ڈاکٹر عبدالباری کی کتا ب گل و بر گ چہر ے،گلبرگہ کی ادبی تاریخ میں اضافہ بزم فروغ ادب کے زیر اہتمام تقریب رسم اجراء کا انعقاد، ادبا و شعراء، اردو لکچر رس کا خطاب

0
Post Ad

گلبرگہ :ڈاکٹر عبدالباری گورنمنٹ ڈگری کالج گلبرگہ کے ہونہار طالب علم رہے ہیں،وہ اچھے استاد بھی ثابت ہوئے ہیں۔اس خیال کا اظہار پرو فیسر ڈاکٹر جلیل تنویر سابق صدر شعبہ اردو گورنمنٹ ڈگری کالج گلبرگہ نے کیا ہے۔وہ ڈاکٹر عبدالباری کی تیسری تصنیف گل وبرگ چہرے کی رسم اجراء انجام دینے کے بعد اظہار خیال کر رہے تھے۔ڈاکٹر جلیل تنویر نے تقریب رسم اجراء کی صدارت بھی فرمائی۔بزم فروغ ادب گلبرگہ کے زیر اہتمام آج 12:30بجے دن انجمن ترقی اردو گلبرگہ کے حضرت خواجہ بندہ نوازؒ ایوان اردو میں تقر یب رسم اجراء منعقد ہوئی۔ڈاکٹر جلیل تنویر نے اپنے شاگرد رشید ڈاکٹرعبدالباری کی کتا ب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کتاب میں گلبرگہ کے مشاہیر ادب کو بہترین خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔انہوں نے گل و برگ چہر ے کو گلبرگہ کی ادبی تاریخ میں اضافہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کتاب میں جن شخصیات پر مضامین شامل کئے گئے ہیں ان پر اب تک بہت لکھا گیا ہے۔ڈاکٹر جلیل تنویر نے ان شخصیات پر بھی مضامین لکھنے پر زور دیا جن پر آج تک نہیں لکھا گیا۔قبل ازیں کارروائی کا آغاز پروفیسر ڈاکٹر قاری عبدالحمید اکبر صدر شعبہ اردو کے بی این یونیور سٹی گلبرگہ کی قرأ ت کلام پاک سے ہوا۔بشیر عالم قائد مسلم لیگ اور الیاس ہاشمی صابری شاہ آبادی نے نعت خوانی کا شرف حاصل کیا۔کہنہ مشق شاعر سید سجاد علی شاد نے تہنیتی نظم پیش کی۔عبد الجبار گولہ ایڈو کیٹ نائب صدر بزم فروغ ادب گلبرگہ نے خیر مقدم کرتے ہوئے بتایا کہ بزم فروغ ادب 1984میں حضرت سید محمد محمدالحسینی صاحب غفران مآب سجادہ نشین بارگاہ حضرت خواجہ بندہ نوازؒ اور ضمیر احمد گولہ مرحوم میئر گلبرگہ کی زیر سر پرستی قائم کی گئی تھی جس کے تحت 10سال تک مسلسل علمی،ادبی،تعلیمی سرگرمیاں انجام دی گئیں۔عبدالجبار گولہ ایڈوکیٹ نے کہا کہ پچھلے چند سالوں سے بزم فروغ ادب تعطل کا شکار رہی لیکن بہت جلد اس کا احیاء کیا جائے گا۔ڈاکٹر رخسانہ سلطانہ گیسٹ لکچرر شعبہ اردو گلبرگہ یونیور سٹی نے گل و برگ چہرے پر تبصرہ کرتے ہوئے کتاب میں شامل مضامین کا تنقیدی جائزہ لیا۔انہوں نے کہا کہ کتاب میں شامل مضامین میں ڈاکٹر عبدالباری نے دیانت داری اور صاف گوئی سے کام لیاہے۔ڈاکٹر عبد الباری نے جن شخصیات پر مضامین لکھے ہیں انہوں نے اپنی ساری زندگی علم و ادب کے فروغ کی خدمت میں گذاری۔ڈاکٹر اسماء تبسم اسسٹنٹ پروفیسر بی بی رضا ڈگری کالج گلبرگہ نے کتاب کے انتساب کو سراہتے ہوئے کہا کہ عموماً عز یز و اقارب کے نام سے کتابیں موسوم کی جاتی ہیں لیکن ڈاکٹر عبدالباری نے حضرت خواجہ بندہ نوازؒ کے نام سے کتاب کو منسوب کرتے ہوئے اردو کے اولین نثر نگار کو بہترین خراج عقید ت پیش کیا ہے اسطرح انہوں نے تمام اہل اردو کی جانب سے فرض کفایا ادا کیا ہے۔