معمارِ جہاں تو ہے

0
Post Ad

عرض تحریر یہ ہے کہ میں نے دوران مطالعہ ایڈیسن کے واقعے کو پڑھا جس کو بہت پہلے میں نے اپنے شوہر سے سنا تھا لیکن اب جب کہ اس واقعے پر میری نظر پڑی اس نے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ میرے آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے اور میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں تربیتی انداز پر ایک تحریر لکھوں جو ہماری اصلاح کا ذریعہ بنے۔ آج کے اس پرآشوب دور میں نئی نسل کی حفاظت ایک بہت بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ فلسطین کی تحریک آزادی کے مرد مجاہد نے کہا تھا کہ “ہمارا اور ہمارے دشمن کا اصل جھگڑا آئندہ نسلوں پر ہے۔ یا تو وہ انہی ہمارے ہاتھوں سے چھین کر ہمیں شکست دیں گے یا پھر ہم اپنی نسلوں کو ان کے پنجے سے بچا کر انہیں شکست دیں گے” آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری نگاہوں کے سامنے ہی ہمارے بچوں کا اغوا کیا جا رہا ہے کسی بھی فرد یا قوم و ملت کے لیے اپنے آنے والی نسل سے بڑا اثاثہ، اور کیا ہو سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے تم میں سے ہر ایک رائی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق سوال ہوگا، آدمی اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اسے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی (مسلم)
تربیت اولاد میں عام طور پر عورت کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے. تربیت اولاد میں ماں اور باپ دونوں برابر کے شریک ہیں اور دونوں اللہ کے حضور جوابدہ ہیں۔ اللہ تعالی نے دیگر نعمتوں کی طرح اولاد دیکھ کر والدین کو آزماتا ہے کہ وہ ان کی اچھی تربیت کر کے انہیں اللہ کا سچا بندہ بناتے ہیں یا نہیں۔ اولاد کی تربیت کیسی ہوگی؟ اس بات کا انحصار بہت حد تک انتخاب کردہ زوج(سپوز) پر ہے رشتہ کرتے وقت اپنے ساتھی میں اپنے آنے والی نسل کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے قرآن نے پیغام دیاکہ ایک مومن لونڈی مشرک خاندان عورت سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں پسند ہو ایک مومن غلام مشرک شریف مرد سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں پسند ہو (سورہ بقرہ ۲۲۱) مسلمان گھرانوں میں اکثر شادیاں والدین طے کرتے ہیں انہیں یہ نصیحت یاد رکھنی چاہیے کہ جن مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کے دین و اخلاق پسندیدہ ہوں انہیں بہو یا داماد بنائے۔ محض شکلوں اور تنخواہوں پر فیصلے نہ کریں مبادا افسوس ہو کہ ان کے خاندان سے دین و اخلاق اور اقدار کی وراثت رخصت ہو گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بیٹے کی شکایت لے کر آنے والے باپ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تھا کہ بچے کے باپ پر یہ حق ہے کہ وہ اس کے لیے اچھی ماں کا انتخاب کریں اس کا اچھا نام رکھے اور اس کی اچھی تربیت کریں۔ جب ہم تربیت اولاد کی ضمن میں قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا نام نمایاں نظر اتا ہے سورہٴ صافات میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے بس “جب وہ اس کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو اس نے کہا میرے بیٹے میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تم کو ذبح کر رہا ہوں تو غور کر لو تمہاری کیا رائے ہے اس نے جواب دیا کہ میرے ابا آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے اس کی تعمیل کیجئے آپ ان شائاللہ مجھے ثابت قدموں میں پائیں گے” اللہ تعالی نے اس آیت میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بطور مثال فرمانبردار اولاد کے پیش کرتا ہے۔ دنیا کے دانشمند ششدر و حیران ہیں کہ اس نوجوان کے قلب و جگر کردار و گفتار میں تسلیم و رضا کا یہ جذبہ کیسے ودیعت ہوا۔
“فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسماعیل کو اداب فرزندی” باپ اللہ کے عشق میں ڈوبا ہوا تھا تو بیٹا بھی اخلاق عالم کی آزمائش میں صبر و ثبات کا پیکر بنا نظر اتا ہے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جو جواب دیا وہ تاریخ کے ماتھے پر آج بھی ثبت ہے. الغرض حضرت ہاجرہ علیہ السلام کی تربیت کا اثر ہی اسماعیل کی شخصیت میں نمایاں تھا۔ ایک صنف نازک ہو کر انہوں نے اپنے اوپر ڈر اور خوف کو غالب ہونے نہیں دیا اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ اس بنجر اور بے آباد وادی میں حوصلہ، صبر اور توکل کے ساتھ وقت گزارا وہ اکیلی تھی اپنے بچے کی تربیت انہوں نے ہی کی تھی کبھی تنہائی کا شکوہ انہوں نے نہیں کیا۔ ماں جیسی مہذب با اخلاق ہوگی یقینا اس کی اولاد بھی ویسے ہی ہوگی۔ عورت کو تعلیم یافتہ باشعور اور اللہ تعالی کی فرمانبردار ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک باشعور ماں ہی بچے کی بہترین انداز میں تربیت کر سکتی ہے۔ نیپولین بونا پارٹ نے کہا تھا کہ “تم مجھے ایک اچھی ماں دے دو میں تمہیں ایک اچھی قوم دوں گا” تاریخ کے اوراق پلٹ کر ہم دیکھتے ہیں تو جتنے بھی اب تک دنیا میں بڑے بڑے کردار گزرے ہیں چاہے انہوں نے دین میں سرفرازی حاصل کی ہو یا دنیا کے اعلی منصب حاصل کیے جب بھی انہیں ٹٹولا گیا تو ہر کردار کے پیچھے ان کی والدہ کا ہاتھ رہا ہے۔ اسی لیے علامہ اقبال نے لکھتے ہیں” وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ اسی کی ساز سے ہے زندگی کا سوز و دروں” زندگی کے سارے رنگ عورت کے بغیر ادھورے ہیں زندگی کے ہر روپ میں عورت کا ایک مقدم مقام ہے اور وہ اہم کردار ادا کرتی ہوئی نظر اتی ہے اس مقدس کردار کی بدولت ہی اللہ تعالی نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھی ہے۔ عورت کے اندر تین صفات ایسی ہیں جن سے اس دنیا میں انسانی وجود ابھی تک قائم ہے
۱)عورت پیدا کر سکتی
۲)عورت پرورش کر سکتی ہے
۳ اور عورت تبدیل کر سکتی ہے
دنیا کی تقریبا ہر صحت مند عورت بچے پیدا کر سکتی ہے پرورش کرنے کا کام بھی کرتی ہے لیکن عورت کی ذمے جو تیسرا بڑا کام ہے یعنی تبدیل کرنے کا کام یہ کام صرف ایسی عورتیں انجام دے سکتی ہیں جنہیں صحیح معنوں میں اپنی اہمیت اور حیثیت کا احساس ہوتا ہے ایسی عورتیں نہ صرف دنیا میں انسانی وجود قائم رکھتی ہیں بلکہ دنیا کی ترقی میں کردار ادا کرنے کے لیے اپنی اولاد کی تربیت کرتی ہیں اسی لیے کہا جاتا ہے کہ “انسان کی ترقی کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے” اس دنیا میں ہر بچہ بالکل سادہ پیدا ہوتا ہے ماں کی گود اس کے لیے پہلا مدرسہ ہے اور بچہ دستار گفتار اور رفطار ماں سے ہی حاصل کرتا ہے۔ ہر بچہ بالکل سادہ سلیٹ کی مانند ہوتا ہے اس سلیٹ پر ابتدائی عبارتیں ماں کے ذریعے ہی لکھی جاتی ہیں بچہ بڑا ہو کر کیا کرے گا؟ کیا بنے گا؟ یہ سب کچھ اس بات پر منحصر ہیں کہ اس کے بنیادی نظریات وہ اقدار کیسے ہیں؟ بنیاد جتنی مضبوط اور مثبت ہوگی اتنی ہی زیادہ مضبوط اور مثبت شخصیت کی تعمیر ہوگی ترقی دینے والی عورتیں وہی ہوتی ہیں جو اپنے بچوں میں بلند خیالات اقدار اور اخلاقیات کی پرورش کرتی ہیں ائندہ نسلوں کی ترقی کی ذمہ داری جب تک عورتیں اپنے اوپر نہیں لیں گی نسل پروان نہیں چڑھ سکتی کیونکہ پروان چڑھنے اور پرواز کرنے کے لیے بلند خیالات اقدار اور اخلاقیات کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ چیزیں بچے ماں سے ہی حاصل کر سکتے ہیں ایسی مائیں ہیں تصویر کائنات میں رنگ بھرتی ہیں انہی کے ساتھ سے زندگی کا سوز و ضرور نہ صرف باقی رہتا ہے بلکہ مسلسل ترقی کرتا ہے جان بڑنا شاہ انگریزی کے عظیم ادیب ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ جب وہ چھوٹے تھے تو ان کی دس میں سے نو کام غلط ہوتے تھے لیکن میری ماں ہمیشہ لوگوں کو اس کام کے بارے میں بڑے فخر سے بتاتی تھی جو کام مجھ سے صحیح ہو جاتا تھا رفتہ رفتہ میرے صحیح کاموں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا کیونکہ اپنی ماں کی تعریف حاصل کرنے کے لیے میں درد گنا زیادہ محنت کرتا تھا