شہید نجم الدین حسین کی ماں تجھے سلام

بقلم : محمد یوسف کنی بنگلور

0
Post Ad

23/اگست 2023
کسی نے ماں کی تعریف یوں کی جب اللہ تعالٰی عورت کو ماں بنانے کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ
چاند کی ٹھنڈک ،شبنم کی آنسو،پھول کی مہک،کوئل کی آواز ،سمندر کی گہرائی ،دریاکی روانی،موجوں کا جوش،کہکشاں کی رنگینی،زمین کی چمک،صبح کا نور، ہواؤں میں بادصبااور آفتاب کی تمازت کو جمع کیا جائے تاکہ اس سے ماں کی تخلیق ہوسکے۔فرشتوں نے عرض کیا پروردگار اپنی طرف سے کیا شامل کرے گا،اللہ رب العزت نے فرمایامیری محبت
اللہ کی محبت میں ایک ماں سب کچھ قربان کرتی ہے اور اسی محبت میں صبر کا پہاڑ بنتی ہے اور آزمائشیں اس سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجاتی ہیں۔
مولانا نجم الدین حسین عمری صاحب کی والدہ محترمہ کو لوگوں نے ایسا ہی پایا۔ کلبرگی سے 56کلومیٹردوری پر سیڑم واقع ہے۔سیڑم ایک تاریخی شہر ہے‌۔یہ علاقہ ستمبر1948 تک نظام کی حکمرانی میں تھا۔ ملک عزیز کی آزادی کے بعد زبان دانی کی بنیاد پر ازسرنو ریاستوں کی تشکیل جدید عمل میں آئی تو سیڑم کرناٹکا کا باقاعدہ حصہ بنا۔یہاں ملی جلی آبادی ہے،برادران وطن کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں،رواداری کی کئی مثالیں ہیں۔شہر میں قدیم جامعہ مسجد ہے اور ایک شیو شنکرمٹھ بھی ہے۔اس مٹھ کے لئے نظام باشاہ نے تعمیر کے لئے مالی تعاون کیا تھا اور 5یکڑ زمین یہ کہہ کر وقف کی تھی کہ مٹھ کے اخراجات اسی سے پورے کئے جائیں۔کچھ لوگوں نے دو یکڑ زمین پر قبضہ کرلیا تھا مسلمانوں کی گواہی سے دو یکڑ زمین مٹھ کو واپس ملی۔1948میں پولیس ایکشن کی وجہ سے کافی نقصان ہوا تھا،یکطرفہ کاروائی سے مسلمانوں کو بھاری نقصان پہنچا۔سیڑم مٹھ کے سوامی جی شیوانند شیو چاریہ کہتے ہیں کہ ان ہی ایام میں مٹھ کے بڑے سوامی جی کا انتقال ہوا،دو دنوں تک مٹھ کے قریب کوئی نہیں آۓ،جب مسلمانوں کو معلوم ہواتو انہوں نے بہ اجازت ہندو دھرم کے اصولوں کے مطابق آخری رسوم ادا کرتے ہوۓ،انتم کریاکرم کیا تھا۔اس شہر کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ 1946میں سید مودودی رحمت اللہ علیہ کا گزر سیڑم سے ہوا تھا ۔ ترجمان القرآن میں بیدر، سیڑم اور قرب وجوار میں تحریک اسلامی کے کام کاایک نقشہ پیش فرمایا تھا۔
اس شہر کےمحمد ریاض الدین ایک جانی پہچانی شخصیت،متقی،پرہیزگاری اور خداترسی کے علاوہ مسلمانوں کی اصلاح ،ان کے درمیان اتحاد اور برادران وطن کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے میں مصروف تھی۔ان کامحترمہ عائشہ بیگم سےنکاح ہوا،اللہ نے انہیں آٹھ اولادیں عطا کیں۔محمد معظم رکن الدین،محمد معزالدین ،محمد مجب الدین ، محمد نجم الدین حسین ، محمد نصرت محی الدین اور بیٹیوں میں طلعت فاطمہ،راحت فاطمہ اورفرحت فاطمہ ہیں۔محمد ریاض الدین صاحب نے
