کارنجہ ڈیم کے متاثرین کا دھرنا تیسرے دن میں داخل کارنجہ ڈیم کے باعث گاؤں بسانے والاخاندان بھی کھانے دانے کو محتاج ہوگیا،28گاؤں کی ہزاروں ایکڑ زمین کے مالکان انصاف کے منتظر

0
Post Ad

بیدر۔ 3/جولائی (محمدیوسف رحیم بیدری) کارنجہ متاثرین کادھرنا آج 3/جولائی کو تیسرے دن میں داخل ہوچکاہے۔ وہ گذشتہ تین دن سے بیدر مسافر بنگلہ کے روبرو، نزد امبیڈکر سرکل دن رات دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ آج جناب محمد نسیم الدین پٹیل نے بتایاکہ کارنجہ ڈیم میں 28گاؤں کی اراضی چلی گئی ہے۔ اور ان 28گاؤں والوں کے متاثرین نے طئے کیاہے کہ روزانہ ایک ایک گاؤں والے یہاں رات دن دھرنے پربیٹھیں گے۔ آج کا دھرنا ہچکنلی گاؤں والوں کے حصہ میں آیاہواہے۔ موصوف نے مزید کہاکہ جس وقت اراضی کارنجہ ڈیم میں چلی گئی تو ایک گاؤں کے 50کسانوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تو انہیں معاوضہ مل گیا۔ اور جو عدالت نہ جاسکے، انہیں کچھ نہ ملاجس کے سبب کسانوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوسکا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اراضی کواکوائر نہ کرنے کے بعد بھی پانی لاکر ٹہرا دیاگیا۔ اور 4سال تک اس اراضی کامعاوضہ نہیں دیاگیا۔ یہاں تک کہ محکمہ آبپاشی کا نام پہانی میں بھی غلط طریقے سے آگیا۔ جناب ویربھدراپن نے بتایاکہ کارنجہ ڈیم کے سبب 15,500ایکٹر اراضی متاثر ہوئی ہے۔ اور اسکے علاوہ مزید اراضی بھی ڈیم کی ترقی کے حوالے ہوچکی ہے۔ یہ جو اراضی تھی وہ A+گریڈ کی اراضی تھی۔ آج جب ہم لینڈ ایکویزیشن دفتر جاتے ہیں تو وہاں کوئی ذمہ دار افسر نہیں ہوتا۔ کبھی افسرمل بھی جاتے ہیں تو اچھے طریقے سے جواب نہیں دیتے۔ کارنجہ مڑوگڈے سنترسترا ہتا رکشنا سمیتی بیدر تنظیم کے تحت یہ دھرنا دیاجارہاہے۔ تنظیم کے جنرل سکریڑی ناگشٹپا ہچی ریکڑگی نے ایک سوال کے جواب میں بتایاکہ کارنجہ متاثرین کی اراضی اور مکانات کامعاوضہ لینے تک ہم یہ دھرنا ختم نہیں کریں گے۔ میں وہ شخص ہوں جس کے خاندان والوں نے ریکڑگی گاؤں بسایا۔ آج میں صرف پانی پی کر زندہ رہ رہاہوں۔ 1984؁ء میں کچھ رقم کارنجہ متاثرین کو دی گئی۔ میری اہلیہ کو ٹیچر پوسٹ نہیں دی گئی اور نہ ہی مجھے کوئی ملازمت ملی۔ 1984؁ء کو کارنجہ ڈیم والوں کو فی ایکڑ3ہزار روپئے رقم حکومت نے دیا۔ لیکن گلبرگہ ضلع کے ملاماری پراجیکٹ میں جواراضی چلی گئی وہاں کے کسانوں کو 1986؁ء میں 30ہزار روپئے فی ایکڑ رقم دی گئی۔ 1986؁ء کو ہم بھی عدالت گئے تو ہمیں 6ہزار روپئے کافیصلہ ملا۔ جبکہ ملاماری پراجیکٹ (گلبرگہ) والوں کو 60ہزار روپئے ملا۔ یہ بات مجھے اس وقت معلوم نہیں تھی کیونکہ میں زیر تعلیم تھا اور قانون کی پریکٹس کر رہاتھا۔ اسی طرح کاشماں ہنمنت راؤ عدالت گئیں توانہیں فی ایکڑ 11-12ہزار روپئے ملے۔ اس کے بع دوبارہ کورٹ سے رجوع ہوئیں تو 2015؁ء میں انہیں فی ایکڑ 88ہزار روپئے معاوضہ ملا۔ اب ہم اسی بنیاد پر لڑرہے ہیں۔ ہماری زندگی پوری طرح تباہ ہوچکی ہے۔ ہمارے درمیان 150افراد ہیں جن میں سے 70افراد وہ ہیں جن کی جان خطرے میں ہے۔ ریکڑگی بسانے والے ہم ہیں لیکن آج ہم ہی کھانے دانے کومحتاج ہیں۔ ہم میں سے 4خاندان ایسے ہیں جن کی 700ایکڑ اراضی کارنجہ ڈیم میں چلی گئی ہے۔مسلمانوں کی 1500ایکڑ سے زائد اراضی کارنجہ ڈیم میں جاچکی ہے۔ اس موقع پر جناب سنگرامپا ہندوڈّی مؤظف مدرس کھینی رنجہول، ویربھدرپا اُپن، جناب محمد نسیم الدین پٹیل سابق صدر ضلع پنچایت بید ر، الحاج محمد منان پٹیل سابق چیرمین PKPSہچکنلی، ویرشٹی مالی پٹیل ہچکنگی اور رکن گرام پنچایت، مرزا اختر بیگ، محمد متین سیریکار، عبدالجلیل بگدل، وشواناتھ برادار، پربھوشٹی اپانیلواڑ، وغیرہ موجودتھے۔ واضح رہے کہ یکم جولائی کوچندر شیکھرپاٹل ہچکنلی کی قیادت میں ریکڑگی کے شمبھولنگ دیوستھان سے 38کیلومیٹر پدیاتر اکرتے ہوئے کارنجہ متاثرین کسان بیدر پہنچے ہیں جن کے ساتھ کسان قائد جناب نسیم الدین پٹیل نے بھی 38 کیلومیٹر کی پدیاترا کی ہے اور اب یہ تمام لوگ حکومت سے فریاد کررہے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف کیاجائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ان کے ساتھ کیاسلوک کرتی ہے؟

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!