زکوٰۃ (اولیاء اللہ کے ارشادات کی روشنی میں)

مرزا چشتی صابری نظامی، موبائل:8296162678

0
Post Ad

ارشادِ باری ہے ’نماز قائم کرواور زکوٰۃ دو‘ اوراس قسم کی بہت سی آیات ِ قرآن اوراحادیثِ پاک ہیں۔احکامِ شریعت اور ارکانِ ایمان میں سے ایک فرض زکوٰۃ ہے اور جس پر زکوٰۃ واجب ہے اس کے لئے اس سے کسی قسم کے اعرض وروگردانی کی مطلق گنجائش نہیں۔ زکوٰۃ حسب ِ قاعدہ ادا کرنا واجب ہے۔حضرت علی ہجویری ؒ نے فرمایا زکوٰۃ (صرف مال ہی کو نہیں بلکہ) مرتبہ پر بھی واجب ہے کیوں کہ وہ بھی نعمت میں شمار ہوتاہے۔ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے کہ۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہارے مرتبے کی زکوٰۃ فرض کی ہے جیسے کہ تمہارے مال پر زکوٰۃ فرض کی گئی ہے۔ فرمایاکہ ہر چیز کی زکوٰۃ ہے، گھر کی زکوٰۃ ضیافت خانہ ہے۔ اور زکوٰۃ کی حقیقت ہی یہ ہے کہ ہر نعمت پر خدا کاشکر اداہوتارہے اور نعمت کی بہت سی اقسام میں سے ایک نعمت تندرستی بھی ہے، لہٰذا جسم کے ایک ایک عضوپر زکوٰۃ واجب ہے اور وہ یہ ہے کہ بندہ اپنے تمام اعضاء کو خدمت ِ الٰہی میں مستغرق اور عبادتِ حق میں مشغول رکھے تاکہ نعمت کا مکمل حق ادا ہوجائے اور اسی طرح باطنی نعمتوں پر بھی زکوٰۃ ہے جس کی حقیقت احاطہئ بیان سے باہر ہے کیوں کہ ان کاشمار ہی نہیں اور یوں کہہ دیناکافی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے شایانِ مقام زکوٰۃ ضروری ہے (سب سے بڑی زکوٰۃ تو ظاہری وباطنی نعمت کی معرفت ہے یعنی جب بندہ اس حقیقت سے آگاہ ہوجاتاہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اس پر بے حدو بے حساب ہے تو وہ شکر بھی بے حدو حساب کرتاہے اور یہی اس نعمتِ بیکراں کی زکوٰۃ ہے۔ نعمت ِ دنیا، دنیاوی مال واسباب پر زکوٰۃ ادا کرنا (ادائے فرض کے باوجود) صوفیاء کے نزدیک کوئی قابل ِ ستائش یا پسندیدہ بات نہیں کیوں کہ بخل ایک ناپسندیدہ چیز ہے اور بخل تمام کو بروئے کار لاکر ہی یہ ممکن ہوسکتاہے کہ کوئی شخص رقم کو بند اور محفوظ رکھے اور ایک سال کے بعد اس پر زکوٰۃ دے۔ بہتر یہ ہوتاہے کہ رقم جمع ہی نہ کرتا، محفوظ نہ کرتا، رقم استعمال کرتا اور اسی وقت سخاوت سے کام لیتا، راہِ حق میں خرچ کرتا۔ اہل کرم کاطریق، مال کو جمع کرنے کانہیں بلکہ خرچ کرنے کاہوتاہے اور سخاوت ان کی سرشت میں ہوتی ہے لہٰذا ان پر زکوٰۃ کون سے مال پر واجب ہوگی؟ زکوٰۃ کے تعلق سے حضرت شبلی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایاکہ جب بخل موجود ہو اور مال حاصل ہوتو حسبِ مذہب زکوٰۃ واجب ہے لیکن میری نظر وفکر میں کسی چیزکو اپنی ملکیت بنانا ہی نہیں چاہیے تاکہ زکوٰۃ کامسئلہ ہی نہ رہے۔ انہوں نے فرمایاکہ جب حضرت ابوبکر ؓ نے اپناسب مال ومتاع راہ ِ حق میں دے ڈالاتو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا، اے ابوبکر، اپنے اہل وعیال کے لئے کیاچھوڑ آئے ہو تو انہوں نے عرض کیا۔ اللہ، اللہ کے رسول (کوچھوڑ آیاہوں)۔ اس ضمن میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا، مجھ پر مال کی زکوٰۃ واجب نہیں (اہل کرم کامال تو سب راہِ حق میں خرچ کردیاجاتاہے) اور ان کی ملکیت میں کچھ رہتاہی نہیں۔ جس طرح زکوٰۃ کے ادا کرنے کاعلم ہونا ضروری ہے اسی طرح اس کے لینے کاعلم ہونا بھی ضروری ہے۔ بعض صوفیاء نے بھی زکوٰۃ لی ہے چوں کہ درویشی وفقیری پر (غربت اور مفلسی کے باعث) مجبورتھے، اس لئے وہ زکوٰۃ لے لیتے تھے تاہم مال زکوٰۃ جمع کرناان کامقصد نہیں رہابلکہ وہ چاہتے دراصل یہ تھے کہ اپنے مسلمان بھائی کی گردن سے ایک فریضے کابوجھ اُتار دیں (جن پرزکوٰۃ واجب ہے) اور یوں اونچاہاتھ وہی ہے جوایک واجب چیز کو اپنے بھائی کی گردن سے اُٹھالیتاہے تاکہ اس کی گردن کابوجھ ہلکا ہوجائے اور درویش اہلِ دنیا نہیں بلکہ اہلِ عقبیٰ ہوتے ہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!