چندرایان ۳ کی کامیابی درپیش مراحل اور توقعات

محمد عبد اللہ جاوید

0
Post Ad

خلائی سائنس کی تاریخ میں پہلی بار بھارت اور روس کی چاند کی مہمات  کاایک ساتھ آغازہوا۔ ایک طرف روس ہے جس کی خلائی مہمات سر کرنے کی  تاریخ ہمارے ملک سے زیادہ پرانی  ہے ۔وہ دنیا کاپہلا ملک ہے جس نے انسانی تاریخ میں پہلی بار خلاء میں اپنے نمائندے بھیجےتھے۔دوسری جانب ہمارا ملک جو دنیامیں ابھرتی ہوئی خلائی طاقت کے طور پر جانا جارہا ہے۔روس کے لونا ۲۵ نے چاند پر پہنچنے کا سیدھا راستہ اختیار کیا (direct trajectory) اور ہمارے ملک کے چندرایان ۳ نے بیضوی شکل(loop trajectory) میں اڑان بھرتے ہوئے چاند کی سطح تک پہنچنے کا منصوبہ بنالیا ۔ اگست کے ۲۰ کو روس کے لونا ۲۵ اور اسی ماہ کی ۲۳ کو ہمارے چندرایان  کےچاند کی سطح پر اترنے کا دن طے پایا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر تقریباً ۴۰ سال بعد لانچ کیا گیا روس کا چاند کا مشن بری طرح ناکام ہوا۔اس کی خلائی گاڑی لونا ۲۵سطح چاند سے ٹکراکر پاش پاش ہوگئی۔ جب کہ بھارت کا چندرایان۳ چاند کے جنوبی قطب میں تاریخ ساز لینڈنگ میں کامیاب ہوگیا ۔ اس کامیا  بی کے ساتھ بھارت دنیا کا  وہ واحد ملک بنا جس نے پہلی بار چاند کے جنوبی قطب میں سب سے پہلے سافٹ لینڈنگ کرائی ‘اس سے مراد بحفاظت چاند کی سطح پر پہنچ جانا ہے۔اس کے مقابل چاند کی سطح پر کسی حادثہ کے شکار ہونے کو ہارڈ لینڈنگ یا کراش لینڈنگ کہتے ہیں۔ اس سے قبل اسرائیل اور جاپان کے لینڈرس بھی ایسی ہی ناکامی کا منہ دیکھ چکے  ہیں(نیچر جرنل‘۲۳ اگست ۲۰۲۳)۔

اس پس منظر میں بھارت کے چندریان ۳ کی کامیاب لینڈنگ اور وہ بھی پراسرار جنوبی قطب کی جانب‘ دنیا کے سامنے وطن عزیز کی سائنسی ترقی کی شاندا ر مثال ہے۔ چندریان ۲ کی ناکامی کے بعد‘ اسرو نے بڑے ہی دقت طلب مراحل پار کرتے ہوئے ‘۵ سال کا عرصہ لگایا اور اپنی ان تمام غطلیوں کی تلافی کرلی جنکے بناچندرایان ۲ مشن ناکام ہوگیا تھا۔

