کیا نام بدلنے سے ملک کے حالات بدل جائیں گے۔۔؟

از:طاہر حُسین ہری ہر

0
Post Ad

بی جے پی نے مرکز میں اقتدار پر آنے سے پہلے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم ملک میں تبدیلی لائیں گے،ملک کے عوام کو لگا تھا کہ شاید ان کے حالات بدلیں گے،مہنگائی،بے روز گاری،غربت،بھک مری،معاشی بد حالی،یہ سب بدل کر خوشحالی آئے گی۔لیکن لوگوں کی یہ سوچ بلکل غلط ثابت ہوئی،بی جے پی تو ملک میں کچھ اور ہی بدلنے آئی تھی،وہ تو شہروں کے نام بدلنے،اسکیموں کے نام بدلنے،ملک کی تاریخ کو توڑ موڑ کر بدلنے،یہاں کے پُر امن ماحول کو نفرت کی آندھی میں بدلنے،خوشحال زندگیوں کو آزمائشوں میں بدلنے،آپسی بھائی چارے کو دشمنی میں بدلنے،اپنے سرمایہ دار دوستوں کی تقدیر بدلنے۔۔اس طرح سب کچھ اُلٹا کرنے کے لئے اقتدار میں آئی،یہ بات اب سمجھ میں آرہی ہے۔
اب ایک بلکل ہی نیا کھیل بی جے پی کھیلنے جا رہی ہے،ملک کا نام ‘انڈیا ‘سے بدل کر ‘بھارت ‘کرنے جا رہی ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ بی جے پی کے پاس 2024میں آنے والے انتخابات میں عوام سے ووٹ مانگنے کے لئے کوئی مدعا نہیں ہے،ویسے بھی عوام کے جذبات سے کھیل کر ووٹ حاصل کرنا بی جے پی کا واحد ہتھیار ہے،اسی کے تحت اب بی جے پی نے اس نئے مسئلہ کو چھیڑا ہے۔اس کا اشارہ موہن بھاگوت نے گوہاٹی میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے دیا تھا،انہوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہمار ملک کو صدیوں سے ‘بھارت’کے نام سے ہی بلایا جاتا ہے،لہذا عوام ملک کانام ‘بھارت’ہی استعمال کریں۔ اس کے چار دن بعد ہی مرکزی حکومت کی جانب سے یہ اشارے ملنے لگے کے وہ ملک کا نام ‘انڈیا ‘سے بدل کر ‘بھارت’کرنے والی ہے،بی جے پی کے ترجمان ہر جگہ اس کے حق میں عوامی رائے بنانے اور اس کے ذریعہ سے پھر سے نفرت کی ایک دیوار کھڑا کر کے ملک میں پولرائزیش کے کام میں بڑی مستعدی کے ساتھ لگ گئے ہیں،اُدھر دوسری جانب ‘بکاو میڈیا’کو بھی پھر سے وطن پرس اور وطن دشمن کے سررٹیفکیٹ بانٹھنے کا کام مل گیا ہے۔
اس کھیل کے پیچھے ایک اور محر ک بھی ہے،بلکہ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہی اصل وجہ ہے،وہ ہے حزب اختلاف پارٹیوں نے مل کر جو وفاق بنایا ہے ‘انڈیا’کے نام سے اس نے بی جے پی کی نیندیں حرام کر دی ہیں،جب سے یہ وفاق بنا ہے اور اور اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے تب سے بی جے پی بُری طرح بوکھلائی ہوئی ہے،اور اس بوکھلاہٹ میں اُلٹے سیدھے کام کر کے ملک کے حالت کو اور بگاڑ نے میں لگی ہے۔اپنے مفاد کے لئے اب ملک کا نام بدلنے تک کے لئے اب بی جے پی تیار ہوگئی ہے اس بات کی پروا کئے بغیر کہ اس سے ملک میں کتنے مسائل پیدا ہونگے۔جیسے ہی حزبِ اختلاف پارٹیوں نے اپنے وفاق کا نام ‘انڈیا’رکھا اُسی وقت ملک کے وزیر ِ عظم نے اُس کا یہ کہے کر مذاق اُڑایا تھا کہ ایسا نام تو دہشت گرد تنظیم انڈین مجاہدین اور ایسٹ انڈاکا ہے۔لیکن اُنہیں اندازہ نہیں تھا یہ یہ وفاق اتنی جلدی اتنی مقبولیت حاصل کرلے گا۔
