ادارہ محفل کے زیرِ اہتمام مبین منور کے اعزاز میں اعزازی نشست و نعتیہ مشاعرہ کا شاندار انعقاد

0
Post Ad

بنگلور۔ محفل کے زیر اہتمام ۷/اکتوبر۲۰۲۴ء بروزپیر۔مشہور شاعربلبلِ باغِ مبین منور کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ایک تہنیتی پروگرام رکھا گیا تھا۔پروگرام کی صدارت معروف شاعر و ادیب، نقاد و محقق ڈاکٹر راہی فدائی نے فرمائی۔ اس موقعے پر انھوں نے کہا کہ مبین منور کی بہت سی خوبیاں ہیں۔ انہوں نے ہر اصناف پر بہت کچھ کہا اور لکھا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ اپنی نعت گوئی کی وجہ سے ہمیشہ زندہ و تابندہ رہیں گے۔ ان کی نعتیہ شاعر میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس صاف دکھائی دیتا ہے۔ ان کے کلام کو حضرت امیر شریعت مفتی اشرف علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑے شوق سے سنتے تھے۔ان کا شمار ہندوستان کے معروف نعت گو شعرا میں ہوتا ہے۔مہمان خصوصی جناب عبید اللہ شریف صدر انجمن ترقی اْردوہند کرناٹک و مدیر اعلیٰ روزنامہ پاسبان نے کہا کہ میرے اور مبین منور کے تعلقات تقریباً چالیس سال سے ہیں۔ ہم ان کی بڑی قدر کرتے ہیں انہوں نے جہاں بہت سے بڑے اہم کام کئے ہیںوہیں میں ان کاسب سے اہم کام یہ سمجھتاہوں کہ انہوں نے اپنے بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کی۔ان کے بچے ماشاء اللہ سب بہت لائق اور تعلیم یافتہ ہیں۔انھو ں اُردو زبان کی ترقی و ترویج کے لئے بہت کام کیا اور کر رہے ہیں۔ جب وہ اردو اکادمی کے چیرمین رہے تو انھوں ریاست کے تمام شعرا و ادبا کی کتابوں کی نکاسی کے سلسلے میں بہت کام کیا۔ جناب سید اشرف نے بھی ان کی شاعری اور اردوزبان میں ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔ جناب آر عبد الحمید نے کہا کہ مبین منوراپنے نعتیہ خوبصوت کلام کی وجہ سے ہمیشہ یاد کئے جائیں گے۔ جناب عزیز اللہ بیگ صاحب سابق چیرمین کرناٹک اردواکادمی نے کہاکہ مبین منور ہمیشہ اردو کے کاز کے لئے کوشاں رہتے ہیں وہ جب سے انجمن ترقی اردو ہند کرناٹک کے جنرل سکریٹری بنے ہیں میں دیکھ رہا ہوں کے اردو زبان کے فروغ کے لئے عبید اللہ شریف صاحب کے شانہ بہ شانہ کام کررہے ہیں۔ان کی یہ تہنیت ان کے اسی کارنامے کی وجہ سے انھیں مل رہی ہے۔ مبین منور کی شخصیت پر عبد اللہ نارد نے شاندان خاکہ پیش کیا جسے سامعین نے بہت پسند کیا۔صاحبِ تہنیت مبین منور کی شخصیت اور فن پرمولانا عبد اللہ سلمان ریاض نے تفصیل سے روشنی ڈالی انھوں نے کہا کہ مبین منورؔ کے مجموعہ کلام’’متاع مبین‘‘اور ’’رازمبین‘‘کے مطالعہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان کے کلام میں ان کی شخصیت کا بڑا عمل دخل ہے۔جس طرح ان کی شخصیت میں سادگی،سچائی اور حقیقت پسندی پائی جاتی ہے،اسی طرح ان کے کلام میںبھی یہ خوبیاں نمایاں ہیں۔فنی طور پر ان کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ وہ آسان،سلیس اور سیدھے سادے لفظوں میں اپنی بات کہنے کے عادی ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ مبین منور فطری طور پر غزل کے شاعر ہیں۔انھیں الفاظ برتنا خوب آتا ہے۔ ایک لفظ کوموضوعِ سخن بناکر پیش کرنے کا ہنربھی جانتے ہیں۔ان کی شاعری میں الفاظ کی نشست و برخاست کا ایک خاص اہتمام پایا جاتاہے۔چھوٹی بحروں میں شعر کہنے کا ملکہ بھی ہے۔اپنی مافی الضمیر کی ادائیگی اور فکر کی جولانگی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ان کی غزلوں میں قوم و ملت کا دردو غم، نوحہ و ماتم جہاں ملتا ہے وہیں قوم و ملت کے مستقبل کو روشن و تابناک بنانے کے طریقے اور اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنے کے مشورے بھی ملتے ہیں۔یہی ان کی غزلوں اور نظموں کی خاص پہچان ہے۔اس موقعے پران کی تہنیت میں لوگوں نے اس قدر گل پوشی و شال پوشی کی کہ مبین منور صاحب مکمل گلدستہ دکھائی دے رہے تھے۔مبین منور صاحب اس قدر جذباتی ہوگئے تھے کہ خوشی کے آنسوں ان کی آنکھوں سے چھلکتے ہوئے صاف ظاہر ہورہے تھے۔انہوں اظہارِ خیال کرتے ہوئے تمام شعراادبا اور شرکاء مجلس کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ اد ا کیا۔ پروگرام میں شہر کی مشہور شخصیات میں ڈاکٹر سائشہ یوسف، ڈاکٹر مہ نور زبانی، ملنسار اطہر،سعید منورنیو جنریشن اسکول، الحاج باباجی،اکرم اللہ اکرم،ابوذر نوید دہلوی، فیاض قریشی، سید عرفان اللہ قادری، جناب نظام الدین،شفیق عابدی، اطہر اللہ شموگوی اور دیگربہت سے احباب شریک رہے۔پروگرام کا افتتاح نیاز الدین نیاز کی تلاوتِ قرآن سے ہوا۔ حافظ تبریز احمد نے مبین منور کی مشہور نعت کا نذرانہ پیش کیا۔اس موقعے پر ایک نعتیہ مشاعرہ بھی رکھاگیاتھا۔پروگرام کی نظامت منیر احمد جامی نے فرمائی۔پروگرام کے کنوینر نیاز الدین نیاز نے اپنی جانب اور محفل کی جانب سے تمام شعراو ادبا اوراور شرکاء مجلس کا شکریہ ادا کیا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!