چندنا’ شخصی قصیدہ خوانی کیندر؟! کٹ اینڈ پیسٹ کو اعلیٰ تحقیقی کام قرار دینا ادبی میعار کے تنزل کا شاخْسانَہ، ڈائریکٹری پر مذاکرہ کی بجائے گفتگو کا اہتمام جانب داری کا غماز

0
Post Ad

کلبرگی۔ (راست) دور درشن کیندر بنگلور کے چندنا پر 6 / اپریل 2024؁ء کی دو پہر دو بجے ‘ کرناٹک کے اُردو قلمکاروں کی ڈائریکٹری ‘ کے مُرَتَّب اور چندنا کی معزز میزبان کی ہوئی گفتگو پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر ماجد داغی نے اس گفتگو کو زَمِین آسْمان کے قُلابے ملانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ معزز میزبان کا تمہیدی کلمات میں کرناٹک کے قلمکاروں کا دیگر صوبوں کے شعراء، ادباء سے تقابل سے متعلق لغزشِ زبان لائقِ دَرْگُزَر ہے، تاہم ‘ کرناٹک کے اردو قلمکاروں کی ڈائریکٹری’ کے موضوع پر مذاکرہ (Debate) کی بجائے محض گفتگو (INTERVIEW)کے اہتمام کے ذریعے جُھوٹی سچْی باتیں ہانکنے سے ناظرین میں چینل کا وقار سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ ڈائریکٹری 2023ء کے مُرَتَّب کا اپنی گفتگو میں اس بات کے اعتراف کے بعد کہ انھوں نے عظیم الدین عظیم کی مُرَتَّبہ ڈائریکٹری سے کئی غیر ادیبوں و مُتَشاعِروں کے نام حذف کر کے مذکورہ ڈائریکٹری منظرِ عام پر لائے ہیں۔ علاوہ ازیں انھوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ اس ڈائریکٹری میں بہت سی کمیاں ہیں، طُرْفَہ تَماشَہ یہ کہ دوردرشن کی معزز میزبان نے اس پر بھی ڈائریکٹری کو ادب کے اعلیٰ درجے کا تحقیقی کام قرار دیکر ریاست کے تمام قلمکاروں کے تعارف کی شمولیت کا دعویٰ کرتی ہیں (جبکہ ماہرِ علمِ عروض و استاد شاعر پروفیسر وحید واجد اور ممتاز محقق و نقاد ڈاکٹر منظور احمد دکنی جیسے ریاست کے باوقار کئی قلمکاروں کا اس ڈائریکٹری میں ذکر تک نہیں) اس نا معقول ڈائریکٹری پر میزبان کا مہمان کو ڈاکٹرآف فلاسفی کا مستحق قرار دینے کی پُر زور کوشش پر یونیورسٹی گرانٹس کمیشن آف انڈیا (یو جی سی انڈیا) کو ہنگامی اجلاس طلب کرتے ہوئے فوری نافِذ العَمَل ‘بریکنگ آرڈر’ کے تحت اپنی تحقیقی تعلیم کی پالیسی پر نظرِثانی شدہ احکامات جاری کرنی چاہیے۔ مُرَتَّبہ کام کو تحقیق کی شِقّ قرار دینے والے موصوف کو یہ بات بھی ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ یوجی سی جہاں صرف تحقیقی و تنقیدی کام کو شمار کرتی ہے وہیں پر مُرَتَّبہ کام کو (اگرچہ یہ تحقیق کی قابلِ قبول شِقّ ہے تو) کیوں مسترد کرتی ہے. معلوم ہوا کے گدھا یقیناً گھوڑ نما ضرور ہے مگر گھوڑا تو کُجَا، خَچَّر بھی ہرگز نہیں۔ دور درشن کیندر بنگلور کا مذکورہ چندنا پروگرام اگر مُرَتَّب کا اشتہار ہے تو کچھ کہا نہیں جاسکتا برخلاف اس کے اگر یہ سرکاری پروگرام ہے تو اس کے لئے مسٹر محمد ذبیح اللہ پروگرام پروڈیوسر بھی جواب دہ ہیں کہ اس میں کسی کو کیوں غیرضروری پروجیکٹ کیا گیا ہے؟ جبکہ ریاست میں مختلف ادبی موضوعات پر اعلیٰ درجہ کے سینکڑوں تحقیقی کام اندرون و بیرون جامعات بہ حسن و خوبی انجام پاتے ہیں جن میں اندرون جامعات قلمبند تحقیقی مقالات پر اسکالرز کو ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں تفویض کی جاتی ہیں تاہم کیا یہ بتایا جاسکتا ہے کہ ان میں کتنے مقالات کے موضوعات پر اسکالرز کو دوردرشن نے دعوتِ مذاکرہ و گفتگو دی ہے یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ریاست بالخصوص کلیان کرناٹک سے اسی ایک شخص کو بار بار پروجیکٹ کئے جانے میں دوردرشن کے کیا مفادات ہیں؟ان تمام تر تلخ حقائق کے باوجود موصوف کا یہ دعویٰ کہ ‘ کرناٹک کے اردو قلمکاروں کی ڈائریکٹری’ کا یہ چوتھا ایڈیشن ہی دستاویزی حیثیت کا حامل ہے تو وہ یہ جان لیں کہ ہر وہ شے جو اپنے اندر صحیح،درست، مستند، فائق اور قابلِ اعتبار قطعی مستند معلومات پر مبنی مواد (Data) کا اندراج رکھتی ہو دستاویز یا (Document) کے زمرے میں شامل ہے جسے اسکالرز حوالہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں. مِن حَیثُ المَجمُوعی غیر مستند اور ذاتی مخاصمتوں کی بنیاد پر تیار کسی بھی جھوٹ کے پلندہ کو دستاویز کا نام دیا جانا دراصل آنے والی نسلوں کو گمراہ کرنا ہے۔ لہٰذا جس ڈائریکٹری میں کئی قومی سطح کے معروف و معتبر مصنفین کا ادھورا اور بعض پختہ کار ممتاز اَساتِذَہ سُخن کا مکمل تعارف ہی سرے سے حذف کر دیا گیا ہو ایسی ڈائریکٹری کو کسی صورت بلکہ ہرگز ہرگز ایک دستاویزی حیثیت کی حامل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ڈاکٹر وہاب عندلیب سابق صدرنشین کرناٹک اردو اکیڈمی کی مجلسِ ادارت میں شائع ڈائریکٹری پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے چندنا کے مہمان نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ ڈائریکٹری میں شامل 156 سے زائد قلمکار، قلمکار نہیں تھے؟ جنھیں حذف کر دیا گیا ہے. اس خصوص میں موصوف سے اس بات کا پُر زور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ حذف شدہ قلمکاروں کی فہرست جاری کرنے کی جرات فرمائیں تاکہ دُودھ کا دُودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!