسلہ میں ایک نمونہ ہے ۔ ان کے مختلف مقامات کے ایسے کئی دورے ہوتے تھے جن میں ملاقات اور گفتگو کے علاوہ کوئی تقریر وغیرہ کا خاص اہتمام نہیں ہوتا تھا۔
جماعت کی تاریخ میں ایسے کئی ذمہ داران گزرے ہیں جو بہترین مقرر نہیں تھے لیکن وہ اپنی مخلصانہ جدوجہد سے غیر معمولی اثرات چھوڑ گئے ہیں جنہیں ہم آج بھی یاد کرتے ہیں۔مولانا ابواللیث اصلاحی صاحبؒ ‘ مولانا محمدشفیع مونس صاحبؒ‘ مولانا محمد جعفر منیار صاحبؒ وغیرہ۔اس ضمن میں ایک بڑا ہی لطیف نکتہ سمجھنا چاہئے۔ اصل میں جب کوئی جماعت سے وابستہ ہوجاتا ہے تو اسکی جماعت سے مستقل جڑے رہنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ان میں سے ایک غالب وجہ اس کی حالتِ اطمنیان ہے۔یعنی وہ جماعت سے ہمیشہ چمٹا رہے گا اگر اس کو ہر وقت یہ اطمینان رہے کہ میں ایک اعلیٰ نصب العین رکھنے والی جماعت سے وابستہ ہوں ۔یہ اس وقت ممکن ہوگا جب وہ نظم سے جڑکرایک یا ایک سےزائد میدانوں میں مستقل تعاون دینے والا ہو۔جب تک وہ سرگرم عمل رہتے ہوئے تعاون دیتا ہے ‘ وہ حالتِ اطمینان میں رہتا ہے۔لوگ اس کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں‘ کس قدر مانتے اور کس قدر نہیں مانتے ‘ کیاذمہ داری دی جاتی ہے اورکیا نہیں‘ اس کی اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ لیکن اگر کوئی جماعت میں شمولیت کے بعد تعاون کے لئےصرف تقریر کا میدان منتخب کرتا ہے تو جب تک وہ تقریریں کرتا ہےوہ حالتِ اطمینان میں رہتا ہے۔وہ پوچھتا بھی ہے کہ اظہار خیال کیسا رہا؟ اسلئے آپ دیکھ لیں جو اچھی تقریریں کرتے ہیں وہ میدان میں کس حد تک سرگرم عمل رہتے ہیں ؟اس میں احتیاط برتنا بہت ضروری ہوتا ہے ورنہ فرد جماعت صرف تقریر کی حد تک رہ جاتا ہے۔تقریر کرنے کا موقع ملا ٹھیک ورنہ اس کے رویہ میں تبدیلی آجاتی ہے۔اس ضمن میں مولانا کی زندگی ایک اچھی مثال ہے۔عالم اور اچھا اظہار خیال پر قدرت رکھنے کے باوجودتقریر پر ہی توجہ مرکوز نہیں رکھی بلکہ اپنے آپ کو میدان عمل کا شہسوار بنالیا۔ آج ہم انہیں ان کی تقریروں کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی ملنساری‘ راہ خدا میں ان تھک جدوجہد وغیرہ کی بنا جانتے ہیں۔
(۳) مولانا کے سماجی تعلقات بہت اچھے تھے۔ نہ صرف حلقہ کرناٹکا بلکہ تلنگانہ‘ آندھرا اور مہاراشٹرا کے لوگوں سے بھی آپ کے اچھے روابط تھے۔ ابھی جب مولانا گلبرگہ کے منور ہاسپٹل میں شریک تھے اس وقت ایک صاحب ٹانڈور سے تشریف لائے تھے۔ پوچھنے پر اس مقام کے ایک صاحب کا نام بتایا اور کہا کہ انہوں نے بھیجا ہے اور حکم دیا ہے کہ یہیں رہ کر مولانا کی صحت کے بارے میں انہیں مطلع کرتا رہوں۔اس کے علاوہ رشتہ لگانے اور ازدواجی مسائل حل کرنے میں بھی آپ کا خاصہ وقت لگتا تھا۔