ناکامی سےتاریخ ساز کامیابی کی طرف

۲۰۰۸ میں منگلیان کی کامیابی کے بعد اینڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) نے۲۰۱۹ میں چندرایان ۲مہم  کا منصوبہ بنایا لیکن چاند کی سطح پر اترنے سے قبل بعض تکنیکی خرابیوں کی بنا یہ حادثہ کاشکار ہوگیا۔ اس کے  تعاقب میں فالواپ کے طور پر ۲۰۲۳ کا یہ چندرایان ۳ مشن اختیار کیا گیا ۔ماضی کی ناکامی کے اسباب معلوم کرتے ہوئے اس مشن کے لیے بہتری کی تمام تدابیر اختیار کی گئیں ۔ جیسے وکرم لینڈر کے پیر مضبوط کئے گئے جو تقریباً گیارہ کیلومیڑ فی سیکنڈ کی رفتار سے چاند کی سطح پر سیدھے اترنے(vertical landing) کے دباؤ کو انگیز کرسکتا ہے۔ ایندھن کے ٹیانک کا قد بڑا کردیا گیا تاکہ آخری وقت  تک کسی بھی تبدیلی یا بدلاؤ کا امکان باقی رہے اور خلائی سواری کو چاند کے مدار میں چکر لگانے میں کوئی دشواری نہ ہو۔ وکرم لینڈر پر پہلے کے صرف دو کے مقابلہ میں چاروں طرف سولار پینلس لگائے گئے۔چاند کی سطح پر اترنے سے قبل لینڈر کی رفتار معلوم کرنے کے لیے لیزرشعاعوں کے ذریعہ رفتار ناپنے کا خصوصی آلہ  (laser doppler velocimeter)نسب کیا گیا جو لیزر شعاع کا انعکاس کرتے ہوئے لینڈر کی رفتاراور سمت  معلوم کرسکتا ہے۔اس کے علاوہ لینڈنگ کیلئے سابق کے آدھے کیلومیٹر رقبے کی بجائے اس مرتبہ بڑے رقبے کا علاقہ  منتخب کیا گیا جوچار کیلومیٹرلمبا اور تقریباً ڈھائی کیلومیٹر چوڑا ہے (نیچر جرنل ‘ ۲۳ اگست ۲۰۲۳)۔ان  اصلاحات کے بعد بھارت کی چاند پر تیسری مہم شاندار کامیابی سے ہمکنار ہوئی کہ آج دنیا نے بھارت کوخلائی تحقیق میں ایک قوت تسلیم کرلیا ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا ملک بڑی ندرت کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کی قدرت رکھتا ہے اور اپنے منصوبوں کی تکمیل کیلئے  عزم و حوصلہ کے ساتھ شاندار اجتماعی کارکردگی  کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔

چندرایان ۳  کا تعارف

یہ ایل وی یم ۳ لانچنگ وہیکل ہے۔

یہ وزنی بھار اٹھانے والی خاص سواری ہے۔ اسرو نے اس کے ذریعہ اب تک چھ کامیاب خلائی مہمات مکمل کرلی ہیں۔یہ لانچنگ سواری  بڑے پیچیدہ اور حساس قسم کی مہمات کو احسن انداز سے پائے تکمیل تک پہنچانے کا طرۂ امتیازرکھتی ہے۔اس کے ذریعہ چندرایان ۳  کو لانچ کیا گیا۔اس کی اونچائی 43.5میڑ ہے جو نے 642 ٹن وزنی بوجھ  کے ساتھ مون مشن کے لئے اڑان بھری۔تصویر: اسرو۔

اس خلائی گاڑی کے ۳ بنیادی اجزا ء ہیں:

(الف) لینڈر ماڈیول: خلائی گاڑی جس کو چاند کی سطح پر اتارنے کے لیے خصوصی طور پر ڈئزائن کیا گیا ہے۔اسےوکرم نام دیا گیا ہے جو بھارت میں خلائی پروگرام کے موجد مانے جانے والے وکرم سارا بھائی کے نام سے موسوم ہے۔

وکرم لینڈر کا وزن 1471کیلوگرام ہے جو توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس کو ایک لونار دن (زمین کے چودہ دن برابر)کام کرنے کے لئے مخصوص طریقے سے ڈائزائن کیا گیاہے۔تصویر:اسرو

(ب) پروپلشن ماڈیول…اس سے مراد خلائی گاڑی کا وہ نظم ہےجو چندرایان ۳ کو زمین سے داغے جانے سے لے کر چاند کے مدار تک پہنچانے  میں مدد دیتا ہے۔

یہ 1000واٹ تک کی توانائی پیدا کرنے والالونار آربیٹر ہے جس کا وزن2379کیلوگرام ہے ۔یہ زمین پر موجود خلائی مواصلاتی نظام سے رابطہ کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جس کو چاند کے 100×100کیلومیٹر والی مدار میں چھوڑا گیا ۔ تصویر:اسرو

