اساتذہ اور طلبہ کے اہداف میں یکسانیت (ٹیچرس ڈے کے موقع سے خصوصی تحریر)

محمد عبد اللہ جاوید 9845547336

0
Post Ad

تعلیم و تربیت کے نظم کو بہتر اور چست بنانے کے لئے جن اہم ترجیحات پر ہمیشہ نظریں جمیں رہنی چاہئیں ان میں سے ایک اساتذہ اور طلبہ کے اہداف میں یکسانیت ہے۔گرچہ پڑھانا اور پڑھنا دونوں الگ عمل ہیں لیکن مقصد کے اعتبار سے دونوں میں علم کا حصول بنیادی طور پر مشترک رہتا ہے۔جب تک ایک استاد علم حاصل کرکے علم دینے والا نہ بنے اس وقت تک وہ موثر نہیں ہوسکتا ہے۔اور جب تک ایک طالب علم ‘ علم کے حصول کے کا مشتاق نہ ہو اس کو علم حاصل ہونہیں سکتا ۔اساتذہ اور طلبہ میں اہداف کی یکسانیت کی مثال اس ریل گاڑی کی سی ہے جس کا انجن اور ڈبے ایک ہی سمت اور ایک ہی منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ اگرریل گاڑی کا انجن الگ راستہ پر ہو اور اس کے ڈبے کسی اور راستے پر تو بلاشبہ منزل تک پہنچنا ممکن نہیں رہتا۔

اساتذہ اور طلبہ کے درمیان مقاصد اور اہداف کی یکسانیت ہونی چاہئے‘مگر کیسے کاسوال بڑا اہم ہے۔ اس کا جواب مقاصد تعلیم سمجھنے سے باآسانی معلوم ہوجاتا ہے۔ مقصد تعلیم  حاصل کرنے کے لئے اساتذہ اور طلبہ ایک ساتھ تعلیم وتعلم کے مرحلے میں شامل رہتے ہیں۔ اساتذہ کا فہم وشعور‘ طلبہ میں بیداریٔ شعور کا ذریعہ بنتا ہے۔اساتذہ کی محنت وجانفشانی‘ طلبہ میں کچھ کر گزرنے کی چاہ پیدا کرتی ہے۔اس لحاظ سے ایک طالب علم ‘ اپنے استاد کا پرتو ہوتا ہے۔ اگر استاد کے پیش نظر ‘ خدمت انسانیت تعلیم کا ایک مقصد ہے تو وہی جذبہ وہ طلبہ میں اس وقت بیدار کرسکتا ہے جب طلبہ بھی خدمت انسانیت کو اپنا مقصد بنائیں۔ اگر انسانوں کی خدمت کا جذبہ صرف اساتذہ میں ہے اور طلبہ اس مقصد سےبالکل عاری ہیں تو ظاہر بات ہے نتائج خلاف توقع ہوں گے۔ آج اگر تعلیمی اداروں سے فارغ طلبہ میں  انسانوں کی خدمت کا رجحان کم پایا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اس جذبہ کی آبیاری کے لئے اساتذہ میں بھی جذبہ کم رہا۔

اساتذہ کی عظمت اس لئے مانی  جاتی ہے کہ وہ ایسے طلبہ تیار کرتے ہیں جو اپنی تعلیمی کارکردگی اور انسانیت کی خدمت کے جذبہ سے بڑے نمایاں کارنامے انجام دینے والے ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے اساتذہ کا رول کسی بھی کلاس روم میں صرف اتنا ہی نہیں  رہتا کہ وہ کچھ اسباق پڑھا دے‘ املا کرادے یا کچھ چیزیں یاد کرادے۔بلکہ ان کی حقیقی ذمہ داری یہ ہے کہ طلبہ کی ذہن سازی کریں۔ان کے اندر اچھے برے کی تمیز پروان چڑھائیں۔ یوں  اساتذہ کا وجود کلاس روم میں بڑی اہمیت کا حامل رہتا ہے۔ ان کا ایک ایک پل طلبہ کی زندگی کو بنانے والا یا نہیں توان کے  جذبات کو کم کرنے والا ہوسکتا  ہے۔ اس لئے اساتذہ کو اپنا تجربہ سالوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں اور دنوں میں بیان کرنا چاہئے۔جیسے کسی پائلٹ کا تجربہ اڑان کے جملہ گھنٹوں (flying hours) سے معلوم کیاجاتاہے۔کیونکہ انہیں بڑےچاق وچوبند رہتے ہوئے اڑان بھرنے سے لے کر ‘ دوبارہ لینڈ کرنے تک‘ بڑے بھاری بھرکم جہاز کی  سلامتی یقینی بنا نی پڑتی ہے۔ ان کی ایک پل کی بے احتیاطی سے زبردست نقصان ہی نہیں بلکہ جانوں پر بن آتی ہے۔یہی معاملہ ایک استاد کا کلاس روم میں ہوتا ہے۔ان کا ہر پل کسی نہ کسی طرح اثر انداز ہوسکتا ہے۔