(۴) آپ بڑے مردم شناس تھے۔ حلقہ میں کسی بھی مقام کے کسی بھی فرد کے بارے میں وہ یقینی طور پر بتاسکتے تھے کہ ان سے کیا اور کس طرح کا کام لیا جاسکتا ہے۔اور اگر کسی جماعتی فرد کے سلسلہ میں کوئی رائے قائم کرنی ہو تو مولانا کی اس فرد متعلقہ کے سلسلہ میں گفتگو بڑی مدد گار ثابت ہوتی تھی۔ مرد شناسی یعنی لوگوں کو ان کے حال کے مطابق پہچاننا ایک خداداد صلاحیت ہے۔ایسی صلاحیت کے حامل افراد جماعت کیلئے بڑا اثاثہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ افراد سے کام لینا اور ان پر مختلف ذمہ داریاں ڈالنا‘ ہر مقام پر ہوتا ہے۔لہذا جب تک افراد کے سلسلہ میں صحیح معلومات اور حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے والے افراد نہ ہوں تو نہ کام کی صحیح تقسم ہوسکتی ہے اور نہ ہی صحیح سمت میں کاموں کی انجام دہی۔
(۵) مولانا کی جغرافیائی حس بڑی کمال کی تھی۔ کسی بھی مقام پر ایک مرتبہ جائیں بس ‘ دوبارہ اس مقام کے راستے معلوم کرنا ان کے لئے بڑا آسان ہوجاتا ہے گویا خودوہ ان کا اپنا مقام ہے ۔ اس کے علاوہ ریاست کے کس مقام کےلئے کیسے سفر کیا جاسکتا ہے؟ کونساراستہ آسان اور کونسا مشکل ‘ مولانا بیٹھےجگہ سب کچھ بتانے کی اہلیت رکھتے تھے۔ جب کسی مہم یا دورے کے پروگرام کے لئے دوروں کے سفر کا راستہ متعین کرنا ہو تو مولانا کی کمال کی حس بڑی مدد گار معلوم ہوتی تھی۔ کسی نقشے کے بغیر وہ بتاتے تھے کہ دوروں کے لئے مقامات کا تعین کس ترتیب سے کیا جاسکتا ہے۔
وہ خود بھی اپنی اسی جغرفیائی حس کا بخوبی استعمال جانتے تھے۔ جب مولانا محمد سراج الحسن صاحبؒ کا انتقال ہوا‘ ا س وقت لاک ڈاؤن کی پا بندیوں کی وجہ سے اطراف کے مقامات کے رفقاء کا بھی سفر کرنا ممکن نہیں تھا ۔ لیکن مولانا کا جذبہ دیکھئے‘ تقریباً۱۳۰ کیلومیٹر کا فاصلہ اپنی ٹو وہیلر پر طے کرتے ہوئے ‘کچے راستے اپناتے ہوئے ‘ سیڑم سے رائچور پہنچے اور مولانا کی تدفین میں شرکت کی۔
(۶) مولانا نجم الدین حسین عمری صاحبؒ کی زاہدانہ زندگی بھی بڑی متاثر کرنے والی تھی۔ بے نیازی آپ کی خاص پہچان تھی۔ کسی کا احسان لینا‘ کسی پر کاموں کا کوئی بوجھ ڈالنا‘ سفر اور قیام میں آرام کو ترجیح دینا‘ قیام کے دوران رہنے ‘کھانے کے خصوصی انتطام کی خواہش کرنا ‘ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔جب ملا ‘ جو ملا‘ اس پر اکتفا کرتے تھے۔ بعض اوقات کسی غیر تنظیمی کام سے کسی مقام کو جاتے تو وہ کام کرکے واپس ہونے سے پہلے متعلقہ ذمہ دار کو بتاتے کہ ان کا یہاں آنا ہوا تھا اور اب واپس ہورہے ہیں۔یہ شان بے نیازی ‘ افراد تحریک کے لئے بڑی ضروری ہے۔ یہ اگر ہو تو ‘کسی سہولت کی پرواہ کئے بغیر راہ خدامیں مصروف رہنا ممکن رہتا ہے۔
والدین اور اہلیہ