ملک کا نام بدلنے کی دیلیل بی جے پی کے لیڈروں کی جانب سے یہ دی جارہی ہے کہ یہ ‘انڈیا’نام غلامی کی نشانی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقتدار میں آہے ہوئے آٹھ سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے،ان آٹھ سالوں میں کبھی یاد نہیں آیا کہ ہم ایک غلامی والے نام کے ساتھ چل رہے ہیں؟ یہ خیال اُس وقت کیوں نہیں آیا جب حکومت کی جانب سے اسکیموں کا اعلان کیا گیا تھا،’میک ان انڈیا’، ‘ڈیجیٹل انڈیا’ون انڈیا’جیسے نام رکھے جا رہے تھے اور اس کی خوب تشہیر کی جا رہی تھی۔۔؟پھر یہ غلامی کا احساس راتوں رات اچانک کیوں آگیا ہے۔؟اور کیا صرف ‘انڈیا’نام سے غلامی کے آثار جھلکتے ہیں؟یہاں کہ اڈمنسٹریشن کا جو سسٹم ہے کیا وہ انگیزوں کی دین نہیں ہے،یہاں کی تعلیم کا سسٹم انگریزوں کی دین نہیں ہے،گورنر جو نامزد کئے جاتے ہیں وہ انگریزوں کی دین نہیں ہے؟فہرست لمبی ہے،صرف نام ہی کیوں۔۔؟ اور پھر یہ حکومت خد سرمایہ داروں کی غلامی کر رہی ہے اور اب اس کو ‘انڈیا’نام میں غلامی نظر آرہی ہے۔
عوام اس حکومت سے بیزار آچکے ہیں،حکومت پوری طرح کارپورٹ کمپنیوں کے ہاتھوں بک چکی ہے،ملک کی معیشت دن بہ دن گرتی جا رہی ہے،اب تو ہماری کرنسی افغانستان کی کرنسی سے بھی نیچے جا چکی ہے۔زراعت پر منحصر اس ملک میں اب کسان کنگال ہوگیا ہے،غریب دن بہ دن غریب ہی ہوتا جا رہا ہے،مہنگائی نے عام لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے،نوجوان روزگار کی تلاش میں در بدر کی ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہے،فرقہ پرستی اپنے عروج پر ہے،اقلیتوں،پچھڑے طبقات پر ظلم کی انتہا ہوگئی ہے۔ایسے حالات میں یہ حکومت نوٹ بندی کی طرح ملک کا نام تبدیل کرنے کی حماقت کرنے جا رہی ہے۔ملک کا دستور بنانے والوں کو اس بات کا احساس تھا کہ ایک دن اس ملک کا اقتدار فرقہ پرستوں اور نادانوں کے ہاتھ میں آئے گا اسی لئے ملک کے دستور میں ملک کے نام کو لے کر وضاحت کر دی گئی تھی۔دستور کی پہلی ہی دفعہ میں کہا گیا:India,that is Bharatبہت ہی آسان اور سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ ‘انڈیا’ہی ‘بھارت’ہے،اس کو بدلنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