اولادکی تربیت پرتوجہ مرکوز کیا۔مولانا نجم الدین حسین عمری اور نصرت محی الدین منصوری رکن جماعت بنے،معزالدین ایس آئی او کےممبر ،دیگر دو بھائی جماعت سے متفق رہے ۔بہنوں میں تینوں بہنیں کارکن جماعت ہیں،ان کی چار بہوویں کارکن جماعت اور ایک بہو انیس فاطمہ صاحبہ رکن جماعت ہیں۔والدین نے ان تمام بچوں کی تربیت میں اہم رول ادا کیا۔
ویسے مومنین کی زندگی آزمائشات سے پر ہے،بندہ مومن ہر حال میں صبر اور شکرسے جوڑا رہتا ہے۔پچھلے تین سالوں کے عرصے میں نصرت محی الدین منصوری ناظم ضلع یادگیر ایک حادثے کا شکار ہوکر جولائی 2020 میں انتقال کر گئے، جناب محمد ریاض الدین صاحب مرحوم (مولانا نجم الدین حسین عمری صاحب کے والد بزرگوار ) ستمبر2020میں انتقال کرگئے،مولانا کے بڑے بھائی جناب محمد رکن الدین کا جولائی 2023 میں انتقال ہوا.مولانا نجم الدین حسین عمری ناظم علاقہ کلبرگی 6اگست کوضلع بیدر کے وابستگان کے میقاتی منصوبہ کے تفہیمی اجلاس میں شریک رہے، اور اختتامی خطاب فرمایا۔رات قیام کلبرگی میں کیا،7تاریخ کی صبح کار میں اپنے بھائی محمد معزالدین صاحب کے ساتھ سیڑم جاتے وقت حادثے کا شکار ہوۓ ،حادثہ اتنا شدید تھا کہ موقع پرہی جناب معزالدین (پولیس ہیڈ کانسٹیبل) دم توڑدیا ۔ان کی اہلیہ محترمہ کو شدید چوٹیں لگیں اور مولانا نجم الدین حسین عمری صاحب بھی زخمی ہوگئے،زخمیوں کو کلبرگی کے مننور ہاسپٹل میں شریک کریاگیا۔ریاست میں میڈیا، سوشیل میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں خبروائرل ہوگئی۔خاکسار کے ساتھ،جناب اکبرعلی،مولانا عبدالغفار حامد عمری ،جناب سیدعرفان،مولانا محمد سلیم عمری اور جناب محبوب عالم برگن پرمشٹمل قافلہ بنگلور سے بذریعہ کار کلبرگی 8/اگست کی صبح پہنچ گیا۔ہاسپٹل کے باہر رفقائے جماعت مردوخواتین کا ہجوم تھا۔ناظم ضلع جناب محمد مظہرالدین،امیر مقامی جناب ذاکرحسین،جناب محمد ضیاء اللہ،جناب سید تنویر ہاشمی،جناب عبدالمبین ،جناب اقبال علی،جناب عزیز احمد شہنہ ،جناب محمد منہاج الدین، جناب رضوان احمد شہنہ اور دیگر رفقاء کے علاوہ خواتین کی بڑی تعداد موجود تھی‌۔اسی دن محمد عبداللہ جاوید صاحب،سابق امیرحلقہ اور امیر مقامی رائچور کے علاوہ دیگر رفقاء عیادت کے لئے تشریف لاۓ تھے۔
مولانا نجم الدین حسین عمری زخموں سے چور تھے۔ پسلیوں (rib bones) کی سات ہڈیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ ٹھوڈی سے نیچےحلق کٹ چکا تھا،گردن (neck)کی ہڈی متاثر تھی, پھیپڑوں (pulmonary )میں خرابی پیدا ہوگئی تھی،چہرے پر زخم تھے،سر پھٹ چکا تھا ،اس کے علاوہ اندرون زخموں کا ایک سیلاب تھا۔معلوم ہواکہ تیز رفتار کار کا فرنٹ ٹائر پھٹ جانے کی وجہ سے یہ دردناک حادثہ پیش آیا،مولانا خود کار سے باہر نکلے اوربے ہوش ہوگئے تھے۔اب ڈاکٹروں کا کہنا تھاکہ اس حالت میں کہیں شفٹ نہیں کرسکتے۔ ان کی بھاوج صاحبہ آٹھ دنوں کے بعد Discharge ہوگئیں،ہاتھ اور پیر کے Fracture کا علاج جاری ہے‌۔
