یوم آزادی کے پر مسرت موقع پر نوجوانوں کے خصوصی پروگرام کا انعقاد

0
Post Ad

آزاد ملک کے شہری ہونے کے ناطے اہل وطن سے ہمارے تعلقات نیکیوں کے فروغ اور برائیوں کے ازالہ کےتحت قائم رہنے چاہئے

یوم آزادی کے پرمسرت موقع پر ایک خصوصی پروگرام کا اہتمام کیا گیا موضوع تھا ہندوستان کی آزادی کی جنگ میں مسلمانوں کا کردار اور ہماری ذمہ داریاں۔اس اجلاس کا انعقاد انسٹی ٹیوٹ آف ٹریننگ فار قرآنک ایپلیکیشنز (اتقان)رائچور کی جانب سے عمل میں آیا۔مولوی عبد القدوسؒ کانفرنس ہال میں منعقدہ اجلاس کا آغاز قرات کلام پاک سےہوا‘ حافظ محمد اویس نے سورہ الفرقان کی منتخب آیات کی تلاوت کی۔ اس کے بعد محمد فرقان‘ مبین احمد اور محمد عبد اللہ نے اقبال کا ترانہ ہندی اپنی خوبصورت آواز میں پیش کیا۔ سید آصف محی الدین صاحب نے افتتاحی کلمات ادا کرتے ہوئے مہمانوں اور حاضرین کااستقبال کرتے ہوئے پروگرام کی غرض و غایت واضح کی اور اتقان کی سرگرمیوں کا تعارف کرایا۔اور بتایا کہ ہمارے پروگراموں کا مقصد شہر میں ایک خوشگوار دینی ماحول فروغ دینا ہے تاکہ قرآن وسنت پر عمل کے لئے انفرادی و اجتماعی سرگرمیاں انجام دینا ممکن ہو۔

اس کے بعد مولانا محمد نظام الدین صاحب رشادی ‘سابق امام مسجد فاطمہ رائچور نے پروگرام کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے1754سے اس ملک کی حفاظت اور آزادی کے لیے کی گئی منظم جدوجہد کا تفصیلی بیان کیا۔ علمائے کرام کی بیش بہا قربانیوں کا ذکر کیا۔ شاہ عبد العزیز دہلویؒ کے بعد کے دور سے علمائے کرام کی سخت محنت و جانفشانی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اس ملک کی آزادی کی اصل لڑائی مسلمانوں کی تھی کیونکہ انہیں کے تخت سلطنت پر انگریز جبراً قابض ہوگئے تھے۔پھر اس کے بعد اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کا تعاون رہا اور سب نے مل کر ملک کو آزادی دلائی جسے آج ہم بخوشی منارہے ہیں۔ اس ذیل میں مولانا نے علمائے دیوبند کے کردار کا خصوصیت کے ذکر کیا ۔

اس کے بعد ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ ہم مسلمانوں کو یہاں اپنے اچھے اخلاق و کردار سے لوگوں کا دل جیتنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ محنت و جفاکشی اور جرات و ہمت ہماری پہچان بن جانی چاہیے۔اچھے اخلاق کے مظاہرے کے معنی ہرگز ظلم سہنے کے نہیں ہے‘ بلکہ ظلم کو مٹانے اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے لئے جس حسن وسلیقہ اور حکمت کی ضرورت ہے‘ اس کا اظہار گویا ہمارے اخلاق ہونے چاہئے۔

اجلاس کا اختتامی خطاب کرتے ہوئے اتقان کے ڈائریکٹر محمد عبد اللہ جاوید صاحب نے کہا کہ آزادی ہند میں مسلمانوں کے غیر معمولی کردار اور عظیم قربانیوں سے پوری دنیا واقف ہے۔ اب جبکہ وطن عزیز میں تاریخ کو مسخ کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی‘ ہمیں آگے بڑھ کر خود بھی اپنے اسلاف کی عظیم تاریخ سے واقفیت حاصل کرنی چاہیے اور نوجوان نسل کو بھی اس سے واقف کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں آزادی ٔ ہند کے لئے مسلمانوں کے اتحاد واتفاق کے ساتھ مشترکہ جدوجہد ‘ہزاروں کی تعداد میں علمائے کرام کی شہادتیں اور منظم تحریکی جدوجہد کے خدوخال واضح کرنے چاہئیں۔