اساتذہ کا کلاس روم میں گزرنے والا وقت اثر انداز ہو ۔ اثر ذات پر بھی ہو اور طلبہ پر بھی۔ذات پر اثر یہ کہ اساتذہ اپنے علم اور انداز تعلیم کے لحاظ سے نمایاں فرق محسوس کریں۔اور طلبہ پر اثر کے معنی یہ کہ ان کے اندر سیکھنے اور سمجھنے کا جذبہ بڑھتا رہے‘ اور آگے بڑھنے کے لئے ان کے درمیا ن صحت مند مسابقت ہو۔ اثرات کے اسی دہرے معیارکو تعلیم کہتے ہیں۔ تعلیم سے مراد نہ صرف کوئی سبق سمجھادینا  ہے‘ بلکہ اس سے متعلق اثرات مرتب کرنے کی شعوری کوشش کرنا ہے۔

اگر اس پہلو سے کوشش ہو تو اساتذہ کی توجہ ہمیشہ اثرات مرتب کرنے پر رہے گی نہ کہ نصاب کی تکمیل یا طلبہ کو امتحانات کے لئے تیار کرنے پر۔ اگر کہیں یہ دیکھا جائے کہ اساتذہ کی ساری تگ و دو صرف نصاب کی تکمیل اور طلبہ کو امتحانات کی تیاری کے لئے تو سمجھ لیں کہ وہاں تعلیمی اثرات مرتب کرنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں ہے۔

جب  اثرات مرتب کرنے کی با ت ہو تو اساتذہ اور طلبہ کےدرمیان ایک مشترک چیز رہے گی ‘ جو ان کے تعلیم و تعلم کے مراحل کو بامعنی بنانے اور ان کو ہر لحاظ سے  نتیجہ خیز بنانے کے لئے ممدومعاون رہے گی۔اور وہ ہے دونوں کے درمیا ن مشترکہ اہداف ۔ یہ اشتراک تصور علم سے مطابقت رکھتا ہے۔اساتذہ کا مقصد یہ ہو کہ وہ علم حاصل کرکے اس کی اشاعت کریں گےاور طلبہ کا یہ مقصد ہو کہ وہ علم حاصل کرنے کے لئے سنجیدگی اور وقار کا مظاہرہ کریں گے۔ جب اساتذہ کا مقصد علم کے ذریعہ معرفت رب اور خدمنت انسانیت ہو تو ظاہر بات ہے اس کےمطابق وہ طلبہ میں یہ دیکھیں گے کہ انہیں علم حاصل کرنے کےساتھ ساتھ کس قدر رب کی معرفت حاصل ہورہی اور وہ کس قدر انسانوں کی خدمت کا جذبہ ان کے  اندر پروان چڑھا ہے۔اگر اساتذہ اس میں کامیاب ہوں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ طلبہ نمازوں کی پابندی بھی کریں گے اور رب کے کلام کی تلاوت بھی کریں گے۔وہ انسانوں کی خدمت کواپنافریضہ سمجھیں گے حتی کہ وہ جس آٹورکشا یا بس میں سوار ہوکرآتے ہیں اس کے ڈرائیور اور ہم سفر ساتھیوں سے حسن سلوک ان کی پہچان بن جاتی  ہے۔وہ جس دکان سے سودا سلف لاتے ہیں  اس کے مالک کے ساتھ سچائی اور دیانت کا تعلق رکھتےہیں۔ اگر تعلیم کے ذریعہ اساتذہ اور طلبہ میں مشترک مقصد‘ معرفت رب اور خدمت انسانیت نکال دیں تو توجہ صرف اس بات پر مرکوز رہے گی کہ نصاب کتنا مکمل ہوا اور طلبہ کی امتحانات میں کارکردگی کیسی ہے وغیرہ۔

