کرناٹک ریاستی انتخابات 2023 ,بیدر جنوب، ہمناآباد اور بسواکلیان اسمبلی حلقوں میں کانگریس کے امکانی امیدواروں کاتجزیہ

راج شیکھرپاٹل اشٹور۔ موبائل:9448128346

0
Post Ad

قومی شاہراہ65 سے متصل بیدر ضلع کے 3 حلقوں بیدر جنوب، ہمناآباد اور بسواکلیان میں کانگریس پارٹی سے متعلق تجزیہ پیش کیاجارہاہے۔
بیدرجنوب:۔نیا اسمبلی حلقہ بیدر جنوب دراصل بیدر اور ہمناآباد کے درمیان سے نکالاگیاہے۔ یہ ڈی لمیٹیشن 2008میں ہوا۔ 2008 میں عبدالصمد صدیقی ایڈوکیٹ کانگریس کے امیدوار تھے لیکن اس امیدوار کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔بنڈپا قاسم پور جو 2004 میں بیدر سے آزادامیدوار کی حیثیت سے ریکارڈ مارجن کے ساتھ جیتے تھے، وہ جے ڈی ایس میں شامل ہوکر2008کے انتخابات میں
بیدر جنوب سے بہت کم مارجن سے بی جے پی کے امیدوار سنجے کھینی سے انتخاب جیت پائے تھے۔ 2013 میں اشوک کھینی کو ہندوستانی نژاد امریکی کہا جاتا تھا، ایک دماغ جس کے پیچھے بنگلور-میسور کے نندی کوریڈور سڑک کا کام تھا۔انھوں نے ٹول روڈ کا تصورکرناٹک حکومت کو دینے میں 1995-96میں اہم کرداراداکیا، وہ بیدرجنوب کی نشست سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے اچھے مارجن کے ساتھ جیت حاصل کی۔ تب سے وہ ایک سے دوسرے قانونی عدالتی مقدمات میں گھسیٹے جارہے ہیں۔ گزشتہ عام انتخابات2018 کے موقع پر وہ کانگریس پارٹی میں آخر میں شامل ہوکر امیدواربنے تھے لیکن انتخاب ہار گئے۔ انھیں غیرسنجیدہ امیدوار ہونے کے الزام کا سامنا ہے۔ ان کے لئے سیاست اتنی اہم نہیں ہے جتناکے کاروبار اہم ہے۔ بنڈپاقاسم پور نے دوسری بارجنتادل (یس) کے ٹکٹ پریہ نشست جیت لی۔ اور کمارسوامی حکومت میں وہ دوسری مرتبہ وزیر بن گئے اور پہلی دفعہ جس وقت وہ بیدر ایم ایل بنے تھے،تب بھی وہ وزیر بنے تھے۔
2023 میں امکان:۔تقریباًتمام امکان ہے کہ موجودہ ایم ایل اے بنڈپاقاسم پور کے ساتھ 2023؁ میں کثیر الجہتی مقابلہ ہوگا۔عآپ کے امکانی امیدوار نسیم الدین پٹیل، کانگریس پارٹی کے اشوک کھینی (سب سے زیادہ امکان)بی جے پی کے بیلداڑے یا سنجے کھینی، کوئی جانا پہچانا چہرہ بی ایس پی کے ٹکٹ پرہوگا اور چندرا سنگھ آزادامیدوار ہوسکتے ہیں۔ اس حلقے میں کرناٹک کی 3 بڑی پارٹیاں کانگریس، بی جے پی اور جے ڈی ایس برابری کی سطح پر ہیں۔
IFs اور BUTs:۔ 2023 میں کون ہوگا کانگریس کا امیدوار؟ان کے ماضی2018؁ء کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اشوک کھینی سب سے آگے ہیں۔اس سے قبل 2008 اور 2013 میں کانگریس پارٹی نے اس حلقہ سے بہت خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔کانگریس کو جن 3 حلقوں میں اپنا ہوم ورک احتیاط سے کرنے کی ضرورت ہے ان میں بیدر جنوب، بسواکلیان اور اوارد شامل ہیں۔کیوں کہ بیدر جنوب اور بسواکلیان ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ اگر کانگریس پارٹی بسواکلیان سے مالابی نارائن راؤ کو ٹکٹ دینے سے انکار کر دیتی ہے تو اس کا اثر بیدرجنوب پر پڑے گا۔ اگر اشوک کھینی کو بیدر جنوب میں پارٹی ٹکٹ دینے سے انکارکرتی ہے تو اس کا اثربسواکلیان پر پڑے گا۔ لہذا، ابھی تک یہ Ifsاور Butsکا معاملہ ہے
ہمنا آباد:۔ 4 دفعہ ایم ایل اے رہ چکے سابق وزیر راج شیکھر پاٹل ایک واضح انتخاب ہوں گے۔ کوئی نیا درخواست دہندہ یہاں نہیں ہے جو پارٹی سے ٹکٹ طلب کررہاہو۔ مسٹر پاٹل نے اپنی فتح کے مارجن کو2008 سے 2018 کے دوران ہر الیکشن میں بہتر سے بہتر کیا ہے۔