مولانا اپنے بھائیوں میں زیادہ پڑھے لکھے تھے اور عالم دین بھی۔ جامعہ دارالسلام عمرآباد سے فراغت کے بعد چند مہینے کوتال میں درس و تدریس کا کام انجام دیا۔اس کے کچھ عرصہ بعد پہلے ایس آئی اور اور اس کے بعد جماعت کے لئے فارغ ہوگئے۔ مولانا کے اس جذبہ اور قربانی کے پیچھے ان کے والدین کا بڑا غیر معمولی تعاون شامل رہا۔ان کے والد مرحوم سے جب بھی ملاقات ہوتی‘ وہ اپنے لائق فرزند کی کارکردگی سے خوشی کااظہار کرتے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو راہ خدا میں وقف کردیا تھا۔ مولانا کے والد کے انتقال کے بعد‘والدۂ ماجدہ کا دست تعاون حاصل رہا۔ وہ ہمیشہ سے مولانا کی حمایتی رہیں اور راہ خدا میں ان کی سرگرمیوں سے خوش ہوا کرتیں تھیں۔یہ ہمارے زمانے کے وہ بزرگ ہیں جو ماضی کے سلف الصالحین جیسا مقام رکھتے ہیں۔ نہ صرف ان کی زندگیاں اللہ کے دین کے لئےوقف تھیں بلکہ انہوں نے اپنی اولادوں کو بھی اسی مقصد کے لئے تیار کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ مولانا کے والدین سے راضی ہوجائے۔
مولانا کی اس شاندار تحریکی زندگی میں ان کی اہلیہ محترمہ انیس فاطمہ صاحبہ کا بھی بڑا غیر معمولی کردار رہا ہے۔ وہ اپنے شوہر کا دست وبازو بن کر یہ تیس سالہ رفاقت نبھائی۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو سخت آزمائش میں ڈالا‘ درمیان میں مولانا کو فالج کا خطرناک حملہ بھی ہوا ‘ لیکن محترمہ کے پائے استقلال میں ذرا بھی جنبش نہیں آئی۔ وہ ہمیشہ سے اپنے شوہر کی معاون اور سچی خیر خواہ بنیں رہیں۔ نیک اور مثالی بیوی سے متعلق رسول اکرم ﷺ کے ان مبارک ارشادات پرانیس فاطمہ صاحبہ پوری اترتی ہیں:

(وہ بیوی اچھی ہے جب اسکا شوہر )ا کو جب دیکھے تو وہ خوش کر دے‘ جب وہ کسی کام کا اسے حکم دے تو خوش اسلوبی سے انجام دے۔(بروایت حضرت ابوہریرہؓ ۔ نسائی)۔

وہ مومن بیوی(افضل ہے) جو اپنے شوہر کے نیک کاموں میں ہرطرح سے تعاون دیتی ہے۔(براویت حضرت ثوبانؓ ۔ ترمذی)۔
مولانا کی تحریکی زندگی کے کچھ اسباق
(۱) ہمار ا یہ احساس تھا کہ مولانا اپنی منکسرالمزاجی کے سبب مواقع ہونے کے باوجود بعض ایک سماجی میدانوں میں نمائندگی نہیں کرتے ‘بلکہ تکلف سے کام لیتے ہیں۔ اس پر جب بھی پوچھا تو مولانا مسکرائے اور اپنے انداز سے وضاحت کی ۔ دراصل یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر اجتماعی حیثیت سے غور ہونا چاہئے۔ یہ نمائندگی کامعاملہ کسی بھی ذمہ دار کے ساتھ کہیں بھی پیش آسکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ کاموں اور ذمہ داریوں کی تقسیم کا نا ہونا اور ان کاموں کو لے کر چلنےوالے ایسے افراد کی کمی بھی ہے‘ جو ایثار وقربانی کے ساتھ آگے بڑھنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔اگر ایسا نہ ہو تو ذمہ دار صلاحیتیں ہونے کے باوجود اپنا زیادہ تر وقت جماعت کے داخلی امور کے لئے مختص کرے گا اور باہر کی دنیا مختلف سماجی میدانوں کو مخاطب کرنے کے لئے درکار یکسوئی اور موقع مل نہیں پاتا۔
