شرم تم کو مگر نہیں آتی:کیا مرکزی حکومت ‘فریب’سے بنی ہے۔؟

طاہر حُسین،صدر ویلفیر پارٹی کرناٹک

0
Post Ad

مرکز میں تیسری مرتبہ مودی حکومت بر سرِ اقتدار آئی ہے۔اس بار مودی حکومت کہنا دُرست نہیں ہوگا،بلکہ خد بی جے پی یا وزیرِ عظم نریندر مودی اس کو مودی سرکار نہیں کہے رہے ہیں بلکہ این ڈی اے کی حکومت کہا جا رہا ہے،حالانکہ اس سے پہلے کے دو میقات بھی این ڈی اے کی ہی حکومت تھی لیکن اقدار کے نشے میں اس کو بھلا کر مودی حکومت کہا جا تا تھا۔۔لیکن اس بار چاہتے ہوئے بھی ایسا نہیں کہے سکتے کیوں کے عوام نے اقدار کے اس غرور کو تھوڑ دیا ہے،اب یہ حکومت دو بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔اس بات کو تقریباً سب نے اس بات کو محسوس کیا کہ جس طرح اس سے پہلے دو میقاتوں میں انتخابات کے نتائج آنے پر جشن منایا گیا،جس طرح خوشیاں منا ئی گئی وہ اس بار دیکھنے کو نہیں ملی۔۔جیت حاصل ہونے کے باوجود بی جے پی کے لیڈروں میں وہ مسرت نہیں دیکھی گئی،نہ ہی وہ جوش نظر آیا،بلکہ جیت کے باوجود بھی ماتم کا سا ماحول نظر آیا۔۔آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا دال میں کچھ کالا ہے یا پھر پوری دال ہی کالی ہے؟جی ہاں اس سوال کا جواب مل گیا ہے،18وین لوک سبھا کے لئے انتخابات کے سات مرحلے کی ووٹنگ کا اعلان کرنے سے لے کرانتخابات کے نتائج کا اعلان کرنے تک الکشن کمیشن آف انڈیا پر اپوزیشن پارٹیوں اور خد سیول سوسائٹی کی جانب سے انتخابات کے دوران بی جے پی کے لیڈروں اور خد نریدر مودی کی جانب سے نفرت انگیز تقریروں پر لگام نہ کسنے،پریس کانفرنسوں کے ذریعہ کمیشن کے اقدامات کی جانکاری نہ دینے، EVMمیں گڑبڑیوں کی شکایات پر کوئی کاروائی نہ کرنا اس طرح کے کئی الزامات لگتے رہے،لیکن کمیشن نے ان سب باتوں کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔لیکن ابھی انتخابات کے نتائج آجانے کے ایک ماہ بعد مہاراشٹرا کی ایک تنظیم ‘ووٹ فار دیماکرسی’ (Vote for Democracy) نے ایک Fact Findingرپورٹ منظر عام پر لائی ہے جس سے یہ سوال کھڑا ہوگیا ہے کہ کیا یہ حکومت ‘فریب’سے بنی ہے؟ اور یہ کوئی معمولی رپورٹ نہیں ہے بلکہ اس رپورٹ نے الیکشن کمیشن کی بھی نیند اُڑا دی ہے۔اس تنظیم کی رپورٹ نے کئی چونکا دینے والے انکشافات کئے ہیں،ایک بڑا خلاصہ جو اس رپورٹ میں ہے وہ ووٹ ڈالے جانے والے آنکڑوں کو لے کر ہے،الیکشن کمیشن نے انتخابات کے دن اختتام کے وقت رات 8بجے جو آنکڑے پیش کئے ہیں اور اصل میں جو ووٹنگ ہوئی ہے ان کے درمیان تقریباً 5کروڑ (4,65,46,885)ووٹوں کا فرق ہے۔ یہ اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ ووٹوں کی گنتی میں بہت بڑا گھٹالہ ہوا ہے۔جبکہ پچھلے انتخابات میں الکشن کمیشن کی جانب سے جو آنکڑے انتخاب کے دن شام میں پیش کئے گئے اور جو اصل ووٹنگ ہوئی ہے اس کے درمیان کا فرق صرف1%کا رہا ہے۔اس بار 18وین لوک سبھا میں ساتوں مرحلوں میں یہ فرق 3.2%سے6.32% رہاہے۔حیران کن طور پر یہ فرق دو ریاستوں،آندھرا پردیش میں 12.54%اُڈیسا میں 12.48% رہا ہے۔رپورٹ میں دوسری اہم بات یہ کہی گئی ہے کہ 15ریاستوں کے79سیٹوں پر جہاں بی جے پی نے بہت کم مارجن پر جیت حاصل کی ہے،ووٹوں کے اس فرق سے بی جے پی کواُڈیسا میں 18سیٹوں کا ا ضافہ ہوا،مہاراشٹرا میں 11،مغربی بنگال میں 10،آندھرا پردیش میں 7کرناٹک میں 6چھتیس گڑ میں 5،راجستھان میں 5بہار میں 3ہریانہ میں 3،مدھیہ پردیش میں 3،تیلنگانہ میں 3،آسام میں 2، اروناچل پردیش،گجرات اور کیرالہ میں ایک ایک سیٹ کا فائدہ ہوا ہے۔الگ الگ ریاستوں میں ووٹوں کے اس فرق سے نتائج پر بڑا اثر پڑا ہے۔