اپنے غموں پر جشن منائیں

محمد عبد اللہ جاوید

0
Post Ad

مصیبتوں اور غموں سے انسان کا پریشان ہونا فطری ہے۔لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ زندگی میں مصیبتوں کا ساتھ‘ سانسوں کی طرح ہوتا ہے۔جب تک سانسیں چلتی رہتی ہیں‘کسی نہ کسی طرح مصیبت اور غم کاسامنا ہوہی جاتا ہے۔سخت آزمائشی اور ناسازگار حالات کا سامنا کرنا‘ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ ذرا سی مصیبت آئی کہ پریشانی شروع ہوجاتی ہے‘ اس سے بچنے کے لئے کیا کچھ اہتمام نہیں ہوتا؟ مخصوص رہن سہن کے انداز ‘رنگوں اور انگوٹھیوں کے استعمال سےلے کرتعویز اور پلیتوں کا سہارا لینا‘دور حاضر کے بڑھتے روحانی کاروبار کا بڑا موثر اور پاپولر ذریعہ بنا ہوا ہے۔ان خرافات ‘ خدشات اور اندیشوں کا اصل سبب‘ انسان سے کچھ چھن جانا ‘ نہ ملنا یا کوئی کمی بیشی نہیں بلکہ اس کی سوچ میں ایک اہم ترین اور بنیادی نقص سے تعلق رکھتا ہے۔وہ ہے محض دنیا کامطمع نظر رہنا اور آخرت کانگاہوں سے بالکل اوجھل ہوجانا ۔انسان کا غموں سے پریشان ہونا جیسے فطری ہے ‘ ویسے ہی فکر آخرت کے فقدان سے آزمائشی حالات پریشان ہونا بھی منطقی اور لازمی نتائج میں سے ہے۔ جب آخرت پیش نظر نہیں ہوگی تو دنیا میں ہر فائدہ اور نقصان اپنےساتھ کئی سوالات اور خدشات لے کر آئے گا۔جب آخرت پیش نظر ہو تو دنیا کا ہر معاملہ عارضی نظر آئے گا۔ فائدہ اور خوشی بھی وقتی و محدود اور نقصان اور غم بھی۔بخوبی معلوم ہوگا کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ وقتی ہے‘ مستقل نہیں۔مستقل تو وہ ہے جو آخر میں ہے۔جب دنیا میں انسان‘ فکر آخرت کے ساتھ جیتا ہے تو اس کا جینا ہی بڑا منفرد اور نرالا ہوجاتا ہے۔ خوشیاں ہوں تو وہ اپنے خالق کے آگے جھکا رہتا ہے۔اور غم ہوں‘ تو ان کا جشن مناتا ہے۔کسی تقریب اور دعوت وغیرہ کے ذریعہ نہیں ‘ بلکہ اپنی رب کی حمد وثنا سے ۔ رب کی بہ کثرت حمد وستائش ہی اس کا جشن بن جاتی ہے۔ وہ جان جاتا ہے کہ غم ‘ دراصل رب کی رحمت کے دروازے کھولنے آیا ہے۔وہ گہرا یقین رکھتا ہے کہ ان آزمائشوں کے بعد اس کا رب اس سے یوں مخاطب ہوتا ہے :انہیں خوشخبری دے دوان پر ان کے رب کی طرف سےبڑی عنایات ہوں گی‘اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی(سورہ البقرہ:۱۵۷)۔ ظاہر ہے‘جب رب کی رحمت کا سامنا ہو تو جشن کیوں نہ منایا جائے؟حضرت یونس علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا ‘ اس کی پاکی اور بزرگی کسی آرام دہ جگہ میں رہ کر بیان نہیں کی۔ آپؑ کسی ایسے مقام پر بھی نہیں تھے کہ جہاں ہر طرح کا لطف و کرم ہو۔بلکہ انتہائی زہریلے‘ تیزابی مادوں سے بھرپور ‘ڈروانی اور بھیانک اندھیرے والے مقام‘مچھلی کے پیٹ میں تھے۔قرآن مجید آپؑ کی اس ادا کو یوں پیش کرتا ہے:
فَنَادٰى فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ١ۖۗ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚ
آخر کو اُس نے تاریکیوں میں سے پکارا نہیں ہے کوئی معبود مگر تو‘ پاک ہے تیری ذات‘ بے شک میں نے قصور کیا۔(الانبیاء:۸۷)

دنیا میں سخت ترین مصیبتیں اور پریشانیاں جس کو ہوں اگر ان سب کو کسی جسم کی صورت دی جائے تب بھی وہ مچھلی کا پیٹ تو نہیں بن سکتیں۔لیکن دیکھئے‘حضرت یونس علیہ السلام ‘انتہائی سخت ترین اور کسم پرسی کی حالت میں بھی رب کی حمد وثناء فرمائی۔حضرت ایوب علیہ السلام کو ایسی مہلک اور جان لیوں بیماری لگی کہ ا نہیں اپنا گھر بار یہاں تک کہ شہر چھوڑ کر دور سنسان علاقہ میں گزربسر کرنا پڑا۔ دولت و جائداد سب چلی گئی۔ سب نے ساتھ چھوڑدیا ۔لیکن اس قدر سخت آزمائش میں بھی دیکھئے زبان پر کیسےکلمات جاری ہیں:
اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَۚ
مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے۔(سورہ الانبیاء:۸۳)

اللہ کے ان برگزیدہ پیغمبروں کے غموں اور پریشانیوں کی انتہا بتائی گئی ہے۔ انہوں نے صدیوں پہلے ہی سخت آزمائشی حالات میں رب کی حمد کے ذریعہ جشن منانے کا ایک نیا بیانیہ پیش فرمایا تھا ۔ایسا بیانیہ جو اول وآخر پر محدودتھا۔حضرت یونس علیہ السلام نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد کی پھر اپنا معروضہ پیش فرمایا اورحضرت ایوب علیہ السلام نے پہلے اپنی بیماری کا ذکر کیا اور پھر اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان فرمائی۔آج انسانی ذہن کو اسی تربیت کی ضرورت ہے کہ غمو ں اور پریشانیوں سے نجات ہنسنے‘ مثبت سوچ اختیار کرنے‘ورزش کرنے یا جھاڑ پھونک کا سہارا لینے میں نہیں بلکہ دنیا‘فکر آخرت کےساتھ گزرانے میں ہے۔ آخرت پیش نظر ہو تو انسان کو دنیا کا غم بھی ‘ رب کی تعریف وتوصیف کے ذریعہ‘ جشن پر آمادہ کرے گا تاکہ وہ اپنے خالق کی بے پایاں رحمت کا مستحق بننے کا حق اداکرسکے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!