(۲) داخلی اور خارجی امور پر توجہ دینے کے لئے اعتدال کا معاملہ بھی اسی سماجی نمائندگی والے پہلو سے جڑا ہے۔ اگر کسی مقام پر کوئی داخلی معاملہ حل نہ ہو تو ظاہر بات ہے اوپر کے نظم ‘ ضلع یا علاقہ کو توجہ دلائی جاتی ہے۔ یہ ذمہ دار معاملہ کا پورا جائزہ لیں گے اور حل بتائیں گے۔حل کا نفاذ تو مقامی افراد کو مقامی سطح پر ہی کرنا ہوتا ہے۔ جب تک وہ بتایا گیا حل نافذ نہیں کریں گے ‘ نہ معاملہ سدھرسکتا ہے اور نہ ہی حالت بہتر ہوسکتی ہے ۔ظاہر بات ہے جب کسی مقا م پر حالات مقامی افراد کی توجہ سے حل ہوسکتے ہیں تو اوپر کے ذمہ داران کو زحمت دینے کی کیا ضرورت ؟ ہاں اگر مقامی سطح پر بھرپور توجہ دینے کے باوجود کوئی مسئلہ حل نہ ہوتو ذمہ داران سے رہنمائی لی جاسکتی ہے۔جب ذمہ داران کو اس طرح کے معاملات سے فارغ رکھا جائے تو وہ اپنا وقت دیگر کاموں پر صرف کرسکتے ہیں۔ بالکل یہی معاملہ ایک مقامی ذمہ دار کابھی ہوسکتا ہے۔اگر سب کام امیر مقامی کرے تو شہر میں جماعت کی نمائندگی کون کرے گا؟ مختلف سماجی میدانوں میں جماعت کی نمائندگی کرنے کے لئے داخلی معاملا ت پرزیادہ متوجہ رہنا‘ رکاوٹ بنتا ہے۔اس ضمن میں تقسیم کار اور ترجیحات کا تعین ضروری ہے۔
(۳) مولانا کی تقریباً ۲۸ سالہ تحریکی زندگی سے استفادہ کا معاملہ خاطر خواہ نہیں لگتا ۔مولانا اپنی صلاحیتوں کے مطابق کما حقہ تعاون نہیں دے سکے۔آپ مزاجاً از خود آگے بڑھ کر‘ پوچھو یا نا پوچھا سب کچھ کہنے والوں میں سے نہیں تھے۔ایسے مزاج کے لوگوں سے استفادہ کے لئے نظم کے علاوہ باشعور وابستگان کو بھی متوجہ رہنا چاہئے۔جماعت میں قائدین تیار کرنے کا کوئی باضابطہ نظم نہیں ہوتا۔ہم سب مل کر ایک قائد کو حقیقی معنوں میں قائد بناتے ہیں ۔ سمع و طاعت کا نظم ‘ قیادت سازی کی مسلمہ بنیادوں میں سے ہے۔ وابستگان کو صرف اپنے قائد کی سننا (سمع) نہیں اطاعت بھی کرنی ہے۔ محض اپنی مرضی کے مطابق اطاعت نہیں کرنی ہے بلکہ سن کر اطاعت کرنی ہے۔جب ہر وابستہ فرد سن کر اطاعت کرنے والا ہوتو قائد بھی اچھا معلوم ہوتا ہےاور مقام بھی۔لہذاہر فرد اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتے ہوئے مجموعی صورت حال پر نظر رکھے اور جہا ں کوئی کام کا موقع یا کوئی کمی نظر آئے ‘ اس جانب نظم کومتوجہ کرے‘اور خود بھی عملی تعاون دینےسے گریزنہ کرے۔ حضرت عمر ؓ کا دور خلافت اس لئے مثالی تھا کہ اس دور کا ہرفرد اپنے کو ایک ذمہ دار سمجھتا اورضرورت ہو تو خلیفہ وقت کی اصلاح سے بھی پیچھے نہیں ہٹتا تھا۔