(ج)روور ماڈیول : یہ لینڈر کے اندر موجود چھوٹی گاڑی ہے‘جو لینڈنگ کے بعد باہر نکل کرچاند کی سطح پر سفر کرتے ہوئے سائنسی تجربات انجام دیتی  ہے۔اسکا نام پرگیان ہے ‘ سنسکرت زبان کا لفظ ‘ جس کے معنی حکمت کے ہیں۔

یہ 26کیلوگرم وزنی روور پرگیا ن ہے جس کا اصل کام چاند کی سطح پر گھومنا اور مختلف متعینہ مقامات پر سائنسی تجربات انجام دیتے ہوئے تمام معلومات لینڈر تک منتقل کرنا ہے۔یہ صرف ۱۴ دنوں میں تمام کام انجام دیتے ہوئے تقریباً ۵۰۰ میٹر کا فاصلہ طے کرے گا۔تصویر: اسرو

جیسا کہ معلوم ہے چندرایان۳ دراصل چندرایان۲ کا فالو اپ مشن ہے جس کا مقصد چاند کی سطح پر محفوظ لینڈنگ اورچاند کی سطح پر گھومنے والی گاڑی (rover) کی  صلاحیت اور قوت استعداد کا مظاہرہ کرنا ہے۔اس کے علاوہ چاند کی مٹی کا کیمیائی تجزیہ  اوردوسرے تجربات بھی شامل ہیں ۔  اسے۱۴ جولائی۲۰۲۳ کو سری ہری کوٹا سے لانچ کیا گیا۔ اب تک صرف تین ممالک چاند پر سافٹ لینڈنگ کرنے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔ روس‘امریکہ اور چین ‘اور اب ہمارے ملک کو چوتھا مقام حاصل ہوا ہے ۔

چندرایان ۳ مشن کے مقاصد:

(الف) چاند کی سطح پر محفوظ اور سافٹ لینڈنگ یقینی بنانا۔

(ب) چاند کی سطح پر گھومنے والی گاڑی (پرگیان روور) کی صلاحیت کا مظاہرہ کرنا۔

(۳)چاند کی سطح کے حقیقی و متعینہ(in-situ) مقامات پر سائنسی تجربات  انجام دینا ۔

چاند تک پہنچنے کے لئے بیضوی دائروں کا راستہ کیوں اختیار کیا گیا؟

زمین سے چاند کا فاصلہ ۳۸۴۰۰۰کیلومیٹر ہے۔یہ فاصلہ معمول کے مطابق تقریباً تین دنوں میں پورا کیا جاسکتا ہے لیکن چندرایان ۳ نے چاند پر پہنچنے کے لئے ۱۴ جولائی سے ۲۳ اگست یعنی۴۰ دن لگائے۔ اس دوران اس کی اڑان لمبے بیضوی دائروں کی شکل میں ہوتی رہی دیکھئےمندرجہ تصویر ۔

اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ چاند کی سطح پر خلائی سواری کو بحفاظت اتارنے (soft landing)کے لیے زمین پر موجودمشن کنٹرول کرنے والوں کو کافی  وقت میسر آیا ۔ان مشن  ماہرین نے بڑی باریک بینی سے لینڈرکی اڑان چیک کی اور حسب ضرورت اس میں ترمیم  کی اور سمت میں بدلاؤ  کرتے ہوئے محفوظ لینڈنگ کرائی۔بیضوی دائروں کی بجائے راست اور سیدھی سمت  اختیار کرنے پر روس کے لونا 25 کے لئے۲۰۰ملین امریکی ڈالر کی لاگت آئی جب کہ چندرایان ۳ نے اس سے تقریباً آدھے بجٹ میں کامیاب لینڈنگ کرادی ۔

