باسط خان صوفیؔ۔وہ جنہیں اختلاف کی فرصت نہیں تھی

محمدیوسف رحیم بیدر ی، بیدر، کرناٹک

0
Post Ad

 لوگ پوچھتے ہیں کہ بیدر کے مشاعروں کو کیاہوا؟ میراجواب ہوتاہے کہ ”یہاں کے شعراء فوت ہوچکے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جنہیں رب نے اپنے پاس بلالیا جیسے نثاراحمد کلیم، فضل الرحمن ہادی ؔ، ملک محی الدین،قیصررحمن، باسط خان صوفیؔ اور ریحانہ بیگم ریحانہ ؔ وغیرہ اور کچھ وہ ہیں جو بقید ِ حیات ہیں لیکن جنہوں نے اپنے کمالِ ہنر ِ ادب سے عوام کوسرفرا ز کرتے رہنے کے بجائے گوشہ نشینی کو ترجیح دی ہے“ اسی کیفیت کو زیب غوری کے اس شعر سے ملاکر دیکھیں   ؎
سانسیں لیتی تصویروں کو چپ لگ جائے گی
سارے نقش کرشموں سے عاری ہوجائیں گے
مقامی ادب کازوال دراصل وہاں کی تہذیب کازوال کہلائے گا۔ لاکھوں لوگ اپنے جذبات اور احساسات کو ادبی تاریخ میں درج نہ کراسکیں گے۔ خماربازی، ہوٹلنگ، سودخوری، شراب پسند ی، قبضے اور رئیل اسٹیٹ کے علاوہ سیاسی باز ی گرو ں کے پیچھے لوگ اورخصوصاً نئی نسل جب ان کا دم چھلہ بن جائے گی تو ادب کا زوال یقینی طورپرہوگا۔ کوئی مشاعرہ نہیں، کوئی ادبی محفل نہیں، ادبی مباحثہ، سیمینار اور سمپوزیم کے بغیر جینے والے شہر کوادب کا آخری شہرکہہ سکتے ہیں   ؎
دور تک کوئی بھی نہیں دِل میں
آخری شہر بھی ملا ویران
سوپنل تیواری کایہ شعر ہے لیکن چرن سنگھ بشرؔ نے بھی بڑ اہی خوب شعرکہاہے، ملاحظہ کیجئے   ؎
یہ دنیا نفرتوں کے آخری اسٹیج پہ ہے
علا ج اس کا محبت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
21/جولائی 2024؁ء کو شاعرحیات، فخر کرناٹک اور استاد الشعراء حضرت رشید احمدرشید ؔ کے شاگردِ رشید جناب باسط خان صوفی ؔ کی چوتھی برسی ہے۔ کورونا جیسے خطرناک عالمی مرض نے بڑے بڑے اہم شاعر، ادیب، سائنس دان، ڈاکٹرس اور نرسیس کو کھاگیا، ان ہی میں ایک نام نعتیہ مجموعہ ”گنجینہ ء گوہر‘‘ کے خالق جناب باسط خان صوفی ؔ کابھی ہے۔ ساری عمر کا یہی کچھ سرمایہ تھا۔ جس پر وہ ناز کیاکرتے تھے۔ اُن کے اس مجموعہ کو بیسویں صدی کے ختم پر کرناٹک اردو اکادمی نے شائع کیاتھا۔ اس مجموعہ کی اشاعت کے بعد بھی 22سال تک موصوف نے حیات پائی لیکن دوسرا شعری مجموعہ انھوں نے اردو ادب کونہیں دِیا۔ بقول مرحوم تین چار مجموعہ ہائے کلام منظر عام پرآسکتے ہیں۔بہرحال آئندہ منظر عام پر آنا بھی چاہیے۔
محمد اسمعیل خان اور حرمت بی صاحبہ (تعلقہ اوراد)کے گھر میں آزادی کے دوسرے سال 1948ء کوباسط خان صوفی ؔ  پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم کم تھی لیکن شعر کہنے پر قدر ت رکھتے تھے۔ شاعر حیات حضرت رشید احمد رشید ؔ سے شرف ِ تلمذ حاصل تھابلکہ اپنی حیات کے آخری دِنوں تک خود کو حضرت رشید ؔکا شاگرد کہلاتے ہوئے فخر محسوس کیا جس کا اظہار انھو ں نے اس شعر میں کیاہے   ؎
صوفیؔ یہ شعر گوئی عطائے رشید ہے
جو کچھ ملا ہے مجھ کو ہے صدقہ رشیدؔ کا
جناب باسط خان صوفی ؔ کاپرانے کپڑوں کاکاروبار تھا۔ ان کی دوکان بیدر کے محبوب گنج(ترکاری مارکیٹ) میں تھی، جہاں دوست احباب کاجمگٹھا اور ادبی افراد کی آوک جاوک تھی۔ آج کل وہا ں چائے کی دوکان دیکھ کرجانے کیوں شرمندگی سی محسوس ہوتی ہے۔ دنیا بھی ایک عجب مکان ہے جوکبھی خالی نہیں رہتا۔ جانے والے کی جگہ  کوئی نہ کوئیلے ہی لیتاہے۔
باسط خان صوفی ؔ سے میراتعلق میرے ادبی ہوش سنبھالنے کے وقت سے رہاہے لیکن 2007سے 2020؁ء کے درمیان کبھی ایسا نہیں ہواکہ ہمارے تعلقات میں خرابی پیدا ہوئی ہو۔وہ ایک مرنجان مرنج شخصیت کے مالک تھے۔ وہ شاعرتھے، اورحیرت ہوتی ہے کہ چغلخوری سے دور رہتے تھے۔ انھوں نے کبھی کسی کی چغلی نہیں کی۔ کسی سے اختلاف نہیں کیا۔ان کے خمیر میں اختلاف کے جراثیم سرے سے ناپیداتھے۔ ان کاسلسلہ پیری مریدی سے مضبوط رہا لیکن ہم جیسے دنیاداروں سے بھی وہ نبھائے جاتے تھے۔