سیڑم پہنچ کرمولانا کی والدہ محترمہ سے ملاقات کی گئی۔اللہ کی نیک بندی صبر کا پہاڑ بنی تھیں،زبان پر ایک ہی جملہ تھا،اے اللہ میرے بچے کی زندگی لوٹا دے ادھر ملک بھر سے دعاؤں کا سلسلہ جاری تھا،محترم امیرجماعت اسلامی ہند ،نائب امیر جماعت انجنیئر امین الحسن صاحب اور مرکز کے دیگر ذمہ داران باربار مولانا کی صحت کے سلسلے میں استفسار کرتے رہے۔محترم امیرحلقہ ڈاکٹر بلگامی محمد سعد صاحب ان کے خاندان اور رفقاء سے ربط میں رہے اور مشورے دیتے رہے۔14/اگست کو مولانا محمد اقبال ملا صاحب اور محمد بلال سیکریٹری حلقہ کلبرگی پہنچ کر مولانا کی عیادت اور اہل خانہ سے ملاقات کی۔ 16/اگست کو امیرحلقہ اور جناب شبیراحمد خان صاحب عیادت کے لئے کلبرگی پہنچے،ڈاکٹرس،رفقاء اور مولانا کے خاندان والوں سے ملاقات کئے۔20/اگست کو جناب محمد اطہراللہ شریف سابق امیرحلقہ کلبرگی پہنچ کر مولانا کی عیادت کی اور خاندان والوں سے ملاقات کر کے صبر اور دعا کی گزارش کی۔
مولانا نجم الدین حسین عمری صاحب 1969میں پیدا ہوۓ۔ہائی اسکول تک کی تعلیم سیڑم میں مکمل کی ۔والد مرحوم محمد ریاض الدین صاحب کا تحریک اسلامی سے تعلق ہوگیا تھا،مولوی مستان علی خطیب و امام مسجد گڑی شہر میں جماعت کی سرگرمیوں کا آغاز کرچکے تھے،مولوی مجیب الرحٰمن درس گاہ اسلامی رامپور سے واپس لوٹ چکے تھے۔مولانا محمود خان صاحب بحیثیت ناظم علاقہ سیڑم کے دورے پر آیا کرتے تھے۔مولانا محمود خان صاحب( امیرحلقہ کرناٹکا )کے مشورے پر مرحوم ریاض الدین صاحب نے اپنے بیٹے نجم الدین حسین کو 1985ءمیں جامعہ دارالسلام عمرآبادمیں داخلہ دلایا تھا۔فراغت کے بعد 1991 آندھرا پردیش کے مدنپلی مدرسہ دارالہدیٰ میں بحیثیت ناظم اعلیٰ تین سال تک خدمات انجام دیتے رہے۔اس دوران مدن پلی،پنگنورو قرب وجوار کی علاقوں میں ملت میں اتحاد و اصلاح امت کے کوشش کرتے رہے۔ایک اہم کام مولانا کا یہ رہا کہ عوام اور علماء کے درمیان کے فاصلے کو کم کرنے کی کوشش کرتے رہے،آج بھی اس علاقہ کے علماء مولانا نجم الدین حسین عمری صاحب کو یاد کرتے ہیں۔مولانا کو اپنے علاقہ میں خدمت انجام دینے کی بڑی تمناتھی۔بھدراوتی منتقل ہوگئے اورمدرسہ دارالسلام میں 4سال تک خدمات انجام دیتے رہے۔ایس آئی او کے ممبر بنے،1995تا97تک شموگہ ضلع کے آرگنائزر،1997تا99سیکریٹری حلقہ SIO اور1999 تا 2001تک صدرحلقہ کی ذمہ داری ادا کرتے رہے۔مولانا نجم الدین حسین عمری اب اپنے وطن کی طرف جانا چاہتے تھے،جماعت کی رکنیت اختیار کرچکے تھے،جماعت کےذمہ داران ابھرتے نوجوان کو اقامت دین کے لئے ہمہ وقتی کارکن بنالیا۔کلبرگی ضلع مختلف حیثیتوں میں منفرد ہے ۔جماعت اسلامی کی تحریک کو پروان چڑھانے میں