ویسے راست طریقہ اختیار کرتے ہوئے چاند  پر لینڈنگ انتہائی پر خطر اور حساس ہوتی ہے۔اس کے لئے زبردست توانائی کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ اترنے سے پہلے خلائی گاڑی کی رفتار پر قابو پایا جاسکے۔ چونکہ  چاند کی فضا ‘ زمین جیسی نہیں ہوتی کہ جہاں ہوا کے دباؤ کی بنا رفتار از خود کم ہوتی جائے‘اس لئے یہاں زبردست توانائی کا استعمال کرتے ہوئے رفتار پر  قابو پایا جاتا ہے۔ روس کے لونا ۲۵ کی ناکامی کا ایک اہم سبب یہی مانا جارہا ہے کہ اس کی لیانڈنگ سے قبل رفتا ر پر قابو نہیں پایا جاسکا اور وہ خلائی گاڑی بڑی طرح گھومتے ہوئے سطح چاند سے ٹکراکر تباہ ہوگئی۔روسی خلائی ایجنسی کے ڈائرکٹرجنرل نے بتایا کہ طے شدہ پلان کے مطابق انجن کو  ۸۴ سیکنڈمیں بند ہوجانا چاہئے تھا لیکن اس کی بجائےوہ  ۱۲۷ سیکنڈتک کام کرتا رہا جس کی وجہ  لینڈر بے قابو ہوکر چاند کی سطح سے ٹکراگیا۔(منٹ‘۲۲ اگست ۲۰۲۳)۔

چندرایان ۳ کی کارکردگی

اس خلائی مشن کی معیاد صرف ایک لونار دن یعنی زمین کے ۱۴ دن برابر ہے۔ا  ب جس وقت چندرایان ۳ چاند پر اتار ا گیا وہاں دن ہے جو زمینی    حساب سے ۱۴ دن جتنا لمبا ہوتا ہے۔اس کے بعد رات میں سورج کی گرمی نہ ہونے کی وجہ فضا انتہائی سرد ہوجاتی ہے اس لئے وکرم لینڈر  اور پرگیان روور کام کرنا بند کردیں گے۔ جب ۱۴ دن بعددن سورج نکل آئے گا تو یہ پھر سے متحرک ہوسکتے ہیں‘ایسا سائنسدانوں کا ماننا ہے۔ لیکن اسرو کے پیش  نظر ۱۴ دن ہی کی معیاد ہے اور اسی مناسبت سے اس کے اجزاء ترتیب دیئے گئے ہیں۔

اس وقت پرگیان روور چاند کی سطح پر گھوم رہا ہے۔ اندازہ کیا جارہا ہے کہ وہ ان ۱۴ دنوں میں تقریبا  ۵۰۰ میٹر کا فاصلہ طے کرے گا۔یہ چاند کی سطح پر موجود پتھر اور مٹی کا کیمیائی تجزیہ کرے گا ۔ چاند کی جنوبی سرحد کے قریبی علاقے کی سطح کی برفانی خصوصیات، ایانز اور الیکٹرانز کی کثافت اور حرارتی خصوصیات کا اندازہ لگائے گا ۔ یہ تمام تجربات اپنی نوعیت کے منفرد ہوں گے کیونکہ اس سے قبل  کسی بھی دوسرے ملک نے چاند کے اس جنوبی قطب کو سرنہیں کیا ہے۔ پرگیان روور چاند کی سطح پر گھومتے ہوئے قیمتی معلومات  وکرم لینڈر تک منتقل کرے گا۔یوں یہ لینڈرپرگیان روور اور زمین پر موجوداسرو کے  خلائی نیٹورک کے درمیان رابطہ کار کا رول ادا کرے گا اور تمام معلومات  واپس زمین تک منتقل کرے گا۔اس کے بعد سائنسدا ن حاصل شدہ ڈاٹا کا تجزیہ کرتے ہوئے دنیا کو چاند کے اس جنوبی قطب سے متعلق حقیقت حال سے واقف کرائیں گے۔تقریباً چھ دنوں (۲۹ اگست) کے بعد پرگیان روور سے حاصل شدہ معلومات کی روشنی میں  اسرو نے یہ انکشاف کیا ہے کہ سطح چاند پر گہرائی کے ساتھ درجہ حرارت تیزی سے گرتا رہتا ہے۔جنوبی قطب پر کئے گئے تجربہ کے مطابق چاند کی سطح سے دس سینٹی میٹر نیچے درجہ حرارت -10ڈگری ریکارڈ کیا گیا جبکہ سطح پر درجہ حرارت   45ڈگری ہے۔