باسط خان صوفی ؔ بنیادی طورپرغزل کے شاعر ہیں۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں::
مری مشتاق نظروں سے نظارے بات کرتے ہیں
کسی سے چلمنِ در کے اِشارے بات کرتے ہیں
سنتے ہیں آج وہ آتے ہیں عیادت کے لئے
دل کے زخموں کو سلیقے سے سجا رکھاہے
سنگِ مرمر میں ہیں تحریرِ وفا کے اوراق
آنکھ والوں کے لئے ہے جو عیاں تاج محل
روشنی میں نظر آئے نہ رفیقوں کے کرم
اس لئے ہم نے چراغوں کو بجھا رکھاہے
کس ادا کو کہیں بُرا صوفیؔ
ہر ادا اک شباب کی سی ہے
صوفی ؔ نے شعوری طورپرخود کو حمد، نعت، منقبت اور تقدیسی شاعری سے وابستہ رکھنے کی کوشش کی۔ یہ اشعار دیکھئے   ؎
زباں کو طاقت ِ گفتار دی ہے تو نے صوفیؔ کی
یہ ورنہ کیاکہے گا، حکم نہ ہو جب تلک تیرا
خداجانے، نبی جانے یاپھر جبریل واقف ہیں
خدا کاوہ بلانااور وہ جانا محمد  ﷺ کا
نہ گھبراؤ چلے آؤ، محمد کے ائے دیوانو
بلاتی ہے تمہیں مالک وہ مختار کی کملی
ا ے دردِ جگر کہہ دے تو شاہ ِ مدینہ سے
تم سامنے ہوں میرے اور نکلے یہ دم آقا
جب چاہا دیکھ لیتاہوں روضہ حضورکا
اب فاصلہ کہاں رہا، نزدیک ودور کا
عرصہ دراز سے شعرائے کرام نے خواتین کی بے راہ روی کی شکایت کی ہے۔ اکبر الہ آباد ی سے لے کرباسط خان صوفی ؔ تک۔ باسط خان صوفی ؔ کی شکایت کا یہ انداز دیکھئے   ؎
بات ناز ک ہے کون سمجھائیں
وقت ہے اب بھی ہوش میں آئیں
عورتیں ہوگئی ہیں بے پردہ
مرد پردہ نشین ہوجائیں
جناب باسط خان صوفی ؔ نے مختلف شعراء کے لئے پوری پوری نظمیں کہہ ڈالی ہیں۔ خاکسارکے بارے میں جب کبھی لکھا، حوصلہ افزا ء لکھا۔ ان کے کلام سے دوتین اشعارپیش کئے جارہے ہیں    ؎
رونقِ بزمِ ادب کہتی ہے آج
چاند تارے کہکشاں یوسف رحیم
کہتا ہے سرچڑھ خلوصِ دوستاں
الفتوں کا آسماں یوسف رحیم
کام وہ کر جاتے ہیں جو ٹھان لیں
مظہرِ عزمِ جواں یوسف رحیم
اُن میں صوفیؔ خودسری پایا نہیں
رکھتے ہیں ظرفِ نہاں یوسف رحیم
جناب باسط خان صوفی ؔ نے محترمہ بلقیس بیگم سے شادی کی۔ ان سے چھ لڑکیاں ہوئیں۔ ان تمام لڑکیوں کی شادی ہوچکی تھی۔شایدآخری لڑکی کی شادی ہونا باقی تھا۔اس دوران اجل کے بے رحم ہاتھوں نے ان کو ہم سے چھین لیا لیکن ان کایہ شعر ان کے شریف ہونے کی نشانی ہے اورانھیں زندہ بھی رکھے گا، کہتے ہیں   ؎
انگلیاں ہم پہ اٹھنے سے پہلے
ہم تو عزت کی نیند سوجائیں
21/جولائی 2020؁ء کوباسط خان صوفی اِس دنیا سے دنیائے بقا کی جانب باعزت طریقے سے سفر کرگئے۔جناب حامداکمل چیف ایڈیٹر روزنامہ ”ایقان ایکسپریس“ گلبرگہ نے جناب محمد باسط خان صوفی ؔکے انتقال پرملال پر گہرے صدمہ کااظہارکرتے ہوئے اپنے تعزیتی بیان میں کہاتھاکہ جناب محمدباسط خان صوفی ؔ بیدر کے ان ممتاز شعراء میں شامل تھے جنھوں نے اس علاقے کی شعری اور ادبی فضاپر اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کی نعتیہ شاعری پڑھنے والوں کے لئے ہمیشہ ان کی یاد دِلاتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلندکرے۔ آمین
آخرمیں پھر وہی روناکہ شہرِ اردو’’بیدر“ سے اردوادب ختم ہوتاجارہاہے۔ ادب کی اس ”تاریخی نگری“ کے لئے  اللہ تعالیٰ نے کیافیصلہ کررکھاہے، یہ وہی جانے لیکن حنیف اخگر ؔنے کیاخوب کہاتھا، وہی بات یہاں پیش کی جاتی ہے   ؎
دیکھو ہماری سمت کہ زندہ ہیں ہم ابھی
سچائیو ں کی آخری پہچان کی طرح
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!