بسواکلیان:۔ ایک غیر مستحکم حلقہ ہے، کانگریس پارٹی نے ماضی میں ماروتی راؤ مولے کو 5 دفعہ اپنا امیدواربناکر ریکارڈ قائم کیاہے۔ 3 دفعہ لگاتار 1985-89، 94 اور دوبارہ2004 اور 2008 میں اپنا امیدوار بنایا۔ تاہم، وہ صرف ایک بارجے ڈی ایس کے ٹکٹ پر 1999 میں کامیاب ہوئے تھے۔ مجھے یقین ہے کہپچھلے 38 سال (9 عام انتخابات میں) یہ صرف دوسری بار ہوگا۔جبکہ کہ 2023 کے انتخابی میدان میں وہ امیدوار نہیں ہوں گے۔آنجہانی بی نارائن راؤ جنہوں نے سب سے پہلے سماج وادی سے الیکشن لڑا تھا۔دیوے گوڈا 1989 میں کلیان سے رابطے میں تھے۔کانگریس پارٹی نے براہ راست یا بالواسطہ طور پر بی نارائن راؤ کو نامزد کیا تھا۔پہلی بار 2013 میں۔ لیکن دوسری بار 2018 میں پہلی دفعہ وہ انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔مگربدقسمتی سے وہ کوویڈ 19-میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ضمنی انتخابات میں ان کی بیوہ محترمہ مالا بی نارائن راؤ کو کانگریس امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا گیا۔بی جے پی کی انتہائی زوردار انتخابی مہم کے دوران انھوں نے ایک اچھی انتخابی مہم چلائی۔ کانگریس پارٹی اعلیٰ کمان مالابی نارائن راؤ اور وجے سنگھ سابق ایم ایل سی، میں سے کس کو امیدوار بنانے کے لئے ترجیح دے گی۔یہ ایک بڑا سوال ہے؟ پارٹی سے پہلے۔
Ifs اور BUTS:۔ وجے سنگھ پارٹی ٹکٹ کے حصول کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔وہ کلیانی ہی میں رہائش پذیر ہیں۔وہ ہر جگہ اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں۔ اپنی کونسل کی مدت پوری کرنے کے بعد وہ پوری توجہ اسی حلقہ پر دے رہے ہیں۔بیدرجنوب پر چندر سنگھ کا واضح دعویٰ ہے لیکن اسی درمیان کلیان(بسواکلیان) کی سیاست میں وجے سنگھ کے داخلے کے بعدچندر سنگھ کادعویٰ کمزور پڑگیاہے۔ اسلئے وہ الگ اپناکوئی راستہ چن سکتے ہیں۔
مماثلتیں:۔ وجے سنگھ اور چندر سنگھ دونوں اچھا پس منظر رکھنے والے امیدوارہیں۔ ایک سابق سی ایم آنجہانی دھرم سنگھ کا بڑا بیٹا ہے اور دوسر اآنجہانی دھرم سنگھ ہی کا داماد ہے۔ دونوں ہی محنتی ہیں۔ پارٹی کارکنوں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔سب سے بڑھ کر دونوں وسائل والے ہیں۔کس کو کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا موقع ملے گا،کس کا انکار کیا جائے گا یا دونوں کا انکار کیا جائے گا؟ یا کون آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑا ہوگا یاکسی دوسری پارٹی کے ٹکٹ پر میدان میں اترے گا۔ ان تمام سوالات کے جوابات وقت ہی دے گالیکن ایک بات یقینی ہے، دونوں سنگھوں کا فوبیابیدرجنوب اور بسواکلیان کے تمام امیدواروں کو2023 کے انتخابات میں پریشان کرے گا۔بہرحال TVS اور TCS کے نام جنرل انتخابات سے پہلے اور بعد میں بحث کا موضوع رہیں گے۔
نوٹ:۔ TVS – ٹی وی سندرم موٹرز کمپنی نہیں۔TCS – ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز(I.T.Company) نہیں بلکہ TVS یعنی ٹھاکر وجے سنگھ ہیں۔ TCS یعنی ٹھاکر چندر سنگھ ہیں۔آئندہ کے لئے مضمون جاری رہے گا جس میں بھالکی اور اوراد انتخابی حلقہ کے امکانی کانگریس امیدوار وں سے متعلق بات ہوگی۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!