سفر مراکش کی روداد ،فاطمہ الفِہری اسلام کی ایک تاریخ ساز شخصیت

ڈاکٹر قاضی سراج اظہر اسوسیٹ کلینکل پروفیسر مشیگن اسٹیٹ یونیورسٹی۔ امریکہ

0
Post Ad

حال ہی میں میرا سفر مراکش میں جاری تھا۔ اسلامی تاریخ کے سُنہرے دور سے گُذر رہا تھا۔ عرب میں عباسیوں کی بغاوت جب ناکام ہوگئی تو ادریس اول جو اس معرکہ میں شامل تھے جو حضرت حسن رضی اللہ عنہُ کے پڑپوتے یعنی عبداللہ الکامل کے صاحبزادے تھے، مراکش کی طرف ہجرت کر گئے۔ ادریس اکبر یا ادریس اول کے بیٹے ادریس دوم اپنے والد کے انتقال کے دو ماہ بعد پیدا ہوئے۔ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو دیکھ کر انہیں مراکش کا حکمران بنادیا گیا۔ انہوں نے ہی شہرِ فاس کی بنیاد رکھّی اور اللہ کے حضور ایک پُر اثر دعا مانگی جس کا اردو ترجمہ درجہ ذیل ہے۔

“اے اللہ بیشک تو جانتا ہے میں ارادہ کررہا ہوں اس شہر کو بنانے اور بسانے کا مجھے اس میں کوئی خودستائی اور نہ کوئی غرور ہے یا کوئی ریاکاری کا شوق ہے اور نہ کوئی شہرت اور نہ ہی کوئے بڑائی، بلکہ خالص ارادہ ہے کہ اس میں لوگ تیری ہی عبادت کریں اور تیری کتاب کی تلاوت کریں۔ تیرا قانون نافذ کریں،تیرے احکامات اور تیرے پیغمبر کی تعلیمات کو قائم کریں، جب تک یہ دنیا باقی رہے۔ اے اللہ! یہاں کے شہری اور بسنے والوں کو خیر کی ھدایت دے کہ وہ اس پر قائم رہیں اور تُو ان کی مدد فرما،دشمنوں سے اُن کی حفاظت فرما، ان کی تعداد کو بڑھا اور وافر رزق عطا کراور ان کو فتنے کی تلوار اور شقاق سے محفوظ رکھ، بے شک تو ہی ہر چیز پر قادر ہے”۔

شاید اسی دعا کا اثر تھا کہ یہاں سے دینی و عصری علوم کے دریا بہنے لگے۔ یورپی ممالک سے لوگ یہاں آ آ کرعلم کی پیاس بجھاتے۔ عربی زبان دینی و سائنسی علوم کی زبان ہوگئ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ادریس الازھر دوم کی دعا کو قبول فرمایا۔ اس شہر سے علم کے ایسے چشمے پھوٹے کہ ساری دُنیا صدیوں تک علمِ دین و دُنیا سے سیراب ہوتی رہی۔ عربی زبان جو قرآن کی زبان تھی دیکھتے ہی دیکھتے سارے عالم کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علومِ نافع سے منور کرنے لگی۔