ڈاکٹر اسماء تبسم نے کتاب میں شامل22 شخصیات پر لکھے گئے مضامین کو حقیقت پسندانہ قرار دیا۔ممتاز طنز ومزاح نگار منظور وقار نے ڈاکٹر عبدالباری کی کتا ب پر نہایت دلچسپ اور پر مزاح مضمون پیش کرتے ہوئے کہا کہ کتاب کے مضامین کے عنوانات کے انتخاب سے ڈاکٹر عبدالباری کی تخلیقی ذہانت کاپتہ چلتا ہے۔عنوان سے ہی مکمل شخصیت ابھر کر آتی ہے اور قاری کو مضمون کے مطالعہ پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ڈاکٹر ماجد داغی معتمد انجمن ترقی اردو گلبرگہ نے گل و برگ چہرے میں شامل مضامین کی طرز نگارش کو قابل قدر بتایا۔ انہوں نے کہا کہ فرزند گلبرگہ مجتبیٰ حسین نے خاکہ نگاری کا آغاز کیا۔ڈاکٹر ماجد داغی نے گلبرگہ کے خاکہ نگاروں انشاپر دازوں کی ادبی کاوشوں کا جامع احاطہ کیا۔قاضی سراج الدین تیر انداز سراج وجہی نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالباری نے گل و برگ چہر ے میں شامل مضامین میں معتبر ہستیوں کے امتیازات و مراتب کا بھر پور خیال رکھا ہے۔انہوں نے گل و برگ چہرے کو دستاویزی نوعیت کی حامل کتاب قرار دیا۔سینئر صحافی عز اللہ سرمست نے کتاب میں شامل سیاسی قائدین الحاج قمر الا سلام اور عبدالجبارگولہ ایڈوکیٹ کے مضامین کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عبدالباری نے دونوں سیاسی شخصیات کی امتیازی خصوصیات کا بہترین جائزہ لیا ہے۔عزیز اللہ سرمست نے مزید کہا کہ ڈاکٹر عبدالباری نے بجا لکھا ہے کہ ملت کے رہنماؤں کے لئے ظاہر و باطن کی شفافیت اور بے داغ کردار لازمی ہے۔ڈاکٹر اکرم نقاش صدر انجمن ترقی اردو گلبرگہ نے کتاب میں شامل مضامین پر تنقیدی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان مضامین کو خاکے نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ ان مضامین میں خاکہ کی جز ئیات نہیں ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ خودصاحب کتاب نے کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ ان کے مضامین خاکہ نماہیں۔ڈاکٹر اکرم نقاش نے مزید کہا کہ تخلیقات پر تبصرہ کا تقاضہ ہے کہ تبصرہ نگار محاسن بیان کرنے کے ساتھ ساتھ فنی خامیوں کی بھی نشاندہی کرے۔ڈاکٹر عبدالباری نے آخر میں اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ جن شخصیات سے متاثر ہوئے ان کی خدمات پر انہوں نے مضامین لکھے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بعض شخصیات چھوٹ گئیں ہیں جن پر انہیں مضامین لکھنا چاہئے تھا۔ڈاکٹر عبدالباری نے کہا کہ اپنی اگلی کتاب میں وہ ان شخصیات پر بھی مضامین شامل کریں گے۔مبین احمد زخم شاعر و صحافی نے نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ نظامت کی۔جلسہ میں ادبا و شعراء لکچررس اور مختلف اداروں کے ذمہ داران نے کثیر تعد اد میں شرکت کی۔مختلف شخصیات،اداروں اور تنظیموں کی جانب سے ڈاکٹر عبد الباری کی شالپوشی و گلپوشی کی گئی۔مجلس استقبالیہ کے ارکان میر آصف علی انجینئر، عبدالمتین فراش، عبدالحنان شاہد، انور صلیدار اور عبد الرحیم نے تقریب کے انتظامات میں حصہ لیا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!