ہندی اسکولوں اورہندی زبان کے ادیبوں پر منڈلاتے خطرات

0
Post Ad

بیدر۔ 14ستمبر (محمدیوسف رحیم بیدری) آج 14ستمبر ہے، آج کادن ”ہندی دیوس“ کے لئے مختص ہے۔ ہندی جو ہندوستان اورشمالی ہند کی کئی ریاستوں کی سرکاری زبان ہے۔ لیکن دیکھنے میں آرہاہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی سرپرستی کے باوجود ہندی اسکول بند ہونے کی کگار پر پہنچ چکے ہیں۔ اس تعلق سے اردوکے معروف نقاد اور شاعر جناب اشعر نجمی نے ایک مضمون بعنوان ”اردواسکولوں کی طرح ہندی اسکول بھی خطرے میں“ تحریر کیاہے جس میں بتایاگیاہے کہ انگریزی کے سواتمام اسکول خطرے میں ہیں اور ہندی اسکول میں وہ بچے پڑھتے ہیں جن کے والدین ا نہیں انگریزی اسکولوں میں پڑھانے کی سکت نہیں رکھتے۔ بیشتر ہندی اخبار بھی تقریباً اردو اخباروں کی طرح ایک کمیونٹی میں سمٹ چکے ہیں۔ انھوں نے ارون دھتی رائے، وکرم سیٹھ اور چیتن بھگت جیسے ادیبوں کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ یہ ادیب اپنے لکھے کی کمائی کھارہے ہیں اور انہیں زندگی کی جدید سہولتیں میسر ہیں۔ صرف اسلئے کہ یہ لوگ انگریزی میں لکھتے ہیں۔ ہندی کے دیگر ادیب نرمل ورما، راجندر یادو، اُدے پرکاش وغیرہ ہندی میں لکھتے ہیں لیکن ان کی زندگی ہندی میں لکھ کر کھانے کمانے جیسے مقام تک نہیں پہنچ سکی ہے جبکہ مرکزی حکومت اور آدھا درجن سے زائد ریاستوں کی سرکاری زبان ہندی ہے۔ اشعر نجمی نے الزام لگایاہے کہ ہندوستا ن میں بڑے اورقومی سطح کے فیسٹیول انگریز ی لکھنے والوں کو دھیان میں رکھ کر ہی منعقد کئے جاتے ہیں اور زیادہ تر ہندوستانی ادیبوں کی انگریزی میں لکھی کتابیں ”ائرپورٹ لٹریچر“ ہوتی ہیں۔ موصوف کااندازہ ہے کہ ہندی اور اردو زبانیں مرجائیں گی کوئی پہلے مرے گی اور کوئی بعد میں۔ ان حقائق کو سامنے رکھ کر اردو والوں کو اپنی زبان، اپنے اردو مصنفین اوراپنے اردواخبارات کو بچانے، انہیں زندہ رکھنے اور سہارا دینے کے لئے آگے آنا ہوگا۔ اشرف المخلوقات کامرنا جب برحق ہے تو پھر زبانیں کس شماروقطار میں ہوں گی۔وہ چاہے ہندی ہو، اردوہو یا پھر انگریزی ہو۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!