ہمیں بچوں کی شخصیت کو اہمیت دینا چاہیے انہیں سننے کی کوشش کرنا چاہیے انہیں اظہار خیال کا موقع دینا چاہیے انہیں احساس دلانا چاہیے کہ وہ بہت اہم ہے اکثر والدین بچوں کو صرف سناتے رہتے ہیں اور سمجھاتے رہتے ہیں اس بات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ وہ بچوں کو پہلے سے انہیں سمجھیں پھر سمجھانے کی کوشش کریں اگر والدین بچوں کی گفتگو سنتے ہیں تو بچوں کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے وہ اپنی آئندہ زندگی میں پر اعتماد ہوتے ہیں دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں یہاں پر تھامس ایڈیسن کے بچپن کا واقعہ کا تذکرہ ضروری سمجھتی ہوں کہ ایک دن جب ایڈیسن سکول سے گھر آیا تو اس نے اپنی ماں کو ایک خط دیا جو اس کی ٹیچر نے اس کی ماں کو لکھا تھا اس نے کہا کہ ماں ٹیچر نے یہ خط دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کو صرف تم پڑھ سکتی ہو اس کی ماں کی آنکھیں آنسوں سے بھر گئی جب اس نے تیز آواز میں اس خط کو اپنے بیٹے کے سامنے پڑھا کہ “تمہارا بچہ بہت جینیس (Genius) ہے یہ چھوٹے سکول میں ایسے ٹیچرز نہیں ہیں جو اس کو تعلیم دے سکیں اس لیے اسے آپ خود پڑھائیں” جب ایڈیسن کی ماں کا انتقال ہوا تھا اس وقت وہ صدی کا سب سے بڑا سائنٹسٹ اور متعدد چیزوں کا موجد بن چکا تھا ایک دن اس نے الماری سے بہت خستہ حالت میں ایک خط جو اس کی ٹیچر نے اس کی ماں کو لکھا تھا نکالا اس نے جب اس خط کو پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ “تمہارا بیٹا ذہنی طور پر معذور ہے اب ہم سے اور زیادہ برداشت نہیں کر سکتے اسے اسکول سے نکال دیا گیا ہے” ایڈیسن اے پڑھ کر رونے لگا اور اپنی ڈائری میں لکھا کہ تھامس ایڈیسن ذہنی طور پر معذور تھا جس کو اس کی ماں نے صدی کا سب سے بڑا سائنٹسٹ بنا دیا ایڈیسن نے اپنی زندگی میں ۱۰۹۳ چیزوں کو ایجاد کیا. اس میں الیکٹرک بل بھی ایک اہم ایجاد ہے جب تھامس ایڈیشن کا انتقال ہوا تو پورے امریکہ میں لائٹیں بجھا دی گئی تھی کیونکہ دنیا کو روشن کرنے والا اب اس دنیا میں نہیں رہا تھا ایڈیسن کو ایڈیسن بنانے میں ایک ماہ کے اس جملے کا کردار تھا جو اس نے اپنے بیٹے کے لیے کہا تھا. ہمیں بھی اپنے بچوں سے گفتگو کرتے وقت انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے ہم اپنے بچوں سے جس طرح گفتگو کرتے ہیں وہ یہ طے کرتا ہے کہ بچہ اپنے بارے میں کیا سوچتا ہے اور اس کا یہ سوچنا طے کرتا ہے کہ بچہ کیا بنتا ہے ہم اکثر بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں دوسروں کے سامنے ان کی تعریف کرنے کے بجائے برائیاں اور غلطیاں بیان کرتے ہیں بچوں سے کہتے ہیں کہ تم کسی کام کے نہیں ہو نالائق ہو وغیرہ تو اس طرح بچہ خود اعتمادی کھو دے گا.اگر بچہ تنقید کے ماحول میں رہتا ہے تو ناکارہ بنتا ہے مخالفت کے ماحول میں رہتا ہے تو فسادی بنتا ہے شرمندگی کے ماحول میں رہتا ہے تو مجرم بنتا ہے حوصلہ افزائی کے ماحول میں رہتا ہے تو خود اعتماد بنتا ہے صفائی ستھرائی کے ماحول میں رہتا ہے تو انصاف سیکھتا ہے حفاظت کے ماحول میں رہتا ہے تو وفاداری سیکھتا ہے پسندگیدگی کے ماحول میں رہتا ہے تو خود کو پسند کرنا سیکھتا ہے اگر ہم مثبت طرز پر بچوں کی تربیت کریں گے تو بچوں پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر ہم بچوں کی حوصلہ افزائی کریں گے تو بچہ ترقی کرے گا، اعتماد کریں گے تو بچہ ذمہ دار بنے گا، برداشت کریں گے تو بچہ غلطیوں کا اعتراف کرے گا، معاف کریں گے تو بچہ احسان من بنے گا، عزت کریں گے تو بچہ عزت کرنا سیکھے گا،،دوستانہ رویہ رکھیں گے تو بچہ اپنا مسئلہ آسانی سے بیان کرے گا، وعدہ پورا کریں گے تو بچہ زبان کا سچا اور وعدے کا پابند بنے گا، اسی لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ہمیشہ درست رویے کے ساتھ تربیت کرنے کی کوشش کریں تاکہ بچہ کی شخصیت کی نشونما صحیح سمت ہو سکے اور معاشرے کا ایک قیمتی فرد بن سکے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!