آپ نے ذمہ داریوں کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ وطن کی محبت داخلی نہیں بلکہ یہ اندرونی چیز ہے۔یہ انسانی فطرت میں گویا گوندھ دی گئی ہے۔ وطن سے محبت کے صرف دعوی کے بجائے اس کے تقاضوں کی ادائیگی پر توجہ کرنی چاہئے۔ سب سے بڑا اور اہم ترین تقاضہ یہی ہے کہ یہاں کے باشندگان کے ساتھ ہمارے تعلقات نیکیوں کے فروغ اور منکرات کے ازالے کے تحت قائم رہنے چاہئے۔اللہ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو سارے انسانوں کی ہدایت واصلاح کے لئے پیدا کیا ہے (سورہ آل عمران آیت ۱۰) لہذا اس مقصد کے علاوہ انسانوں سے جڑے رہنے کا کوئی اور محرک نہیں ہوسکتا۔ نیکیوں کے فروغ کے لئےبطور خاص دستور ہند میں درج تمہید کے وہ اخلاقی اقدار پیش نظر رہنے چاہئےجو سماج کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ضروری ہیں۔ جیسے عدل وانصاف‘آزادی‘ مساوات کے علاوہ فرد کی عظمت اور قوم کے اتحاد کے لئے اخوت کی ترقی ۔اور جہاں تک منکرات کے ازالہ کا تعلق ہے ہمیں آگے بڑھ کر نفرت اور دشمنی کو ختم کرنا چاہئے اور ان تمام برائیوں کے ازالہ کی کوشش کرنی چاہئے جن سے انسانی زندگی دشوار ہوتی ہے۔آپ نے انسانوں کے درمیان نیکیوں کو پھیلانے اور برائیوں کو مٹانے کی اہمیت واضح کرتے ہوئے ایک حدیث قدسی کا حوالہ دیا جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر یہ کام نہ کیا جائے تو نہ دعائیں قبول ہوں گی‘نہ کچھ عطا ہوگا اور نہ ہی کسی قسم کی مدد میسر آئےگی۔

اس اجلاس میں مولانا محمد شاکر محی الدین صاحب خطیب و امام مسجد امام الانبیارائچور کی تہنیت کی گئی ۔ انہوں نے امامت اور خطابت کے فرائض انجام دیتے ہوئے ایم اے اور بی ایڈ کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ اب عصری تعلیمی ادارے میں درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔مولانا شاکر صاحب کی زندگی کا واضح پیغام ہے کہ آج کے دور میں ہمارے ائمہ مساجد کے سامنے علم حاصل کرنے کے بے شمار مواقع ہیں۔ ان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ خود مکتفی بن سکتے ہیں اور بڑی عظمت اور وقار کے ساتھ امامت وخطابت کے فرائض انجام دے سکتے ہیں۔اسی سے ممکن ہے کہ ان کی حق گوئی اور بے باکی کے لئے کسی پر منحصر رہنے کا احساس مانع نہیں ہوگا۔

اس خصوصی اجلاس کے موقع سے مضمون نویسی کا مقابلہ رکھا گیا تھا جس کے لئےمرزا محمد کلیم بیگ صاحب کو انعام سے نوازا گیا۔آخر میں ڈاکٹر محمد کلیم صدیقی صاحب نے اظہار تشکر پیش کرتے ہوئے نوجوانوں کی اصلاح و تربیت کے لئے شہری سطح پر ایک خصوصی ماحول کے فروغ کی اہمیت واضح کی اور کہا کہ ہمارے نوجوانوں کو اس ضمن میں آگے آنا چاہئے۔سید نذیر احمد قادری صاحب نے نظامت کے فرائض انجام دیئے اور تلاوت کردہ آیات کی اردو ترجمانی پیش کی۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!