جنوبی کرناٹکا میں میسور اور شمالی کرناٹکا میں کلبرگی کو نمایاں مقام کہا حاصل ہے‌۔مولانا نجم الدین حسین عمری کو معاون ناظم ضلع مقرر کیاگیا اور 2003تا 2007تک ناظم علاقہ کلبرگی کی ذمہ داری ادا کرتے رہے،2007تا 2015تک سیکریٹری حلقہ جماعت اسلامی ہند کرناٹکا اور 2015تا ابتک ناظم علاقہ رائچور و کلبرگی کی ذمہ داری ادا کرتے رہے۔اسلامیہ عربک کالج منصورہ میں بھی آپ کی خدمات رہی ہیں ۔مولانا نے آخری دم تک اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں کو اقامت دین کے لئے لگا دیا۔
20/اگست کو بیدر شہر کی جامعہ مسجد میں حجاج کرام کے لئے منعقدہ پروگرام میں خطاب کرناتھا۔جس کی وجہ سے میں بیدر پہنچ گیا،پروگرام کے بعدایک افسوسناک خبر کانوں سے ٹکرائی
نجم الدین حسین عمری اب نہیں رہے کل شئء ھالک الاوجھہ،لہ الحکم و الیہ راجعون
ہرچیزہلاک ہونے والی ہے،سواۓ اس کی ذات کے،فرمانروائی اسی کی ہے اور اسی کی طرف تم سب پلٹاۓ جانے والے ہو
بیدر کےرفقاۓ جماعت مرد و خواتین غم میں ڈوبے نظرآۓ،بزرگ رکن جماعت جناب جمیل الدین ہاشمی صاحب نے کہاکہ ٹھیک پندرہ دنوں پہلے وابستگان جماعت سے مولانا نجم الدین حسین عمری مرحوم پرزور،پرسوز، پراعتماد اور ولولہ خیز خطاب فرمایا تھا،میں نے پہلی مرتبہ مولانا کا پرجوش خطاب سنا۔محترم امیر حلقہ سے میری تفصیلی بات ہوئی،بنگلور سے گلبرگہ کم از کم 10گھنٹے کا سفرتھا،تدفین تک پہنچنا مشکل تھا،امیرحلقہ نے تعزیتی پیغام پیش فرمایااور مجھے گلبرگہ پہنچنے کے لئے کہا۔بیدر سے گلبرگہ دو گھنٹے کا سفرہے،بذریعہ کار کلبرگی پہنچا،میرے ہم سفرقائم مقام ناظم علاقہ جناب رفیق احمد گادگی اور حافظ ط۱حہ کلیم اللہ بھی تھے۔اس موقع پر
ریاست بھر سے رفقائے جماعت کے فون کالس، تعزیتی پیغامات آتے رہے۔محترم امیرجماعت، نائب امراء انجنیئر امین الحسن صاحب اور مولانا ولی اللہ سعیدی فلاحی صاحب نے موبائل فون سے اپنے تعزیتی پیغامات پیش فرمایا۔ھدایت سینٹر گلبرگہ مرد و خواتین سے بھرا ہواتھا،ہر طرف سے ایک ہی دعا لب پر تھی،اۓ اللہ مولانا نجم الدین حسین عمری صاحب ضکے درجات بلند فرمادۓ اورجنت الفردوس میں جگہ عنایت کرے۔
انسان کی فطرت میں بقاو دوام میں شدید عشق پایا جاتا ہے،جن چیزوں کے ساتھ محبت رکھتا ہے ان کے بارے میں یہی سمجھتا ہے کہ وہ ہمیشہ رہیں گے۔لیکن جماعت اسلامی ہند نے اپنے وابستگان کی تربیت اس انداز میں کرتی ہے کہ وہ صبروشکر کے درمیان زندگی بسر کرتے ہیں،اس لئے کہ ہرچیز زوال پذیر ہے اور وہ زوال کا آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں
مولانا نجم الدین حسین عمری صاحب کی نماز جنازہ خاکسار نے پڑھائی،اس سے قبل مولانا کے بھتیجے وجاہت ندیم نے یہ اعلان کردیاکہ چچاجان پر واجب الادا قرض ہے تو وہ ادا کرنے کے لئے تیار ہیں.آخری دیدار کے لئے بیدر،رائچور،بسوکلیان،ہمناآباد،