شہرِ فاس کی طرف رواں دواں ہماری کار جب اس شہر میں داخل ہوئی تو وہ دن یاد آئے جب دُنیا کی پہلی یونیورسٹی کا انعقاد اس شہر میں ہوا تھا جسکو ایک باحجاب صاحبِ ثروت خاتون، فاطمہ الفِہری نے تعمیر کروایا تھا۔ اِن کا پورا نام فاطمہ بنت محمد الفِہری القریشی تھا اور عرفیت ام البنین تھی۔ یہ تیونس کے شہر قیروان میں، 800 عیسوی میں پیدا ہوئیں۔ اِن کے والد محمد عبداللہ الفِہری ایک نیک دل تاجر تھے جو بعد میں تیونس سے مراکش کے شہر فاس (Fez) منتقل ہوگئے۔ اِن کی صرف دو صاحبزادیاں تھیں پہلی لڑکی کا نام مریم الفِہری اور دوسری بیٹی فاطمہ الفِہری تھی۔ والد کی وفات کے بعد دونوں بیٹیوں کے ترکے میں باپ کی اتنی دولت آئی کہ وہ خودمختار ہوگئیں۔ باپ کا جتنا بڑا دل تھا اُس سے بھی زیادہ درمند دل اِن دو لڑکیوں کا تھا۔ مریم اور فاطمہ کافی دیندار اور نہایت پرہیزگار خواتین تھیں۔ اِنہیں اُمتِ مسلمہ کی بے حد فکر تھی۔ بڑی بہن مریم نے الاندلسیہ مسجد کی بنیاد رکھی۔ دوسری بہن فاطمہ اُمتِ مسلمہ کی دینی و عصری تعلیم کیلئے کافی فکر مند رہا کرتی تھیں۔ آخر کار انہوں نے 859 عیسوی میں دریائے فیس یا فاس (Fez) کے کنارے جامعة القرویین کی بِنا رکھی۔ اس جامعہ کی تعمیر میں بذاتِ خود بھی شریک رہیں۔ تعمیر کے اختتام تک مسلسل روزے رکھا کرتی تھیں۔ جس نیک نیتی سے فاطمہ نے اس کام کو شروع کیا تھا اللہ تعالیٰ کا فضلِ عظیم ہوا۔ بہت جلد دُور دُور ممالک سے طالبِ علم اس یونیورسٹی کا رُخ کرتے رہے۔ جامعہ القرویین کے علاقے میں مدارس بھی تھے جہاں طلبہ کیلئے بوُد و باش کا انتظام ہوتا۔ مدرسہ العطارین، مدرسہ الصفارین، اور مدرسہ المصباحیہ ان کی چند مثالیں ہیں۔ اقامتی کمرے کافی روشن اور ہوادار ہوتے۔ مدرسے’ عمارت کے بالائی حصے میں ہوا کرتے۔

جیسا کہ کہا جاتا ہے ایک مرد کی تعلیم صرف ایک فرد کی تعلیم ہوتی ہے، لیکن ایک عورت کی تعلیم سارے قوم کی تعلیم ہوتی ہے۔ یہی کچھ فاطمہ الفِہری نے کردکھایا۔ اِنہوں نے تعلیم النساء پر بھی کافی توجہ دی۔ اس یونیورسٹی میں تعلیم پانے والوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ جن میں معروف عالمِ دین امام غزالی کے شاگرد ابن العربی، ابو عمران الفاسی فقۂ مالکی کے عالم، ابن خلدون مشہور مورخ، نورالدین برطوجی ماہرِ فلکیات، ابن رشد ماہرِعلمِ فلکیات و ریاضی داں، اور یہ ماہرِ فنِ طب بھی تھے۔ نامور یہودی فلاسفر اور طبیب موسٰی بن میمون (Maimonides) اور عیسائی عالم Pope Sylvester نے بھی جامعۃ القرویین سے ہی اپنی ڈگریاں حاصل کی تھیں۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی دیگر عالمِ دین، سائنسداں، ماہرِقانون، ماہرِ فلکیات اور ماہرِعمرانیات نے بھی یہاں سے تعلیم حاصل کی۔ علمِ جستجو،تحقیق، اور تخلیق کے دروازے کھولنے والے کئی مسلم اور غیر مسلم ماہرین بھی اسی جامعہ سے فارغ التحصیل ہوئے۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی کا طبیبِ خاص موسی بن میمون (Maimonides) اسی جامعہ سے فارغ التحصیل یہودی تھا۔ اس کا پورا عربی نام أبو عمران موسى بن ميمون بن عبد الله القرطبي اليہودی تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب یہودی اور عیسائی عربی کو ترقی یافتہ زبان سمجھتے تھے اور عربوں کی طرح اپنا نام رکھنا، عربی زبان میں تعلیم حاصل کرنا، عربوں کا لباس زیبِ تن کرنا باعثِ فخر سمجھا جاتا تھا۔ مشہور اسلامی تاریخ کے عظیم سپہ سالار طارق بن زیاد نے جب اندلس (ہسپانیہ یا اسپین) فتح کیا( AD 711) تو یہودیوں کیلئے ایک سنہری دور کا آغاز ہوا جسکو وہ خود “یہودیوں کی تاریخ کا سنہری دور” (Golden period of Jewish history) قرار دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی تمام عصری علوم جامعتہ القرویین سے منتقل ہوکر اسپین پہنچتے رہے اور وہاں سے یورپی ممالک میں اُن کی رسائی ہوتی رہی۔ آج جو بھی سائنسی علوم یورپ میں ہیں اسی یونیورسٹی کی دین ہیں۔ کئی عربی زبان میں موجود سائنسی علوم کے تراجم لاطینی زبان میں منتقل ہوتے رہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یورپ جہالت کے اندھیروں سے نکل کر عصری تعلیم سے آراستہ ہوگیا۔ اٹلی کی بولونیا یونیورسٹی (Bologna University) جو یورپ کی پہلی یونیورسٹی کا درجہ رکھتی ہے 1088 عیسوی میں قائم ہوئی۔ یعنی 429 سال قبل فاطمہ الفِہری، ایک مسلم خاتون نے دُنیا کو پہلی یونیورسٹی کا تصور پیش کیا تھا۔

