ظلم کے خلاف مزاحمت

0
Post Ad
ظلم در اصل اندھرا ہے جہاں من مانی اور فساد فی الارض رونما ہوتا ہے ۔ ظلم کے معنی کمزور طبقوں پر اپنی اجاره داری چلانا ہے ۔ اور ظلم ہمیشہ مساوی طاقتوں کے درمیان نہیں ہوتا بلکہ اکثرکمزوروں کے خلاف ہوتا ہے کمزوروں کے حقوق مارے جاتے ہیں ، ان کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے۔ ان پس مانده طبقوں پر ہر طرح کا ظلم ڈھاکر تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔ بلکہ انہیں ملک میں دوسرے درجہ کا شہر ی قرار دیا جاتا ہے۔  اس کو قرآن فسادفی الارض کہتا ہے ۔ ان حالات میں حکمران طبقہ کا موقوف یہ ہوتا ہے کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ۔ اگر کسی کی ذہنیت الٹی گنتی شروع کرے توكون ان کا کیا بگاڑ لے گا ؟ ادبی زبان میں اس کو اقدار کا بدلنا (change of values)کہتے  ہیں ، اس میں معروف منکر بن جاتا ہے اور منکر ، معروف بن جاتا ہے۔ آج دنیا میں یہی ہو رہا ہے ۔ یو این او بھی اپنی جگہ چپ سادھ ہے۔ اور عرب ممالک کی خاموشی بھی تشویش ناک ہے۔ ظلم جب بڑھ جاتا ہے تو تباہی و بربادی اپنے عروج کو پہنچتی ہے . یہ مرحلہ تباہی اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ ان کو روکنے والے ہاتھ اپنی قوت کے ساتھ نہیں اُٹھتے ۔ انہی نازک موقع پر محسن انسانیت صلعم نے فرمایا تھا کہ تم ظالم کی بھی مدد کرو اور مظلوم کی بھی مدد کرو ۔ لوگ حیرانی سے پوچھنے لگے کہ اے اللہ رسول مظلوم کی مدد سمجھ میں آتی ہے مگر ظالم کی مدد سمجھ میں نہیں آتی۔ جب لوگوں کی حیرانی بڑھ گئی تو رسول اللہ نے فرمایا کہ تم ظالم کو ظلم ڈھانے سے روکو، یہی اسکی مدد ہے۔ حضور کایه فرمان بین الاقوامی قانون گیا۔ جس میں حکمت ہی حکمت ہے۔
اب رہی بات مزاحمت کی ۔ تو مزاحمت ، رکاوٹ کو کہتے ہیں۔ صاف سڑک پر آدمی بڑی تیزی سے چل سکتا ہے ، ریتلی زمین پر چلنے کی رفتار میں کمی واقع ہوتی ہے جو کمی واقع ہوتی ہے اُسی کو مزاحمت کہتے ہیں۔ حکم دیا گیا کہ تم برائی کے خلاف ظلم کے خلاف آواز اٹھاؤ ، یه آواز اُٹھانا ایمان کی علامت ہے۔ آواز نہ اٹھانے کے معنی یہ ہیں کہ تم زندگی کا ثبوت دینے میں ناکام ہوگئے۔ زندگی توزنده دلی کا نام ہے عدل و انصاف قائم کرنے کا نام زندگی ہے ۔ بنی محترم نے عدل و قسط کی بنیاد ڈالی ہے ، تم کن راہوں میں بھٹک رہے ہو ، تمہاری منزل کیا تھی ، تمہارا مقصد زندگی کیا تھا تمہیں کیا ہدایت دی گئی تھی اور تم کیا کررہے ہو ؟
اس موقع پر ہمیں عامر عثمانی یاد آتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ
طلب تصور منزل سے ہو چکی محروم
خود اپنی سمت سفر بھی ہمیں نہیں معلوم
ہماری ظلمت شب میں کہیں بھی نور نہیں
طلوع صبح کے آثار دور دور نہیں
پھر اس زبان…..
ظلم کے خلاف مزاحمت ضروری ہے ورنه ایمان معتبر نہ ہوگا ۔ اتنی مزاحمت کہ ایوان ظلمات میں لرزہ طاری ہو ۔ وہ سوچنے پر مجبور ہو جائے ۔ ان لمحات میں اہل ایماں کی چھوٹی موٹی لغزشوں کو اللہ معاف فرمائے گا اور اپنی طرف سے نصرت خاص بھیجے گا جس سے اہل ایمان کو طمانیت حاصل ہوگی اللہ ان کے قدم مضبوط کرے گا ، ان کے قلوب کو جمادے گا اور وہ دنیا میں بھی کامیاب اور آخرت میں بھی کامیاب ہونگے ۔
جہاں ایک دوسرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے وہیں سے تنازع شروع ہو جاتا ہے۔ ہر شخص کو اور پر قوم کو اپنی مرضی سے جینے کا حق حاصل ہے۔ نظریات کی دنیا میں افہام وتفهیم کے ذریعہ تبادلہ خیال کی گنجائش ہے۔ لیکن دھونس دهاندلی زور زبردستی کی گنجائش نہیں ۔ اسی لیے قرآن نے کہا کہ لااكره في الدين : دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے ۔  جب مالک کائنات کا اپنے بندوں پر زبردستی نہیں ہے تو پھر کسی قوم یا فرد کے زور آوری کی کیا حیثیت ِ
مضمون نگار :
عبدالکریم بڑگن – بنگلور ِ الكل
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!