آپا انتقال کر گئیں

محمد یوسف کنی،معاون امیر حلقہ، جماعت اسلامی ہند کرناٹک، موبائل:9845447817

0
Post Ad

آپا حمیدہ بیگم کی حیات و خدمات پڑھنے کا موقع ملا تھا۔ مرحومہ کی زندگی میں تحریکی شعور،اقامت دین کے لئے جدو جہد، انسانوں کی خدمت اور اپنے خاندان سے اچھے روابط کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ٹھیک اسی طرح ریاست کرناٹک کی تحریکی شخصیت آپا امت الرزاق صاحبہ کی تھی۔آپا کی طبیعت اچانک دو دن پہلے خراب ہوگئی اور 14/رمضان المبارک 1443بروز سنیچر شام 4بجے انتقال کر گئیں.اناللہ و انا الیہ راجعون.
آپا کا آبائی وطن میسور ہے،میسور کی مٹی میں بہادری اور جفاکشی ہے۔آپا کے کل 4بھائی اور 3بہنیں ہیں،والدین کی چہیتی اور آخری بیٹی تھیں،مرحومہ نے Bsc مکمل کرلیا تھا، ایم ایس سی میں داخلہ لینا چاہتی تھیں،لیکن حالات نے موقع نہیں دیا۔ایک اچھا رشتہ آیا والدین نے پسندفرمایا اورصالح نوجوان عبد الکریم صاحب سے آپ کا نکاح ہوگیا۔فاریسٹ ڈپارٹمنٹ میں ملازمت کی وجہ سے جناب عبدالکریم صاحب کا تبادلہ 1974میں بنگلور ہوگیا۔مولانا عبدالرحیم فیضی صاحب رحمت اللہ علیہ (رکن جماعت) کے خطبات جمعہ سے متاثر ہوئے۔
مولانا مودودی رحمت اللہ علیہ کی بنیادی کتابیں گھر پہنچنا شروع ہوگئیں اورآپا ان کتابوں کا مطالعہ کرتی رہیں۔جناب عبدالکریم صاحب کی یہ چھوٹی سی فیملی 1980میں بیدر پہنچ گئی،مولانا محمد فہیم الدین صاحب سے ملاقات تحریک سے مزید قریب ہونے کا موقع ملا۔آپا خواتین کے اجتماعات میں شریک ہو رہی تھیں،گھر کا ماحول بدل رہا تھا۔آپ کی صلاحتیں اور صالحیت کو دیکھ کر جناب شاہ صدیق محی الدین قادری صاحب (مرحوم) امیر مقامی بیدر نے مقامی ناظمہ مقرر فرمایا،1997میں آپا کی رکنیت منظور ہوئی۔اس کے بعد ضلعی ذمہ دار بیدر،شعبہ خواتین کی ممبر،معاون ناظمہ شعبہ خواتین کرناٹک،ناظمہ خواتین حلقہ کرناٹکا، معاون ناظمہ شعبہ خواتین جماعت اسلامی ہند،حلقہ کرناٹکا کی رکن شوریٰ،نمائندگان کی رکن اور سیکریٹری حلقہ شعبہ خواتین کی ذمہ داریاں ادا کرتی رہیں۔رواں سال آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی ممبر مقرر ہوئی تھیں۔آپاحلقہ کے شوری کی اجلاسوں میں نپی تلی گفتگو کرتے ہوئے اپنی بات کو واضح کیا کرتی تھیں۔جب بھی خواتین کا ایشو آتا آپا لازماً اپنی بات کو پیش کیا کرتی تھیں۔نظم و ضبط کی بڑی پابند تھیں، اپنی ذمہ داری کو لیکر فکر مند رہتی تھیں، نئی بہنوں کو تحریک سے وابستہ کرنے کی مختلف کوششیں کیا کرتیں تھیں۔جی آئی او سے فارغ طالبات پر نگاہ رکھتیں تھی۔ان کے درمیان رہنا،ان کے مسائل کو حل کرنا ا ور انہیں جماعت کا لٹریچر دینااپنی ذمہ داری سمجھتی تھیں۔جہاں جہاں آپا کو جانا ہواتھا وہاں کی خواتین آج بھی یاد کرتی ہیں۔انتقال کی خبر پھیل گئی تو کئی مقامات سے یہ بات سننے میں آئی کہ خواتین روپڑیں۔