فاطمہ الفِہری کوئ معمولی خاتون نہ تھیں، بلکہ اپنے وقت کی نہایت ہی تعلیم یافتہ، بے حدحسین اور کافی مالدار مانی جاتی تھیں۔ اِن کے والد کو کوئی اولادِ نرینہ نہیں تھی۔ والد کی نگہداشت میں دونوں بہنوں نے قرآن کو صحیح مفہوم میں سمجھا، اللہ کی الوہیت کو پہچانا، مقصدِ حیات کو جانا۔ قرآن کی ہر آیت کو اہلِ ایمان کے دل ودماغ میں اُتارنے کے لئے عملی اقدامات کا تہیہ کرلیا۔ وہ چاہتی تھیں عورتیں مردوں سے حصولِ علم میں کبھی پیچھے نہ رہیں۔ اُنکی بنائی اس یونیورسٹی کی بدولت عوام میں دینی و دُنیاوی علوم میں صحیح امتزاج پیدا ہوا۔ یہی وجہ تھی عربی زبان تعلیم یافتہ افراد اور سائنس کی زبان بن گئی۔ اس جامعہ میں غیر مسلم بھی آکر دینِ اسلام کے ساتھ ساتھ دیگر سائنسی علوم سیکھتے رہے۔ آج بھی یہ یونیورسٹی عملی طور پرتعلیمی میدان میں فعال ہے۔ فاطمہ الفِرہی نے ازدواجی زندگی سے اجتناب کیا اور دامے، دِرمے، قدمے اور سُخنے آخر دم تک تعلیمی خدمات انجام دیتی رہیں۔ آخر کار سن 880 عیسوی میں وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مسلم خواتین کا علم سے ناطہ صدیوں پُرانا ہے۔ موجودہ دور میں غیر مسلم طبقہ مسلمان خواتین کو پسماندہ، ظلم رسیدہ، اور ناخواندہ قرار دیتا ہے۔ اس کے برخلاف اسلامی تاریخ تعلیم یافتہ خواتین سے بھری پڑی ہے۔ محسنۂ اسلام، خیرالنساء حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کی علم و حکمت سے بھرپور فہم و فراست سے معمورشخصیت سے لے کر آج بھی ایسی کئی مومنات ہیں جو دینی و عصری تعلیم سے لبریز خدمتِ خلق میں لگی ہیں۔

ہمارے لئے یہ بات لمحۂ فکر ہے کہ آج ہم کیا ہیں اور کل کیا تھے۔ جامعہ القرویین نے کیسے کیسے جید عالمِ دین اور سائنسداں پیدا کئے اور آج ہمیں کیا ہوگیا ہے! علامہ اقبال فرماتے ہیں۔