بگدل،چتاپور،جیورگی، مورٹگی،یالوار اور دیگر مقامات سے بڑی تعداد میں رفقاء تشریف لاۓ تھے۔مولانا مرحوم کی والدہ اور خاندان والوں کا اصرار تھاکہ تدفین سیڑم میں ہو۔لھذاجنازے کے ساتھ جناب اسلم جاگیردار صاحب کی کار میں ہم سب سیڑم پہنچے،مولانا کی خدمات کا اعتراف شہر کا جم غفیر رات تک انتظار سے کیا۔چھوٹی سے گلی سے گزرتا راستہ خستہ حال عمارت مولانا کا گھرتھا۔گھر میں کیا تھا، صبرکا پہاڑ تھا۔ایک عورت ذات اپنے چار جواں بچوں کو کھو چکی تھیں اپنے چار بہوؤں اور 12یتیم پوتے پوتیوں کے ساتھ اقامت دین کی تڑپ رکھنے والے بیٹے کی لاش کو دیکھنے کی منتظر تھی۔وہ گونگی اور بھری بن کر آنکھوں سے آنسوں گرا رہی تھیں،اس ماں کی تڑپ اب یہ تھی کہ آخرت میں جنت ان کا گھر ہے بچوں سے ملاقات کا موقع اللہ رب العالمین عطا فرمائے گا۔
رات کے 11.45کو نجم الدین حسین عمری صاحب کو سپردخاک کردیاگیا۔
قبر کے پاس
ایک ہی لائن میں پانچ قبریں،نصرت محی الدین منصوری ،مرحوم ریاض الدین ،محمد معظم رکن الدین ،محمد معزالدین اور مولانا نجم الدین حسین عمری کی ہیں‌۔دو معصوم بچوں کی گفتگو میں نے سنی ایک بچہ (نصرت محی الدین) دس سال عمر اور معزالدین مرحوم کا پندرہ سال کا بیٹا،ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہوۓ کہہ رہے تھے،ہمارے ابو کی یہ قبر ہے اور تمہارے ابو کی وہ قبر ہے،بڑے ابو (مولانا) کہتے ہیں آخرت میں ملاقات ہوگی اور ایک ساتھ رہیں گے۔
نظم کا پابند
مولانا اکثر کہا کرتے تھے ہم جماعت کے حوالے ہیں ،جماعت جیسے چاہے ہمیں کام پر لگادے۔کبھی انہوں نے کسی بھی ذمہ داری پر نہ خفگی کا اظہارکیا اور نہ بھی ذمہ داری سے بھاگنے کی کوشش کی۔اطاعت امر میں اپنے سرکل میں نمایاں تھے۔کسی بھی اجتماع میں وہ ایسی ذمہ داری قبول کرتے،جس سے لوگ بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔مثلا واچ اینڈ وارڈ،مہمانوں کی خدمت،پاکی و صفائی وغیرہ۔کلبرگی میں اجتماع ارکان2014 میں منعقد ہؤا تھا،مولانا کو میں نے رات میں پہرہ دیتے ہوۓ دیکھا،جماعت نے جو کام دیا اس کو حسن و خوبی کے ساتھ تکمیل تک پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
یتیموں اور کمزوروں کاولی
مولانا کی بڑی خوبی ایک یہ بھی تھی کہ یتیم بچیوں کے رشتے جوڑنے میں بہت دلچسپی رکھتے تھے ،یتیموں کی سرپرستی پر لوگوں کو آمادہ کرتے تھے۔چھوٹے بھائی نصرت محی الدین کا انتقال ہوگیا تو ان کے بچوں کی ذمہ داری قبول کی،اس ذمہداری کو ادا کرنے کی کوشش آخری دم تک کرتے رہے۔مولانا کئی اداروں کے سرپرست تھے،مولانا عتیق الرحمن عمری صاحب نے بتایا کہ ان کے ادارے کی سرپرست تھے اور ہر ماہ پابندی کے ساتھ ادارہ تشریف لاتے رہے،جناب مجاہد پاشاہ قریشی صاحب کی اسکول کی بھی سرپرستی کیا کرتے تھے۔ بعض نکاح تو ایسے بھی کراۓ،جس کا کوئی ولی نہ تھا تو مولانا ولی بنے اور جس کا وکیل نہ تھا تو کیل بنے۔کرونا 19کے موقع پر آندھراپردیش کے ایک گاؤں میں شادی کے لئے 40افراد کا قافلہ آیا،لاک ڈاؤن کی وجہ سے 35دنوں تک گاؤں میں رکنا پڑا،ان کے طعام و قیام کا نظم فرمایا۔
جماعت کا درویش
