مدارس کو سرکاری فنڈ بند کرنے کا حکم، دستوری حق کو چھیننے کی سازش: ویلفیئر پارٹی کرنا ٹک

0
Post Ad

بنگلور: قومی کمیشن برائے تحفظ اطفال(این سی پی سی آر) کی جانب سے ریاستی حکومتوں کو دینی مدارس کو دی جانے والی سرکاری امداد کو بند کرنے کا سرکُلر جاری کر کے دستور میں دئیے گئے بنادی حق کو چھیننے کی کوشش کی ہے،ویلفیئر پارٹی اس اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔ان خیالات کا اظہار ویلفیئر پارٹی کرنا ٹک کے ریا ستی صدر اڈوکیٹ طاہر حُسین نے ایک اخباری بیان جاری کرتے ہوئے کیا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ جہاں یہ ایک طرف دستوری حق کو چھیننے کی سازش ہے و ہیں اقلیتی طلباء بلخصوص مسلم بچوں کو دینی تعلیم سے دور کرنے اور مدارس کو مرکزی حکومت کے تحت لانے کی ایک منظم سازش کا حصہ ہے۔کمیشن کا کام بچوں کو کو ہر لحاظ سے تحفظ فراہم کرنا ہے نہ کے اُن کے حقوق کی حق تلفی کرنا۔چند لوگ مدارس کو نفرت اور شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یہاں دی جانے ولی تعلیم کو دہشت گردی کی تربیت جیسے سنگین اور بے بنیاد الزام لاگاتے ہوئے مدارس کو بدنام کرنے میں لگے ہیں۔جبکہ دینی مدارس میں بچوں کو ملک کا وفادار،وطن سے محبت اور ایک اچھا شہری بننے کی بھی تعلیم دی جاتی ہے،مدارس کا نصاب ہر کوئی دیکھ سکتا ہے جس کی تعلیم کُھلے عام دی جاتی ہے۔مودی حکومت کی جانب سے آئے دن اقلیتوں کو نشانا بنا نے اور اقلیتی اداروں اور املاکوں کو ختم کرنے یا پھر انہیں اپنے قبضے میں کرنے اور شریعت میں مداخلت کرنے کی لگاتا ر کوششیں جاری ہیں۔تین طلاق، ایکساں سول کوڈ،وقف ترمیمی بل اور اب مدرس کو سرکاری امداد روکنے کے نام پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔اے سی پی سی آر نے تو مدرسہ بورڈس کو بھی بند کرنے کی سفارش کی ہے اس سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ حکومت کی نیت کیا ہے۔ایک طرح اقلیتوں کو دی جانے والی اکالرشپ کو بھی ختم کیا جا رہا ہے تاکہ وہاں بھی اقلیتی طلباء عصری تعلیم سے محروم ہوں اور اب مدارس کو فنڈ روکنے اور اور مدرسہ بورڈ کو بند کرنے کا حکم جاری کر کے یہ اشارہ دیا جا رہا ہے کہ آئندہ دنوں میں تعلیم حاصل کرنے اور اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی کو کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے۔این سی پی سی آر کی یہ تجویز کہ مدارس میں پڑھنے والے طلباء کو عصری تعلیم بھی دی جانی چاہیے،قابلِ قبول ہے مگر اقلیتی طلباء کو تحفظ اور ترقی کے آڑ میں دینی تعلیم سے محروم کرنے کی کمیشن کی سازش کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔اُنہوں نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس سرکُلر کو فوری واپس لیا جائے۔اسی طرح ریاسی حکومت اور بلخصوص اقلیتی وزارات سے اپیل کی ہے کہ مرکزی حکومت کے اس طرح کے سرکُلرس کو اہمیت نہ دیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!