غریب،مسکین خواتین اور یتیم بچیوں کا خاص خیال رکھتی تھیں اور ان کی بنیادی مسائل کو حل کیا کرتی تھیں۔گزشتہ سال لاک ڈاؤن کے ختم ہونے پر اپنی بیٹی کے گھر گئیں تو وہاں بیمار ہوگئیں،علاج چلا تو معلوم ہوا کہ کینسر ہوا ہے۔علاج جاری رہا،ڈاکٹروں نے علاج پر اطمینان کا اظہار کیا تو دوبارہ بنگلور منتقل ہو گئیں۔ ایک ماہ قبل منعقدہ اجلاس شوری میں شریک رہیں۔سیکولر تعلیم سے آراستہ ہونے کے باوجود اس کا اثر آپا کی زندگی میں نظر نہیں آتا تھا،وہ ملت کی بیٹیوں میں اسلامی عقائد و تعلیمات کو آسان زبان میں پیش کیا کرتی تھیں اور انہیں آنے والے خطرات و درپیش مسائل سے آگاہ کیا کرتیں۔
اکثر وہ کہا کرتی تھیں کہ وقت بہت کم ہے اور کام زیادہ ہے۔ حوصلہ اور ہمت کی باتیں کیا کرتی تھیں۔خواتین سے خطاب کرتے ہوئے یہ ضرور کہا کرتی تھیں کہ ذمہ داریاں نئی نسل کو منتقل کرنا ہے،اس کے لئے ان کی تربیت لازمی ہے۔ آپا امت الرزاق صاحبہ (مرحومہ) خدمت انسانی میں، مزاج،عادات اور خصائل آپاحمیدہ بیگم مرحومہ سے مشابہہ تھے۔ غریبوں اور مسکینوں کی امداد کے علاوہ بعض ایک کو قرض حسنہ دیا کرتی تھیں، مقررہ وقت پرجو لوگ قرض واپس نہیں کر سکے ان کو معاف کر دیا ہے،ایسی مثالیں موجود ہیں۔ اپنے بھائی بہنوں اور دیگر افراد خاندان کے ساتھ اچھے روابط تھے۔آپا کے بڑے بھائی مکرم صاحب نے بتایا کہ امت الرزاق پابندی کے ساتھ ملاقات کے لئے میسور آیا کرتی تھیں۔اپنی ایک بیٹی کو اپنے بھائی کے فرزند کی زوجیت میں دیدیا۔اپنے بچوں کے نکاح میں شریعہ تعلیمات کو مقدم رکھا اور تحریکی گھرانوں کو ترجیح دی۔آپا کو رفاہی کاموں میں دلچسپی تھی۔بورویل کی کھدائی،مسجد اور مدارس کے لئے امداد پر توجہ کیا کرتی تھیں۔ کوویڈ سے یتیم ہونے والے بچوں کی امداد کے لئے جماعت سے اپیل کی گئی تو آپا نے سب سے پہلے ایک لاکھ روپئے بیت المال میں جمع کروا دئے۔باگلکوٹ کی ایک مسجد میں پانی کی قلت تھی تو بورویل کی ضرورت کو پورا کیا،الحمدللہ وافر مقدار میں پانی نکل آیا۔ مریضوں کی عیادت بھی کیا کرتی تھیں۔جب میں کوویڈ کی وجہ سے ہاسپٹل میں شریک تھا،اہلیہ نے بتایا کہ آپا کئی مرتبہ گھر تشریف لائیں اور گوشت،سبزی اور دیگر اشیاء خوردنی فراہم کیں اور دعائیہ کلمات کے ساتھ لوٹ جاتی تھیں۔
آپا کے انتقال سے ایک خلا محسوس ہورہا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات سے امیدہے کہ تحریک اسلامی کی گود میں ہزاروں کی تعداد میں ایسی بہنیں موجود ہیں جو اپنے آپ کو مثالی بنا سکتی ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحومہ کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت کرے،گھر والوں کو صبرجمیل عنایت فرماے اور تحریک اسلامی ہند کے لئے نعم البدل عطا فرمائے۔آمین

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!