آج اگر اس ملک میں کچھ بدلنا ہے تو ملک کا نام نہیں بلکہ لوگوں کی حالت بدلنے کی ضرورت ہے۔آج بھی اس ملک کی قریباً34ملین آبادی سطح غربت کے نیچے زندگی گزار رہی ہے،جو کہ کیرلہ ریاست کی آبادی کے برابر ہے۔بھوک مری میں ملک 121ویں مقام پر ہے،23%ملک کا نوجوان بے روزگار ہے،معاشی صورتِ حال بدتر ہے،45%بچوں کی موت(پانچ سال تک کی عمر کے) غذائیت کی کمی کی وجہ سے واقع ہوتی ہے،سوچہ بھارت جیسی ا سکیموں کے ڈھینڈورے پیٹھنے کے باوجود ملک میں ابھی بھی قریباً48%آبادی کے لئے بیت الخہ کا نظم نہیں ہے۔G-20سمیت کے لئے ہزاروں خاندانوں کے گھر اُجاڑے گئے ان کے لئے کوئی متبادل نظم نہیں کیا جا سکا،بلکہ ملک کی غربت کو چھپانے کے لئے جھونپڑیوں پر پردے ڈالے گئے ہیں،اقلیت،دلیت اور کمزور طبقات ابھی اپنے حقوق کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہیں ہیں۔۔۔غرض ملک میں مسائل کا امبار ہے ایسے میں ملک کانام بدلنے سے ان کے حالات بدلنے والے نہیں ہیں بلکہ عام عوام کے حالات اور بدتر ہوجائیں گے،اگر واقعی حکومت ملک کانام بدلنے کا فیصلہ لیتی ہے تو یہ عوام ہی ہی ہے جس کو پھر ایک بار اپنی روز مرہ کی زندگی کے مصروفیات کو چھوڑ کر لائنوں میں کھڑا ہو نا پڑے گا۔
اس ملک کے کسی بھی شہری کو اس بات سے کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ہمارے ملک کو بھارت کہہ کر مخاطب کیا جائے،بلکہ عام شہری زیادہ تر یہی نام استعمال کرتے ہیں،’انڈیا’تو سرکاری کچریوں میں حکومت کی گلیروں میں زیادہ استعمال ہوتا ہے۔اختلاف اس بات پر ہے کہ ملک کی عوام کے حالات کو بدلنے کے بجائے ملک کے نام کو بدلنے پر ترجیح دی جا رہی ہے،جس سے اس ملک کے عوام کا کوئی بھلا ہونے والا نہیں ہے۔اختلاف اس بات پر ہے کہ اپنے گندے سیاسی مقصد کے لئے ملک کے نام کو بدلنے کی سازش ہو رہی ہے،نہ کے وطن کی محبت میں،اختلاف اس بات پر ہے کہ یہ ملک عوام کا ہے نہ کہ کسی ایک خاص آئڈیالوجی کو ماننے والوں کا،عوام سے اس سلسلے میں کوئی مشورہ کئے بغیر فیصلہ لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جس طرح ہمارے ملک کے اندر کئی مذہب ہیں بے شمار تہذبیں ہیں،ہزاروں زبانیں ہیں اور ان سب سے ہی ہمارے ملک کی خوب صورتی بڑھتی ہے،اسی طرح اس ملک کے تین نام ہیں،بھارت،انڈیا اور ہندوستان،ہر نام میں ایک الگ خصوصیت ہے۔ضرورت نام بدلنے کی نہیں ہے بلکہ اس ملک کے عوام کی حالت بدلنے کی ہے،نام کے بدلنے سے حالات نہیں بتدلتے،اب عوام کو فیصلہ کر نا ہے کہ واقعی اگر اس ملک کے اور ملک کے باشندوں کے حالات اگر بدلنا ہے تو اسوقت ملک میں برسرِ اقتدار اس فرقہ پرست حکومت کو بدلنا ہے۔ بی جے پی کی یہ بوکھلاہٹ اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر حزبِ اختلاف پارٹیاں اسی طرح متحد ہو کر آئندہ آنے والے پارلیمانی انتخابات میں مقابلہ کر تی ہیں تو اس فرقہ پرست،عوام دشمن حکومت کا دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکا جا سکتا ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!