ممکنہ فوائد

  • اس کا میابی سے حوصلہ پاکر اسرو مزید خلائی مشن سر کرنے کا منصوبہ بنائے گا۔ فی الوقت مون مشن کے علاوہ ادتیہ ایل ون نام کا ایک شمسی مشن تیاری کے مرحلے میں ہے۔
  • زمین کی باہر ی فضاء کو بہتر طور سے سمجھنا ممکن ہے‘ جیسے چاند کی سطح پر موجود پتھر‘ مٹی اور دیگر کیمیائی اجزا ء سے متعلق تجربات وغیرہ کے ذریعہ قیمتی معلومات کا حصول۔
  • چاند پر جانے سے جدید خلائی تکنالوجی کا فروغ ممکن ہے۔
  • اسپیس انجئنیرنگ کے علاوہ سائنس و تحقیق کے میدان میں تعلیم حاصل کرنے کا نیا رجحان پیدا ہوگا۔
  • اس مون مشن کی کامیابی سے بھارت کے لئے قمری معیشت (moon economy) کا ایک نیا باب شروع ہوگا جس میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ممکن ہوسکے گی۔
  • خلائی ٹیکنالوجی سےجڑے ہمارے ملک کے ماحولیاتی نظام کے لئے امکانا ت کی ایک وسیع دنیا  وجود میں آئی ہے۔چند سال پہلے تک  ہمارے ملک کی خلائی معیشت  6بلین ڈالر تھی جبکہ اب EY انڈیا کے مطابق ۲۰۲۵ تک یہ بڑھ کر 13 بلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
  • چندرایان۳ کی کامیابی سے ممکن ہے کہ سرمایہ کاروں کے  اعتمادمیں اضافہ ہوگا اور وہ خلائی ٹیکنالوجی میں زیادہ نجی سرمایہ کاری کوترجیح دیں گے۔
  • خلائی معیشت سے متعلق اسٹارٹ اپز اور متعلقہ شعبہ جات بھی اس ترقی سے فائدہ اٹھائیں گے۔

چندرایان ۳ کو درپیش خطرات

اسرو کے چیف کے مطابق اب چندرایان ۳ کے لئے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔بطور خاص چاند کی سطح پر اٹھنے والی گرد یا دھول (lunar dust)اور درجہ حرارت انگیز کرنا‘گڑھوں(craters) سےبچتے ہوئے روور کاسفر جاری  رکھنا مشکل ترین کام ہے۔زمین پر اٹھنے والی دھول ہوا کی وجہ سے کہیں بھی کسی بھی سطح پر جم جاتی ہے جبکہ چاند پر ہوا نہ ہونے کی بنا یہ خلائی گاڑی کے مختلف حصوں پر اثر جم جائے  گی اور انہیں بے اثر کردے  گی۔اس کا بھی امکان ہے کہ موٹر  کی کارکردگی میں بھی کمی  آئے  یا اس کے پرزے اپنی جگہ جم جائیں۔بہرحال ہمارے سائنسدان کسی بھی ناگہانی آفت سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں۔

اسرو سے توقعات اور اس کےعزائم

اب جبکہ چاند کے جنوبی قطب پر محفوظ لینڈنگ سے اسرو کا نام دنیابھر میں روشن ہوا ہے ‘ظاہر بات ہے توقعات بھی بجا طور پر زیادہ کی جارہی ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اسرو کی جانب سے خلائی تحقیق میں پیش رفت اسی شان سے جاری رہے گی۔گرچہ اس ضمن میں کافی چیالنجس کا سامنا ہے لیکن موجودہ ترقی اور درپیش منصوبوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے سائنسدانوں کے نزدیک خطرات کے پیش نظر پیش رفت نہیں بلکہ  عزائم کی بنیاد پر پیش قدمی مطلوب ہے۔ چنانچہ اسرو کی جانب سے فوری اعلان کردیا گیا کہ اس کے اگلےمنصوبے کیا ہیں۔ان میں جاپان کے اشتراک سے ایک اور مون مشن کے علاوہ ادتیہ ایل ون کے ذریعہ اسرو اپنی پہلی خلائی رصد گاہ(space observatory) بنائے گا جہاں سے سورج کا مختلف جہتوں سے مطالعہ ہوگا۔