اُڈیسا میں 12.48%کا فرق ہوا ہے،اصل ووٹ جو ڈالے گئے اُن کی تعداد 2.086کروڑ ہے جب کہ 21پارلیمانی حلقوں سے کُل ملا کر 42.01لاکھ اضافی ووٹ بتائے گئے ہیں یعنی ہر پارلیمانی سیٹ پرڈالے گئے اصل ووٹوں سے دو لاکھ اضافی ووٹ بتائے گئے ہیں،جس کی وجہ سے یہاں 18سیٹوں پر بی جے پی ہار جاتی اگر اصل ووٹ گنے جاتے،یعنی دوسرے معنوں میں ان اضافی ووٹ کی وجہ سے بی جے پی کو18سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے۔اسی طرح مہاراشٹرا میں یہ فرق8.89%کا ہے،اصل ووٹنگ جو ہوئی ہے اُن کی تعداد49.19کروڈ ہے جب کہ 48پارلیمانی حلقوں سے کُل82.63لاکھ ووٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے یعنی ہر پارلیمانی حلقہ پر 1.72لاکھ ووٹ کا اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں یہاں بی جے پی کو 11سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے۔مغربی بنگال میں 4.83%کا اضافہ کیا گیا ہے اصل جو ووٹنگ ہوئی ہے اُس کی تعداد 5,65,06,838ہے جبکہ یہاں 36,71,283ووٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے یعنی ہر پارلیمانی حلقہ میں 87,412ووٹوں کا اضافہ بتایا گیا ہے جس کے نتیجے میں یہاں بی جے پی کو 10 سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے۔ریاست کرناٹک میں تقریباً تمام سروے اداروں کو توقع تھی کے 15تا17سیٹں کانگریس کو ملیں گی مگر جب نتائج آئے تو سب حیران رہے گئے،اس کا خلاصہ بھی اس رپورٹ میں ہوا ہے۔کرناٹک میں 4.08%کا اضافہ کیا گیا ہے،اصل ووٹ جو ڈالے گئے ان کی تعداد3.68کروڑ ہے، جب کے 28پارلیمانی حلقوں کو ملا کر کُل22.33لاکھ ووٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے،یعنی ہر ایک پارلیمانی حلقہ پر 79743 ووٹوں کا اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں اگر اصل ووٹوں کی گنتی کی جاتی تو کانگریس کو 6سیٹوں کا اضافہ ہوتا،مگر ان اضافی ووٹوں کی وجہ سے بی جے پی کو 6سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے۔اسی طرح چھتیس گڑھ میں 4.93% ووٹوں اضافہ کیا گیا ہے،اصل ووٹنگ کی تعداد 1.41کروڑ ہے،جبکہ کُل 11پارلیمانی حلقوں سے9.54لاکھ ووٹوں کا اضافہ بتایا گیا ہے یعنی ہر پارلیمانی حلقہ پر 86752ووٹ کا اضافہ،جس کے نتیجے میں یہاں بی جے پی کو5سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے۔راجستھان میں 5.60%کا اضافہ بتایا گیا ہے،اصل ووٹ جو ڈالے گئے ان کی تعداد 2.99کروڑ ہے جبکہ25پارلیمانی حلقوں کو ملا کر 29.30لاکھ ووٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے،یعنی ہر پارلیمانی حلقہ پر1,71,181ووٹوں کا اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں یہاں بی جے پی کو 5سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے۔بہار میں 3.30 %ووٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے،اصل ووٹ جو ڈالے گئے ان کی تعداد3.52کروڑ ہے جبکہ 40پارلیمانی حلقوں کو ملا کر 11.60لاکھ ووٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے یعنی ہر پارلیمانی حلقہ پر29ہزار ووٹوں کا اضافہ بتایا گیا ہے،جس کے نتیجے میں یہاں بی جے پی کو5سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے۔ہریانہ میں 6.43 %ووٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے،اصل ووٹ جو ڈالے گئے ان کی تعداد۱1.172کروڑ ہے جبکہ 10پارلیمانی حلقوں کو ملا کر 12.91لاکھ ووٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے یعنی ہر پارلیمانی حلقہ پر1.29لاکھ ووٹوں کا اضافہ،جس کے نتیجے میں یہاں بی جے پی کو3سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے۔مدھہ پردیش میں 3.5%ووٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے،اصل ووٹ جو ڈالے گئے ان کی تعداد۱3.55کروڑ ہے جبکہ 29پارلیمانی حلقوں کو ملا کر21لاکھ ووٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے یعنی ہر پارلیمانی حلقہ پر71,134ہزار ووٹوں کا اضافہ ہوا ہے،جس کے نتیجے میں یہاں بی جے پی کو3سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے۔