‎کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کِیا تُو نے
‎وہ کیا گردُوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹُوٹا ہوا تارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

ہم مغرب پرست اور مغرب کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ کبھی سوچا ہے کس طرح ہم سے یورپ نے اپنی خودی چھین لی۔ اسلام میں رہبانیت اور ترکِ دُنیا کے تصور کو عام کیا گیا۔ حالانکہ اسلام میں اس کی سخت ممانعت رہی ہے۔

ارشاد ربّانی ہے :
’’اور رہبانیت (عبادتِ الٰہی کے لئے ترکِ دُنیا کرنا) انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی، اسے ہم نے اُن پر واجب نہیں کیا تھا، مگر محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے۔‘‘
(الحديد، 57 : 27)

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں ہے۔‘‘

ایک تو ہم میں ترکِ دُنیا کے فلسفے کو عام کیا گیا اور دوسری طرف ہماری فطرت کو غلامانہ ذہنیت میں تبدیل کیا گیا۔ ہم سے ہماری خودی و خودداری چھین لی گئی۔ ہم میں وہ اندازِ غلامانہ پیدا کئے گئے کہ شعراء و اُدباء، علماء و حکماء غلامی و محکومی کا درس دینے لگے، آج یہ فرنگیت کے اندازِ غلامانہ ہم میں صاف نظر آرہے ہیں، جس کو علامہ اقبال نے محسوس کیا تھا۔

شاعر بھی ہیں پیدا، عُلما بھی، حُکما بھی
خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ
مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک
ہر ایک ہے گو شرحِ معانی میں یگانہ
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ

کہاں ہے وہ دورِ جدید سائنس جس کی ابتداء ہمارے اسلاف نے کی تھی۔ آج اس غلامانہ ذہنیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے شاعر، علما و حکماء اپنے مسائل کی تشریح کچھ اس طرح سے کرتے ہیں کہ قوم کے اندر غلامی کے انداز اور پختہ ہو جائیں۔ اس بے رُخی اور بے رغبتی نے ہماری اسلامی تاریخ کو اُلٹ کر رکھ دیا ہے۔ یورپی فاتحین نے مسلم ممالک کو مغلوب کرکے اپنی زبانیں انگریزی اور فرنچ کو مسلط کردیا۔ ہماری تہذیب، تمدن، اور دین کو ملیا میٹ کر دیا۔ گو کہ چند جاں نثار مجاہدین نے ممالک تو آزاد کرا لئے لیکن اندازِ غلامانہ وہی باقی رہ گیا۔ اب تو یہ حال ہے کہ دینی مدارس جو فرنگی زبان اور فرنگی تہذیب کو کفر کہا کرتے تھے اُن کے تعلیمی اداروں سے بغلگیر ہوگئے ہیں۔ اسلامی مدارس میں ذریعۂ تعلیم فرنگی زبان ( انگریزی اور فرنچ) کردی گئی ہے۔ آج ہمارا یہ عالم ہے کہ ہم اللہ و رسول صلی اللہ علیہ سلم کی بابرکت زبان سے رشتہ توڑ چُکے ہیں۔ نہ جانے اِس الہامی زبان سے ہماری اس قدر دوری کیوں ہے؟ جو زبانیں عربی زبان سے منسلک تھیں اور جن کا رسم الخط عربی رہا جیسے فارسی، ترکی اور اردو وغیرہ آخر کیوں ہماری آنے والی نسلیں اِن سے دور ہوتی جارہی ہیں؟ ہماری زبان اردو کو ہی لے لیں، کتنے لوگ ایسے ہیں جو اس زبان میں لکھنا پڑھنا جانتے ہیں۔ سوشیل میڈیا میں رومن اُردو نے ہمارے اسلامی تشخص کو اور بھی پامال کردیا ہے۔ اب آپ ہی سوچئیے اِس نسل کا کیا ہوگا؟ سوچتا ہوں تو آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔

