کانٹریبیوشن کی بنیاد پر شخصیت کی جانچ؟

0
Post Ad

میرے ایک عزیز دوست سے گفتگو ہورہی تھی کہ ہم اکثر لوگوں کو ان کے کانڑیبیوشن (contribution) کی بنیاد پر جانتے اور پرکھتے ہیں۔یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس شخص کا کس میدان میں کیا کارنامہ رہا ہے؟ جیسا کارنامہ ہوگا اسی مناسبت اس کا ایک امیج قائم کیا جاتا ہے اور لوگ اسی نسبت سے اسے جانتے پہچانتے ہیں۔پھر ہماری گفتگو میں یہ سوال ابھر کہ آخر یہ کس حد تک درست ہے کہ ہم لوگوں کو ان کے کانٹریبیوشن کی بنیاد پر جانچیں اور پرکھیں؟

یہ حقیقت ہے کہ لوگ اپنے اعمال سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ انجام دئیے گئے اعمال سے معلوم ہوتا کہ وہ کس فکر و خیال کے حامی ہیں۔ جیسے اعمال ہوں گے اسی نسبت سے ان کی شخصیت کی ایک خاص پہچان بنتی ہے۔لیکن جب ہم انجام دئیے گئے اعمال کا صحیح تصور جاننا چاہیں تو یہ حقیقت از خود واضح ہوجاتی ہے کہ اصل کانٹریبیوشن وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ثابت ہو۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس کا علم اسی وقت ہوگا جب ہم اپنے نامہ اعمال کے ساتھ رب کے حضور پیش ہوں گے۔ لہٰذا محض نمایاں اعمال کی بنیاد پر شخصیت کو جاننا پہچاننا اور اس کے بارے میں رائے قائم کرنا کس حد تک صحیح ہوسکتا ہے؟

اگر آپ ان لوگوں کو دیکھیں جنکے کار نامے دنیا جانتی ہے اور جو بڑی ٹھاٹ باٹ سے رہتے ہیں لیکن دل ایمان و یقین سے خالی ہیں‘ ان کے بارے میں آپ کیا رائے قائم کریں گے؟ اعمال کی حقیقت جاننے والا رب ایسے لوگوں کے بارے میں واضح کرتا ہے:
دنیا کے ملکوں میں ان کی چلت پھرت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے۔ (سورہ المومن:۴)۔

اور یہ بھی کہ:
اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں بڑا ہی خوشنما بنا دیا ہے۔ (سورہ الانعام: ۴۳)۔

یعنی ان کا ظاہری ٹپ ٹاپ دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔
اب رہی بات ان کی جو ایمان رکھتے ہیں اور نیک اعمال بھی انجام دیتے ہیں‘ ان کے مخلصانہ اعمال پر اجر کی بشارت تو ضرور ہے لیکن ان کے اعمال کی قبولیت کا پتا دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں ہوجاتا ہے۔ لہذا جس عمل کا صرف ہم ظاہر جانتے ہوں اور اس کے باطن سے بالکل واقف نہ ہوں‘ اس کے بارے میں دعوی انتہا درجہ کی نادانی کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سلف الصالحین اپنے بڑے سے بڑے اعمال کو انتہائی حقیر جانتے تھے۔ حضرت عمر ؓ جنہیں دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی گئی اور جن کی طرز حکمرانی کی آج کی دنیا قائل ہے‘ جن کے دور خلافت میں عراق‘ مصر‘ لیبیا‘ شام‘ ایران‘ خراسان‘ مشرقی اناطولیہ‘ جنوبی آرمینیا اور سجستان جیسے لاکھوں مربع میل پر پھیلے ممالک فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوگئے۔ حتی کہ رسول اکرمﷺ جن کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطابؓ ہوتے… لیکن دیکھئے وہ اپنے بارے میں کیا فرماتے ہیں:

میں چاہتا ہوں کہ دنیا سے اس طرح نکل جاؤں‘ جس طرح آیا تھا‘ نہ میرے لیے کوئی اجر ہو‘ اور نہ میرے اوپر کوئی بوجھ۔(الطبقات الکبری)۔

یہی اعمال کی حقیقت ہے جنہیں انجام تو دیا جاسکتا ہے لیکن ان کے حقیقی انجام کا کوئی دعوی نہیں کرسکتا۔اگر اعمال کی اس حقیقت سے متعلق کوئی صحیح تصور نہ رکھے اور ظاہر کی بنیاد پر اعمال کو بڑا جانے اور لوگوں کے بارے میں رائے قائم کرلے تو کیا وہ حق بجانب ہوگا؟ ہاں اگر کسی عمل کے سلسلہ میں قرآن و سنت میں فضیلت بیان کرنے یا شہادت دینے سے متعلق احکامات ہوں تو اور بات ہے‘جو بہت شاذ و نادر ہی معلوم ہوتے ہیں۔

غرض ہماری فکر‘ صالح فکر ہونی چاہئے۔ جس کا تقاضا ہے کہ ہر چھوٹا بڑا عمل اخلاص سے کیا جائے اور اس کو رب کریم کے حضور پیش کیا جائے اس التجا کے ساتھ کہ اس کو شرف قبولیت حاصل ہو۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے تعمیر کعبہ کا حکم دیا… اس عظیم کارنامے کو آپؑ نے بیان نہیں کیا بلکہ اس کی تکمیل کے بعد رب کے حضور پیش کیا اور فرمایا:

اے ہمارے رب‘ ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے‘ تو سب کچھ سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔(سورہ البقرہ:۱۲۷)۔

اگر دنیا کے پیمانے کے مطابق لوگوں کو دیکھنے اور پرکھنے کا طریقہ اپنایا جائے تو سوائے گمراہی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا….ہم اس شخص کو بہت کچھ سمجھیں گے جس کی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی حیثیت نہ ہو اور جس کو حقیر جانتے ہوں ہوسکتا ہے کہ وہ فی الواقعی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں معزز ہو؟

آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ لوگ جن کا ظاہر ہی پراگندہ ہو اور جو زمانے کو ٹھکرائے ہوئے ہوں ان کی کیا اہمیت ہوگی؟ انہیں لوگ کس نگاہ سے دیکھتے ہوں گے؟ کیا ان کے کسی کانٹریبیوشن کا خیال تک ذہن میں آئے گا؟… لیکن ایسے خستہ حال لوگوں کا مقام و مرتبہ کیا ہوسکتا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا اس ارشاد مبارک کی روشنی میں خوب سمجھ لیں:
حضرت ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: بہت سارے پراگندہ بال والے، لوگوں کے دھتکارے ہوئے ایسے ہیں کہ اگر اللہ تعالی کے نام سے قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ اُن کی قسم پوری کر دے۔ (صحیح مسلم)۔

کانٹریبیوشن کی بنیاد پرشخصیت کو جانچنے سے متعلق گفتگو اختتام کو ان احساسات کے ساتھ پہنچی کہ بس اتنا کہنا چاہئے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں‘ ہر چھوٹا بڑا عمل اسی کی خوشنودی کے لئے انجام دیتے ہیں اور ہم اپنے کسی بھی عمل کے سلسلہ میں دعوی نہیں کرتے… کیونکہ حقیقت حال سے ہم نہیں بلکہ ہمارا رب خوب اچھی طرح واقف ہے:
یہ بات تیرا رب ہی زیادہ جانتا ہے کہ اُس کے راستے سے کون بھٹک گیا ہے اور کون سیدھے راستے پر ہے۔(سورہ النجم:۳۰)۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!