خلیل الرحمن جو ’’مامون‘‘ ہوئے

از قلم : عرفان افضل-8618967693

0
Post Ad

دنیائے اردو ادب میں ویسے اقبال، غالب، میر اور کئی شعراء ذرے ہیں جنہوں نے اپنا لوہا آپ منوایا لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جنوبی ہندوستان سے خال خال ہی ادباء و شعراء نے اپنا نام برِ صغیر کے ادبی منظرنامہ پر روشن کروایا ہے۔ انہیں میں ایک نام جناب خلیل مامون کا نمایاں نظر آتا ہے۔ آپ ویسے پیشہ سے آئی۔پی۔یس افسر تھے اور پولیس محکمہ کے کئی عہدوں پر فائز ہوئے۔ آپ ایک بے باک افسر تھے۔ آپ کے پاس قائدانہ صلاحیت خوب تھی۔ 2008میں پولیس محکمہ سے وظیفہ یابی کے فوری بعد آپ کرناٹک اردو اکادمی کے چیرمین نامزد ہوئے۔ اس سے قبل آپ محمود ایاز صاحب کے دور میں ایک بار کرناٹک اردو اکادمی کے رکن رہ چکے تھے۔ آپ نے اکادمی کی باگ ڈورسنبھالتے ہی اکادمی کوریاستی سطح سے بلند کرتے ہوئے عالمی سطح پر پہنچایا۔ آپ کے دور میں جہاں شمس الرحمن فاروقی، گوپی چند نارنگ، مجتبیٰ حسین کے علاوہ اردو دنیا کے روشن ستاروں کو سیمینار اور دیگر پروگراموں میں مدعو کیا گیا وہیں ریاستِ کرناٹک کے ادباء و شعراء میں کافی کامیاب پروگراموں کی بنا ڈالی جس پر خوب داد و تحسین بٹوری۔ آپ نے نہ صرف ادبی بلکہ ثقافتی پروگراموں کے انعقاد کا بھی اہتمام کرتے ہوئے کشمیر سے جہاں اقبال کی نظمیں پیش کرنے کے لئے ایک وفد کو مدعو کیا وہیں۔ راجستھان کے قوال کو کنڑا بھون کے احاطہ میں اپنا کلام سنانے کے لئے دعوت دی تھی۔ آپ نے بنگلور کے علاوہ کرناٹک کے ہر گوشہ میں اکادمی کی کارروائیوں کو پہنچانے اور اْردو قلمکاروں کو استفادہ کرانے کی انتھک کوشش کی۔ آپ ہی کے دور میں اکادمی سے ایک ماہانامہ بنام ’’صحفیہ‘‘ جو آگے جاکر ’’خبرنامہ‘‘ کے نام سے منسوب ہوا جاری کیا۔ اور آپ نے ’’اذکار‘‘ کو ایک عالمی سہ ماہی مجلہ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ آپ کے دور میں کتابوں کی اشاعت اور اْردو قلمکاروں کو طبی مالی اعانت کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ آپ کے ہی دور میں اکادمی سے ’’ان سے ملئے‘‘ پروگرام کی ابتداء ہوئی۔ اس میں آپ ایک باوقار اردو کی اہم شخصیت کو مدعو کرتے اور پروگرام کے آخری مرحلہ میں مہمان سے سامعین سوال و جواب بھی کرتے یعنی ایک کامیاب قلمکار کی فنی سفر کا احاطہ کرتے ہوئے اس کے تجربات کو اسی کی زبانی سامعین تک پہنچاتے۔ اسی طرح آپ ہی کے دور میں ’’حاصلِ مطالعہ‘‘ کی بھی ابتداء ہوئی ، جس میں کسی معروف شخصیت سے انکے مطالعہ کی کسی کتاب پر حاصلِ سیر گفتگو کی جاتی یعنی مہمان قاری کتاب کے تعلق سے سامعین کو محظوظ فرماتا اور اپنے خیالات کا اظہار کرتا۔کل ملا کر خلیل مامون ؔ نے ادبی دنیا میں کرناٹک اردو اکادمی کے ایک سنہرے باب کو بے حدروشن کیا تھا۔ جس کی کمی اردو دنیا ہمیشہ محسوس کرتی رہے گی۔ شاید یہ شعر خلیل مامون کے لئے ہی ہے کہ :
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!