متاعِ دین و دانش لُٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خُوں‌ ریز ہے ساقی

چلئے آتے ہیں لوٹ کر پھر مراکش، اس میں کوئی شک نہیں مراکش یوروپی ممالک سے بہت ہی صاف ستھرا ملک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قدرتی حسن سے اس کو خوب سنوارا ہے۔ لیکن بار بار میرے ذہن میں بس ایک ہی سوال آتا ہے۔ یہ آج پہلے کی طرح علم کا گہوارہ کیوں نہیں ہے؟ کیا یہ ایک اور فاطمہ الفِہری کا منتظر ہے؟ حالتِ زار کچھ اس طرح ہے، حال حال تک یہ ملک فرانسیسی نوآبادیاتی علاقہ رہا ہے۔ اس کا اثر آج بھی صاف طور پر نظر آتا ہے۔ جس طرح انڈیا میں انگریزی میڈیم اسکولوں کا چلن زور پکڑ رہا ہے اُسی طرح مراکش میں والدین اپنے بچوں کو فرنچ میڈیم مدارس میں داخلہ دلواکر خوش ہوتے ہیں۔ اب بتائیے انگریزی میڈیم بہتر ہے یا فرنچ میڈیم؟ کیا ان دونوں میڈیم کے مدارس سے تعلیم پاکر ہماری نسلیں اپنے دین پر قائم رہ سکتی ہیں؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر یہ تماشہ کس لئے؟ اس سے کیا حاصل؟ چلئے ایک لحاظ سے مراکش پھر بھی ہم سے بہتر ہے۔ عربی زبان کو موجودہ شاہی حکومت نے اہمیت دے رکھی ہے۔ رہنمائی کیلئے شاہراہوں اور دُکانوں کی تختیاں پہلی سطر میں عربی اور دوسری سطر میں فرنچ میں بنائی جاتی ہیں۔ اکثر جگہ تو صرف عربی زبان کو ہی استعمال کیا گیا ہے۔ جیسے راستوں پر رُکنے (Stop) کی تختی “قف” ہوگی یعنی ٹھیرو۔ اردو والوں کا فائدہ یہ ہے۔ اس سے اردو میں ایک لفظ “وقفہ” ہے یعنی ٹھہراؤ اسی عربی لفظ سے بنا ہے۔ جو اردو پڑھنا لکھنا جانتے ہیں وہ عربی پڑھنا لکھنا بھی جانتے ہیں اور تھوڑی محنت کی جائے تو عربی زبان بہ آسانی سیکھ سکتے ہیں۔ بات فاطمہ الفِہری سے شروع ہوئی تھی اور کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی۔ مراکش سے میں ایک درد بھرا دل اورمفکر ذہن لے کر واپس لوٹا۔ سوچتا ہوں کیا ہماری موجودہ محکومی و مغلوبی کے حالات بدل سکتے ہیں؟ اگر بدل سکتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ اللہ کا وعدہ ہے وہ یومِ آخرت ہم سب کو جمع کرنے والا ہے اور ہم سے پوچھ گچھ ہونے والی ہے۔ بے شک اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ کیا ہم اس کے لئے تیار ہیں۔

اے ہمارے رب! یقیناً تو جمع کرنے والا ہے ایک دن جس (کے آنے) میں کوئی شک نہیں ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ اس آیت کے حوالے سے علامہ اقبال فرماتے ہیں۔

‎اے مسلماں! ہر گھڑی پیشِ نظر
‎آیۂ ‘لاَ یُخلِفُ الْمِیْعَاد‘ رکھ
‎ ’لِسان العصر‘ کا پیغام ہے
‎“اِنَّ وعْد اللہِ حقٌ یاد رکھ”

وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
اور نہیں ہے ہم پر کوئی اور ذمہ داری سوائے (اللہ کا پیغام) صاف صاف پہنچا دینے کے.

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!