اساتذہ اور طلبہ میں مطلوب  قابلیتوں اور صلاحیتوں کا تعلق نہ صرف راست تعلیم و تربیت سے ہے  بلکہ ان کا تعلق اس  انطباقی عمل سے جو علم حاصل کرنے کے بعد از خود پیدا ہوتا ہے۔جیسے پھول کی خوشبو ‘ہاتھ کو پھول تک پہنچاہی دیتی ہے ویسے ہی علم اگر فہم وشعور کے ساتھ حاصل کیا جائےتو وہ لازماً عمل کے مختلف دروازے کھول دیتا ہے۔ اگر اساتذہ کے تناظر میں سوچیں تو وہ علم کے حصول کے میدان میں شہسوار بنے رہیں گے اور مستقل مزاجی کے ساتھ علم حاصل کرنا ان کی پہچان بنےگی اور اسی مناسبت سے وہ علم کی ترویج و اشاعت پر متوجہ رہیں گے۔جبکہ طلبہ میں علم کے انطباقی پہلو کا معاملہ یہ ہوگا کہ ان کے اندر کی خوابیدہ صلاحیتں نشوونما پائیں گی ۔وہ وقار‘ سنجیدگی‘ تواضع و انکساری اور الفت و محبت کے پیکر بنیں گے۔

لیکن آج کے دور میں تعلیم کا مقصد کچھ اور ہی ہوگیا ہے۔ نہ مقصد اور اہداف نگاہ میں ہیں اور نہ ہی حاصل شدہ علم پر عمل کا کوئی میدان نظر آتا ہے۔ظاہر بات ہے اگر  حصول  علم کا مقصد روزگار بن جائے تو تعلیمی ادارے فیاکڑیاں بن  جائیں  گی۔اور علم حاصل کرنا ایک تجارتی معاملہ بن جائے گا۔ اس کا حل صرف یہ ہے کہ تعلیم کے صحیح مقصد کے تعین کے ساتھ مثالی تعلیمی ادارے  بنانے پرتوجہ رہے۔مقصد تعلیم کے تعین اور اساتذہ و طلبہ کے مقاصد  واہداف میں یکسانیت ہی سے تعلیمی ادارے وہ مبارک میدان بنیں گے جن کا تقدس  واحترام لوگوں کی نگا ہ میں  عبادت گاہ  جیسا رہے گا ۔

علم روشنی ہے۔اس کے حصول سے طلبہ  کی زندگیاں روشن ہوجاتی ہیں۔وہ روشن زندگیاں ‘بھلائیوں کےفروغ اور برائیوں کے ازالہ کے لئے مختص رہتی ہیں۔وہ طلبہ جو علم کو پورے شعور کے ساتھ حاصل کرتے ہیں ان کی پہچان ہی نیکیوں کا فروغ اور برائیوں کا ازالہ بن جاتی ہے۔ اسی عمل سے ان کے اندر کی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں ۔وہ بڑے ہی حلم و بردبار‘ صابر وشاکر اور اپنے رب سے قریب تر نظر آتے ہیں۔ اگر زندگی سے نیکیوں کو پھیلانے اور برائیوں سے روکنے کا مقصد محو ہوجائے تو پھر ان  اخلاقی اقدار کا ظہور ممکن نہیں ہوسکے گا۔ہیرے کی چمک اور اس کی خوبصورت کے مظاہرے کے لئے روشنی کی ضرورت ہوتی ہے‘جب روشنی ہی نہ ہو تو ہیرے کا وجود بھی بے معنی ہوجاتا ہے۔

یوں علم کے حصول اور اس کی اشاعت کے معاملہ میں اساتذہ اور طلبہ ‘اپنے مقاصد اور اہداف کے معاملہ میں یکساں رہتے ہیں۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ  ایک حد کے بعد ا ن دونوں کے اہداف میں فرق نمایاں ہوجاتا ہے۔ جب طلبہ فارغ ہوتے ہیں تو وہ دوسرے میدانوں میں برسرکار رہتے ہوئے حاصل شدہ علم کےانطباق کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔قابل مبارکباد ہیں ایسے اساتذہ جو طلبہ کو نہ صرف اسکول کی چہاردیواری کی حد تک بلکہ زندگی بھر کے لئے علم حاصل کرنے کا طالب بنادیتے ہیں۔وہ خود بھی علم کےحصول واشاعت کے لئے مصروف رہتے ہیں اور ان کے  طلبہ بھی مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں۔

Muhammad Abdullah Javeed

[email protected]

# 3-12-68, Beroon Quila, Raichur

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!