سائنسی تحقیقات سے استفادہ کیسے؟

ان دریافتوں سے استفادہ کاایک پہلو معرفت سے تعلق رکھتا ہے۔ آج کی سائنس نے آسان کردیا ہے کہ آسمانوں کی اتھاہ گہرائیوں میں موجود قدرت کی نشانیوں کا براہ راست مشاہدہ کریں اور دل میں خیال لائیں کہ وہ خالق کیسا ہوگا جس کی تخلیق اس قدر کما ل کی ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

اَوَ لَمْ یَتَفَكَّرُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ۫ مَا خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّىؕ وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَآءِ رَبِّهِمْ لَكٰفِرُوْنَ

کیا انہوں نے اپنے دل میں غور کیا کہ خدا نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان کو حکمت سے اور ایک وقت مقرر تک کے لئے پیدا کیا ہے اور بہت سے لوگ اپنے پروردگار سے ملنے کے قائل ہی نہیں۔(سورہ الروم:۸)۔

یعنی تفکر  یہ ہے کہ دل میں خیال لایا جائے(visualization) کہ جس چیز کو دیکھا جارہا ہے وہ فی الواقعی ہے کیا؟اور کس نے بنائی ہے؟ اس کی بنائی چیزوں  پر غور وفکر سے یہ یقین پختہ تر ہوجائے کہ رب سے ملاقات کرنی ہے۔سب کا وقت مقرر ہے۔ ابدی ذات تو صرف اللہ کی ہے۔ آج کی ترقی نے یہ سہولیتیں بہم پہنچائیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس کائنات کے مسلسل پھیلنے کا عملی مشاہدہ کریں جس کا اُس نے اپنی کتاب ذکر کیا کہ ہم نے آسمان کو اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم اس کو مسلسل پھیلاتے جارہے ہیں(دیکھئےسورہ الذاریات آیت۴۷ ) ۔ آسمان کی طرف پورے شعور واحساس کے ساتھ دیکھنے کی اس رب نےدعوت دی ہے کہ دیکھو اوپر آسمان کیسے بنایا اور سجایا گیا ہے اور اس میں کہیں کوئی رخنہ پایا نہیں جاتا(دیکھئےسورہ ق:آیت ۶)۔ترقی سے یہی معرفت کا حصول مطلوب ہے۔یہ بحث کوئی معنی نہیں رکھتی کہ چندریان ۳ کی کامیابی میں جن سائنسدانوں نے نمایاں رول ادا کیا ہے ان میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ  انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے صحت مندطریقے  پر کام کرنے والا ہر فرد ہمارا  ہے۔اس کی کارکردگی ہماری ہے۔اس لحاظ سے اسرو سے وابستہ ہر سائنسدان  کی کوششیں ہماری اپنی ہیں۔ جب انسان کی ہر سانس‘ رب کی مرہون منت ہو تو اس کی ترقی وکامیابی کا مرکز ومحور اس رب کریم   کی ذات کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے؟

کیا چاند پر بسنا ممکن ہے؟

ان دنوں خلائی سیاحت اور چاند کے علاوہ دیگر سیاروں میں انسانو ں کو بھیجنے اور ان کی  کالونیاں بسانے کی باتیں زوروں پر ہیں۔ تمام باتوں سے صرف نظر اگر اس چندرایان کے کامیاب تجربہ کے بعد‘ چاند سے متعلق اب تک کی حاصل ہوئی معلومات پر غور کریں تو حسب ذیل حقائق واضح ہوجاتے ہیں:

