تحریک اسلامی سے وابستگی آج کی ضرورت ہے اوریہ ضرورت سمع وطاعت کو فرض قرار دیتی ہے جماعت اسلامی ہندکلبرگی کی دوروزہ تربیت گاہ سے مولانا محی الدین غازی، توفیق اسلم خان، محمدیوسف کنی اوردیگر کاخطاب

0
Post Ad

بیدر۔ (محمدیوسف رحیم بیدری) احتساب دین کاتقاضہ ہے۔ جماعت اسلامی ہند اگر اپنے پاس احتساب کانظم نہ بھی رکھے تب بھی مسلمانوں کے اپنے دین اسلام میں احتساب کو کئی درجہ اہمیت حاصل ہے۔ جو کوئی اپنی جوابدہی یاانفرادی حساب کتاب سے بھاگتاہے دراصل وہ دین ِ اسلام کے تقاضوں سے بھاگتاہے۔یہ بات ریاپورٹرجناب محمد مظہر الدین ناظم ضلع کلبرگی کی جانب سے پیش کئے گئے ایک سوال کے جواب میں مولانا محی الدین غازی فلاحی مرکزی سکریڑی جماعت اسلامی ہند دہلی نے کہی۔وہ بیدر کے نظام فنکشن ہال میں منعقدہ جماعت اسلامی ہند کلبرگی کے منتخب کارکنان(مردوخواتین) کے اجتماع سے خطاب کررہے تھے۔ ریاپورٹرنے پیانل ڈسکشن ”تحریک اسلامی سے وابستگی میں حائل رکاوٹیں اور حل“ عنوان پربہت سارے سوالات کئے جن میں (۱) جماعت میں رہ کر دوسری دینی جماعتوں میں کام کیاجاسکتاہے یانہیں؟(۲)بینک سے لون (کچھ شرح سود پر) حاصل کئے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے جماعت اسلامی ہند کے رکن بننے میں رکاوٹ ہے۔ اس معاشی مسئلہ کاحل آپ کے پاس کیاہے؟(۳)علمائے کہتے ہیں اقامت دین فرض عین نہیں فرض کفایہ ہے۔ اور چوں کہ سوسائٹی پر علمائے کرام کااثر ہوتاہے اس لئے جماعت کانصب العین ”اقامت دین“ کو مرکزیت اورمقبولیت کیوں کر حاصل ہو؟(۴)75سال بعد بھی جماعت اسلامی ہند ایک بڑی تعداد کو متاثر نہیں کرسکی، ایسا کیوں کر ہوا؟(۵)ہندوستان میں غیرمسلمین کی اکثریت ہے۔ نمازوں اور دیگرعبادات پر ہماری گھیرابندی کی جاتی ہے۔ ہم پھر کس طرح اجتماعی طورپرعبادت کریں گے؟(۶)SIOکے فارغین کی بڑی تعداد جماعت سے بوجوہ وابستہ نہیں ہوپاتی ہے۔ اس مسئلہ کو کس طرح حل کیاجائے گا؟شامل رہے۔ ان سوالات کے جوابات تحریک اسلامی ہند کے قائدین جناب توفیق اسلم خان، مولانا محی الدین غازی فلاحی، جناب محمدیوسف کنی اور جناب رفیق احمد گادگی ناظم علاقہ جماعت اسلامی ہند کلبرگی نے دیتے ہوئے کہاکہ جماعت اسلامی ہند مکمل دین کو قائم کرنا چاہتی ہے۔ جبکہ دیگر جماعتوں میں ایسا تصور اور اس پر واقعی کام نہیں ہے۔ اسلئے اس وسیع تصور کے ہوتے ہوئے جماعت کے پاس کام نہ ہوکہناغلط ہوگا۔ جماعت میں بے شمارکام ہے۔البتہ مرکز اگر اجازت دیتاہے تو وہ دوسری جماعتوں میں جاکر کام کرسکتے ہیں۔ ویسے فقہ اکیڈمی، آل انڈیامسلم پرسنل لاء اور دیگر تنظیموں میں جماعت کے افراد ان تنظیموں کاحصہ بن کر کام کرتے ہیں۔ جو کوئی سود پر قرض لیاہواہے اورجماعت کا رکن بننا چاہتاہے اس کو لازمی طورپر سودی قرض سے دستبردارہوناپڑے گا۔ بلاسودی ادارے بھی آج کل کام کررہے ہیں ان سے تعاون لے کر معاشی مسئلہ یامعاشی ضرورت پوری کی جاسکتی ہے۔ دین کی دعوت دینا یا معروف کاحکم کرنا اور برائیوں سے روکنا دراصل فرض کفایہ ہے کہنا نظریاتی اور عملی دونوں پہلوؤں سے درست نہیں ہے۔ قرآن مجید میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکوایمان والوں کی مستقل صفت بتائی گئی ہے۔ اس تصور کے بغیر کسی مومن کا تصورنہیں کیاجاسکتا۔ جس میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی صفت نہیں ہے وہ اپنے ایمان کا جائزہ لے۔ عملی لحاظ سے فرضِ کفایہ کون کون ادا کررہے ہیں۔ کیا نماز جنازہ پڑھی جاچکی ہے۔ سبھوں نے پڑھ لیاہے؟ یا فرض عین اور فرض کفایہ کی بحثوں میں ملت الجھی ہوئی ہے۔ اسی الجھن کے دوران ”اقامت دین“کی اصطلاح بھی پھنسی نظر آتی تھی لیکن اب صورتحال کافی بدل چکی ہے۔ علمائے کرام ”اقامت دین“ کو مومن کی زندگی کا نصب العین تصورکرنے لگے ہیں الاماشاء اللہ۔ ہندوستان میں 75سال بعد 15ہزا رافراد ایسے ملے ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ اسلام پر جینے اور مرنے کے لئے تیار ہیں۔ اس پر ہمیں مسرت کا اظہار کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ جہاں کہیں اسلامی حکومت ہوگی وہاں سودمت کھاؤ، شراب مت پیو کہاگیاہے اور جہاں کہیں اسلامی حکومت نہیں ہے وہاں پرشراب پینے اور سودکھانے کی اجازت ہے ایسانہیں ہے۔ دستور ہند میں بھی آزادی ہے کہ جس کافائدہ اٹھاتے ہوئے سود اور شراب کے خلاف مورچہ بندی کی جاسکتی ہے۔ نماز، روزہ، اور حج اجتماعیت کے ساتھ فرض قرار دئے گئے ہیں۔ چاند، سورج، بادل یہ سب اجتماعی اصولوں پر چل رہے ہیں۔ تب ہی سارا نظام چل رہاہے۔ اسلامی نظام بھی اجتماعی طورپر چلے گا۔ کسی بھی بہانے سے کوئی فرض ساقط ہونے والا نہیں ہے۔ SIOاور GIOدونوں کے لئے آفر ہے کہ وہ اپنی اپنی تنظیموں میں رہتے ہوئے رکن جماعت بن سکتے ہیں۔ اب یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی جماعت کے نظم سے خود ہی دوررہنا چاہتاہو۔اس کے لئے کیاکیاجاسکتاہے۔ اس پورے پیانل ڈسکشن پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا ڈاکٹر محی الدین غازی فلاحی نے کہاکہ تحریک اسلامی ایک بڑا تصور ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ اور دیگر قائدین نے باربار کہاکہ آپ اقامت ِ دین کاکام کیجئے۔ اور اقامت دین کاکام تنہا نہیں اجتماعی طورپر کیجئے۔ مقصو دیہی ہے کہ ہر طرف اقامت دین کی جدوجہد جاری رہے۔ اگرآپ کو جماعت اسلامی ہند کے طریقے پر اعتماد نہیں ہے تو اپنی جماعت بنا کر کام کیجئے۔ مولانا غازی نے عوام کی جذباتی اور فکری وابستگی کو مزید بڑھانے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا”اگر کل خدانخواستہ ہم پر کوئی مصیبت آجائے تو پوری ملت ہماری ہمدرد اور غم گسار ہوجائے۔ انھوں نے مدارس میں جماعت اسلامی ہند کے خلاف پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کو بھی ایک دوجملوں میں بیان کرتے ہوئے کہاکہ اپنے اپنے ذہن میں بیٹھی ہوئی جماعت اسلامی سے باہر نکل کر خود جماعت اسلامی کو لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی میں صلاح دیتاہوں۔ مولانا محی الدین غازی نے فکرمندی کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ مسلمانوں میں اسلام کے تقاضوں کو بہت آسان لیاگیاہے۔ کلمہ پڑھا اور نماز پڑھ لیا۔ تقاضے ختم جیسے ہی جماعت کے رکن بننے کو کہاجاتاہے تو یہ تقاضے بڑے لگنے لگتے ہیں۔ جب کہ سچ بات یہ ہے کہ ایک سچا مسلمان رکن جماعت بننے سے اس کی زندگی میں مزید سرگرمی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ایک سچے مسلمان کے لئے رکن بننا گویا آسان عمل ہے۔ آخری بات یہ کہ تحریک اسلامی سے وابستگی آج کی ضرورت ہے۔ اوریہ ضرورت سمع وطاعت کو فرض قرار دیتی ہے۔ بعدازاں جناب توفیق اسلم خان نے تحریکی کارکن محبت واطاعت رسول ﷺ اور جناب محمدیوسف کنی نے یادرفتگان کے حوالے سے مولانا محمد سراج الحسن مرحوم سابق امیرجماعت اسلامی ہند پر خطاب کیا۔ ابتداء میں تذکیر بالحدیث حافظ سید عتیق اللہ سکریڑی مقامی JIHبیدر نے مبینہ طورپر کی۔اعلانات کے ساتھ دوپہر کی نشست اختتام کو پہنچی۔ اس نشست کے کنوینر جناب محمد زبیر ٖغازی تھے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!