گلے میں لٹکانے والی کپڑے کی تھیلی،بغیر آئرن کے ایک جوڑا کپڑا،تیز تیز قدموں کے ساتھ رواں دواں شخصیت،بغیر ریزرویشن کے اکثر اسفار،پوچھنے پر کہتے زندگی کا کیا بھروسہ ،اللہ تعالیٰ سب کچھ انتظام کر دیتا ہے۔نہ ناشتہ کے پابند اور نہ ہی کھانے کی کوئی فکر۔جو ملا کھالیتے اور کہتے میں اس کا پابند نہیں ہوں وہ میرے پابند ہیں۔دو ماہ قبل میرے بھتیجے کا نکاح شاہآباد میں ہوا۔نکاح سے ایک دن قبل میں نے فون پر دعوت دی،وقت پر پہنچ گئے نکاح پڑھانے کی گزارش پر نکاح پڑھا دیا۔دوپہر کے طعام کے اصرار پر کہنے لگے میں نے کسی اور کو وقت دیا ہے،اب نکلتا ہوں وقت پر کلبرگی پہنچ جاؤں گا۔ مولانااصراف کو شکر کے منافی اورنعمت کو حقیر جاننے اور اس کی ناقدری کرنے کے مترادف سمجھتے تھے۔مولانا کا اصرار ہوتا تھاکہ اسٹیج پر نہ بلائیں اور کہتے تھے کہ کوئی میرے لائق کام ہو تو بتائیں۔
مثالی جوڑا
کہا جاتا ہے رشتے آسمان پر طۓ ہوتے ہیں،میاں بیوی کے درمیان جو مناسبت ،محبت اور مضبوط تعلق ہے وہ دنیاوی زندگی کی حاجات و ضروریات کی حدتک ہی نہیں ہے اور نہ ہی صرف رفیق حیات ہے،بلکہ وہ تو حیات ابدی میں رفیق حیات ہے۔مولانا نجم الدین حسین کا اپنے چچا کی بیٹی انیس فاطمہ سے نکاح ہوگیا،وہ ایک نیک خاتون ہیں۔تحریک اسلامی کی جدوجہد میں اپنے شوہر نامدار کا بھرپور تعاون کرتی رہیں۔ہم ان کو ایک ساتھ سفر کرتے ہوۓ اور لوگوں کے مسائل کو حل کرتے ہوۓ دیکھا ہے۔کبھی کسی کی غیبت،شکایات،تنزو تنقید کرتے ہوۓ نہ دیکھااور نہ سنا۔اللہ تعالیٰ اولاد کی آزمائش سے انہیں بچاۓ رکھا،ہمیشہ شاکراناجذبہ اور صبر کو تھامے رکھا،اتنا تو کہا جاسکتا ہے کہ ایک مثالی جوڑا تھا۔
انتقال پرمعلوم ہوا
مولانا نجم الدین حسین عمری صاحب حادثے میں زخمی ہوۓ 13دنوں تک شریک دواخانہ تھے۔20/اگست کو ٹھیک 2بجے آخری سانس لی اور پروردگار عالم کی سامنے پہنچ گئے۔اس موقع پرکسی نے کہا میری بیٹی کا رشتہ نہیں ہو رہا تھا مولانا کی کوشش سے رشتہ ہوا،اب تین بچے ہیں۔کسی نے کہا،میری مطلقہ بہن کا رشتہ مولانا نے کروایا۔ایک صاحب نے کہا میری بچی کی تعلیم کے لئے مولانا نے مکمل انتظام فرمادیا تھا۔ایک صاحب نے بتایا میں رکن جماعت ہوں،مگر میرے بچوں کو مولانا نے تحریک سے جوڑنے میں اہم رول ادا کیا۔ایک رفیق نے کہا میری والدہ بیمار تھیں،ان سے ملاقات کے لئے اپنی اہلیہ کے ساتھ گھر آتے اور گھنٹوں باتیں کرتے اس دن والدہ کی طبیعت بہت اچھی رہتی تھی۔ایک صاحب نے بتایا شدید بارش کی وجہ سے فصل ضائع ہوگئی تو مولانا گھر تشریف لاۓ،ہماری ہمت بندھائی اور ہمارے بچوں کے لئے ڈھیرسارے چاکلیٹ دۓ۔
تیری لحد پر شبنم برسے
نجم الدین حسین عمری صاحب کی قبر پر نہ پھول اور نہ پختہ قبر بنی،شہر کے پہلے عالم دین تھے،اب 25 سے زائد بچے مختلف مدارس سے فارغ علماء ملتی ہیں۔ شہر کے پہلے عالم دین ہیں جن کاانتقال ہوگیا۔اناللہ و انا الیہ رجعون۔ہزاروں لوگوں کی دعاؤں کی آوازیں آج بھی گونج رہی ہیں۔ان شااللہ جنت میں ملاقات ہوگی۔تیری لحد پہ شبنم برسے آمین

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!