  • چاند کی سطح پر دن کا انتہائی تیز (120 ڈگری)اور رات  کا انتہائی سرد(-130  ڈگری) درجہ حرارت ‘پانی اور آکسیجن کے علاوہ رطوبت کی کمی جیسے امورانسانوں کے وہاں رہنے کے امکان کو بالکل کم کردیتے ہیں۔
  • زمین کی بہ نسبت انسانی جسم پر مضر اثرات مرتب کرنے والی ریڈیشنز(radiations) چاند پر زیادہ مقدار میں ہوتی ہیں جن کی وجہ انسانی زندگی کو بہت بڑا خطرہ لاحق رہتا ہے۔
  • چاند کی سطح بہت زیادہ ناپائیدا ر ہوتی ہے اس لئے وہاں چلنا پھرنا بہت مشکل اور ہوائی سفر بھی ممکن نہیں رہتا۔
  • پھر چاند تک پہنچنے اور وہاں کی فضاء کےمطابق اہتمام کرنے میں جس نئی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے اس سے ابھی کماحقہ واقفیت نہیں ہوپائی ہے اور اس کے لئے درکار کثیر رقم کا حصول بھی آسان نہیں۔

اس لحاظ سے خلاء میں انسانوں کے جانے اور وہاں بسنے کے امکانات نہ کے برابر ہیں۔ اس ضمن میں حقائق کو‘سائنسی دلائل کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ورنہ صرف نظریاتی  یا سماجی پہلو سے خلائی تحقیق کو مضر یا مفید بتانا قابل قبول نہیں ہوگا۔ خلائی تسخیر وتحقیق کے میدان میں ہماری عملی پیش رفت ہونی چاہئے۔ملت اسلامیہ بحیثیت مجموعی سائنسی اور تحقیقی کاموں میں واضح پیش رفت کو اپنا شعائر بنائے۔اور دنیا کو بتائے کہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ سورج اور چاند بلکہ آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں مسخر کردیں ہیں(دیکھئے سورہ الجاثیہ: آیت  ۱۳)۔لہذا ہر تحقیق اور نئی ایجاد سے استفادہ کے پہلو تلاش کرنا اورغیر صحت مند پہلوؤں کو  رد کرنا انسانی فطرت کا تقاضہ ہے۔

جہاں بینی کے ساتھ جہاں بانی ضروری

خلائی سائنس کے ذریعہ فضائے آسمانی کی تسخیر میں بحیثیت امت مسلمہ ہمارا واضح موقف ہونا چاہئے۔اور ایسے واضح  مقاصد متعین ہونے چاہئیں کہ امت کی پیش رفت میں یکسانیت  و ہم آہنگی بھی ہواور ایک پیغام بھی کہ امت مسلمہ انسانوں کی فلاح و بہبود کو اہم فریضہ سمجھتی ہے ۔اس سے ممکن ہے کہ ہمارا وجود اس ملک کی ترقی کے لئے سراسر تعمیری ہوگا اور خلائی سائنس  اور اس جیسے دیگر میدانوں میں نئی نسل کو تیار کرنے کا اجتماعی شعور بھی بیدار ہوگا۔اس ضمن میں بحیثیت امت مسلمہ ‘حسب ذیل مقاصد پیش نظر رہنے  چاہئیں:

  • خلائی سائنس کے میدان میں حصول علم و تحقیق کے لئے اصول وضوابط مرتب کرنا۔
  • فلکیات کے میدان میں ہورہی دریافت اور ایجادات  سے حسب ضرورت استفادہ کرنا۔
  • دنیا میں ہورہی صحت مند کوششوں کواپنانا اور ان سے متعلق افراد کے ساتھ تعاون واشتراک کی صورتیں پیدا کرنا ۔
  • ہر سطح پر علمی و تحقیقی کاموں کو فروغ دینا ۔ اس غرض کے لئے تعلیمی گاہوں اور اجتماعی اداروں میں ضروری تبدیلیاں لانا اور متحدہ کوششیں یقینی بنانا۔
  • اس میدان میں ہورہی غیر نفع بخش کوششوں کی جانب عمومی طور پر عالم انسانیت کو اور خصوصی طور افراد ملت کو متوجہ کرنا‘اور انکی علمی وفکری تیاری یقینی بنانا۔

انشاء اللہ ان اقدامات سے ممکن ہے  کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان اسلاف جیسا بنائے گا جو اپنے زمانے میں علمی ‘سائنسی اور تحقیقی میدانوں کےامام مانے جاتے تھے اور جن کے غیر معمولی کارناموں سے دنیا آج بھی فیض یاب ہورہی ہے ۔

محمد عبد اللہ جاوید

9845547336

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!