اسی طرح تیلنگانہ میں 4.28%ووٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے،اصل ووٹ جو ڈالے گئے ان کی تعداد2.04کروڑ ہے جبکہ 17پارلیمانی حلقوں کو ملا کر14.22لاکھ ووٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے یعنی ہر پارلیمانی حلقہ پر83,627ہزار ووٹوں کا اضافہ بتایا گیا ہے،جس کے نتیجے میں یہاں بی جے پی کو3سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے۔آسام میں 9.17ووٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے،اصل ووٹ جو ڈالے گئے ان کی تعداد 1.82 کروڑ ہے جبکہ 14پارلیمانی حلقوں کو ملا کر15لاکھ ووٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے یعنی ہر پارلیمانی حلقہ پر1لاکھ سات ہزار ووٹوں کا اضافہ،جس کے نتیجے میں یہاں بی جے پی کو2سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے۔اروناچل پردیش میں 12.22%ووٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے،اصل ووٹ جو ڈالے گئے ان کی تعداد ۱5.84لاکھ ہے جبکہ 2پارلیمانی حلقوں کو ملا کر1.09لاکھ ووٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے یعنی ہر پارلیمانی حلقہ پر54,544 ہزار ووٹوں کا اضافہ،جس کے نتیجے میں یہاں بی جے پی کو1سیٹ کا فائدہ ہوا ہے۔گجرات میں 3.37%ووٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے،اصل ووٹ جو ڈالے گئے ان کی تعداد 2.72کروڑ ہے جبکہ 2پارلیمانی حلقوں کو ملا کر16.17لاکھ ووٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے یعنی ہرپارلیمانی حلقہ پر 64,681 ہزار ووٹوں کا اضافہ،جس کے نتیجے میں یہاں بی جے پی کو1سیٹ کا فائدہ ہوا ہے۔کیرالہ میں 6.17%ووٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے،اصل ووٹ جو ڈالے گئے ان کی تعداد 18.06کروڑ ہے جبکہ 20پارلیمانی حلقوں کو ملا کر17,12,123لاکھ ووٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے یعنی ہرپارلیمانی حلقہ پر 85,606 ہزار ووٹوں کا اضافہ،جس کے نتیجے میں یہاں بی جے پی کو1سیٹ کا فائدہ ہوا ہے۔اس طرح کُل ملا کر 79سیٹوں پر بی جے پی کو فائدہ پہنچا ہے۔اس رپورٹ کو Vote for Democracyتنظیم کے ذمہ داروں نے پریس کانفرنس کر کے عام کیا ہے،رپورٹ کے ترتیب دینے میں یم جی دیوسہایم رٹیئرڈ آئی اے ایس و کنونیرForum for Electrol IntegrityاورCoordinator Citizens Commission on Electionپروفیسرسباسٹین موریسIIM,Ahmedabadریٹئرڈ،ممبرIndependent Penal for Monitoring India’s Elections,پروفیسرہریش کارنکIIT,Kanpur رٹیئرڈ،ممبرPenal for Monitoring India’s Elections,،ڈاکٹر پیارے لال گارگ،سابق ڈین پنجاب میڈکل یونیورسٹی،تیستا سٹیلواڈ جیسے لوگ شامل ہیں۔اس تنظیم کی جانب سے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو ایک نوٹس بھی روانہ کیا ہے جس میں کمیشن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ کمیشن اس Fact Finding Reportکا جواب دے جس میں انتخابات کے دوران کی گئی دھندلیوں کو دلائل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔اس نوٹس میں اس بات کا بھی سوال کیا گیا ہے کہ اکثر پولینگ بھوتس پر Form No.17پولینگ ایجنٹس کو دینے میں دیر کیوں کی گئی اس پر بھی الیکشن کمشن وضاحت دے۔اس سنسنی خیز رپورٹ نے ایک طرف الیکشن کمشن کی نیند حرام کی ہے وہیں حکومت کو بھی پریشانی میں ڈال دیا ہے،لیکن ضرورت اس بات کی ہے کے اس رپورٹ میں موجود دھندلیوں کو سامنے رکھ کر عام عوام حکومت سے اور الیکشن کمیشن سے سوال کرے اور اس کو ایک تحریک کی شکل دے۔بہر حال یہ حکومت جو اس طرح کے فریب کے ذریعہ بر سرِ اقتدار آئی ہے اس کی میعاد زیاد دن رہنے والی نہیں ہے۔

(طاہر حُسین،صدر ویلفیر پارٹی کرناٹک)

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!