جب حضرت علی ؓ کے دور خلافت میں بے چینی اور بد امنی بڑھنے لگی تو لوگ شکایت کرنے لگے۔ سابق خلفائے راشدین کے زمانوں سے موازنہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ حضرت ابوبکرؓ ‘ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان ؓ کے دور میں ایسا اور ایسا ہوتا تھا اور جگہ جگہ خوشحالی تھی۔یہ سن کر حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ ان کے زمانوں میں مجھ جیسے مشیر اور تعاون دینے والے افراد تھے اور میرے ساتھ آپ جیسےلوگ ہو جو صرف کہتے ہو عملی تعاون دینے میں آگےنہیں آتے۔
(۴) مولانا ‘گفتگو ہو یا کام ‘ بڑے اطمینان سے کرتے ‘لگتا تھا کہ انہیں کبھی کوئی جلد ی ہی نہیں تھی۔اس پر بجاطور سے احساس بنتا ہے کہ مولانا کے کام کاانداز تیز نہیں۔معاملہ دھیما اس وقت نظر آتا ہے جب آپ موازنہ کریں۔یعنی اگر آپ تیز چلنے والے ہوں تو اپنے ساتھی کے آہستہ چلنے کا احساس ہوگا۔ضروری نہیں کہ آپ تیز چلیں تو وہ بھی تیزی اختیار کرے۔ اس لئے جو کام اور گفتگو تیز کرتے ہیں ‘ وہ اپنے حساب سے کام کرنے والوں کو پرکھتے ہیں۔اس لئے کوئی کام میں تیز اور کوئی دھیمانظر آتا ہے۔سچ بات تو یہ ہے کہ اگر کسی کام کی انجام دہی کے لئے وقت زیادہ ہو تو یہ دیکھا جائے گا کہ بغیر کسی وقت کےزیاں کے کام ہورہا ہے یا نہیں۔مولانا اس لحاظ سے بڑے مست مولی تھےجو اپنے کاموں کوبغیر کسی عجلت کے انجام دیا کرتے تھے۔
نظروں میں ابھر آتا ہے ہر ڈوبتا تارا
مولانا نجم الدین حسین عمری صاحبؒ اپنی عمر راہ خدا میں لگا کر ہم سے رخصت ہوگئے ۔ وہ اب ہمیں اپنے نام کی طرح معلوم ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی ‘ ان کے نام کے جیسی تھی:دین کا تارہ(نجم الدین) جو ہر دم شان سے چمکتا‘ روشنی بکھیرتا‘سب کو اپنی روشنی سے فیض یاب کرتا ڈوب گیا۔ایسے تحریکی سپاہیوں کیلئے علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے:
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
کمال صدق و مروت ہے زندگی ان کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں
قلندرانہ ادائیں سکندرانہ جلال
یہ امتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں
اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی خدمات قبول فرمائے۔ حادثاتی موت کو شہادت کا درجہ دے ۔گناہوں اور لغزشوں سے درگزر فرمائے ۔ درجات بلند فرمائے۔والدہ محترمہ اور انیس فاطمہ صاحبہ نیز تمام افراد خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ان کے تمام مسائل حل فرمائے۔آمین۔

شریک غم
محمد عبد اللہ جاوید
۵ صفر المظفر ۱۴۴۵ھ / ۲۲ اگست ۲۰۲۳
رائچور‘ کرناٹکا۔

___________________________________

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!