سفر نامہ | زندگیوں کے چراغ تو گل ہو سکتے ہیں، لیکن حق کا چراغ نہیں – محمد یوسف کنی بنگلور

0
Post Ad
بنگلور: (محمّد یوسف كنی کی اطلاع کے مطابق)ہندوستان کے بعض علاقوں کی حیثیت تاریخی ہے،ان مقامات سے کئی واقعات وابستہ ہیں،ان کی وجہ سے ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ ان مقامات کادورہ کریں۔
لکھنؤ ایک تاریخی شہر ہے ،تحریک آزادی سے اس کا گہرا تعلق ہے۔سیاسی اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ اس شہر میں مسلمانوں کی شاندار تاریخ ہے۔ فن تعمیر بھی نہایت دل کش  یادوں کی امانت ہے۔
*دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ* ہندوستان  کی سرزمین پرایک مایا ناز دینی ادارہ ہے بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ ایک دینی و علمی تحریک ہے۔1898میں ندوہ مولانا محمد علی مونگیری رحمت اللہ علیہ کی نظامت میں قائم کیاگیا تھا اور آج دنیا کے بڑے مدارس میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ملک کے مختلف علاقوں میں یہاں سے فارغین خدمت دین میں مصروف ہیں۔ واضح رہے کہ ندوۃ العلماء کے مقاصد میں دعوت و ارشاد، مسلمانوں کے اعمال کی اصلاح، غیر اسلامی رسوم و رواج سے نجات دلانا اوربرادران وطن سے اچھے روابط قائم کرنا ہے ۔حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی سرپرستی و رہنمائی میں ندوۃ العلماء ایک عظیم اسلامی مرکز بن گیا۔
21/مئی 2022 کی رات بذریعہ ٹرین دہلی سے لکھنو کا سفر تھا،میرے ہمراہ مولانا محمد انیس میرٹھی تھے۔ حلقہ یو پی مغرب کا دفترلکہنو میں ہے۔ ریلوے اسٹیشن سے جماعت کی گاڑی سے مولوی گنج میں واقع دفتر حلقہ پہنچے ۔ کافی بڑی جگہ ہمارے بزرگوں نے خریدی ہے۔مولانا نصرت علی صاحب،مولانا محمد رفیق قاسمی صاحب ،اللہ تعالیٰ ان کی قبروں کو نور سے بھر دے متحدہ یو پی کے امراۓ حلقہ رہے ۔حلقہ یوپی مشرق کے سیکریٹری مولانا ضمیر احمد صاحب ندوی سے گفتگو رہی۔ جناب ملک فیصل امیر حلقہ سے رابطہ نہ ہو سکا۔
مولانا عبدالعزیز صاحب ندوی بھٹکل سے53سال قبل ندوۃ العلماء تشریف لائے تھے،ندوا کے لئے آپ کی بڑی خدمات ہیں۔مولانا نائب مہتمم کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں،مولاناسے ملاقات ہوئی۔اندازہ ہوا کہ مولانا فنا فی الندوہ ہیں۔ جامعہ کی تاریخ مولانا کی نوک زبان پر ہے۔مولاناعبدالعزیز ندوی صاحب نے مولانا اعظم شرقی ندوی صاحب کو ہمارے ہمراہ کرتے ہوۓ فرمایا کہ دارالعلوم گھما کر لائیں اور فرمایاکہ چاۓ یہیں پینا ہے۔ نئی اور پرانی  عمارتیں،دارالمطالعہ،دارالقضاء،   دارالاقامہ کو دیکھنے کا موقع ملا۔ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی حفظہ اللہ صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیام گاہ پہنچے مگر شرف ملاقات نہ ہو سکی، تاہم دارالعلوم کی اس عمارت کو بھی دیکھنے کا شرف حاصل ہوا جو 113سال پرانی مگر پر شکوہ ہے۔
جنوری1941ءمیں اسی عمارت کے ایک بڑے ہال میں حضرت مولانا علی میاں صاحب ندوی نے سرکردہ شخصیات کاایک اجلاس منعقد کیا تھا۔ اس اجلاس میں حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت مولانا عبدالماجد دریابادی رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت مولانا منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ اور جناب فیض احمد فیض شریک  تھے۔کل شرکاء کی تعداد 150تھی۔اس اجلاس سے خطاب کرنے کے لئے خصوصی طور پر حضرت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کو مدعو کیا گیا تھا۔ 75منٹ کے اظہار خیال میں،اقامت دین اور اس کے تقاضے ،امت کی ذمہ داری اوردعوت دین پر قرآن وسنت کا ذکر  فرمایا۔ جی چاہ رہاتھا کہ دیوار کے ان پتھروں کو چوم لوں جن کی آنکھوں نے اللہ کے مجاہدوں کو دیکھا تھا۔دارالعلوم ندوۃ العلماء سے کرناٹک کا گہرا تعلق ہے۔ یہاں سے فارغین کی بڑی تعداد ہے۔ بھٹکل اس کی ایک عمدہ  مثال ہے۔بھٹکل کے جامعہ میں ندوہ کی جھلک نظر آتی ہے۔مجھے معلوم ہوا کہ سندگی (ضلع بیجاپور، کرناٹکا ) کا مدرسہ بیت العلوم کے فارغین حضرت مولانا سید سلمان ندوی صاحب رائے بریلی کی نگرانی میں چلنے والے مدرسہ میں زیر تعلیم ہیں۔ سندگی کے بچے ندوہ میں بھی ہیں۔ میری آمد کی اطلاع انہیں ہوئی تو 5,6طلبہ نے جو کہ عنقریب فارغ ہونے والے ہیں،عباسیہ ہال پہنچ کر ملاقات کئے۔ جب میں نے رخصت چاہی تو ان کا اصرار تھا کہ ایک رات ان کے ساتھ قیام کروں۔چونکہ میرا سفر لمبا تھا معذرت کر لیا،طلبہ کی آنکھوں میں محبت کے آنسوں تھے۔بہت دور تک دیکھتے رہے۔امید ہے کہ ہمارے یہ بچے فراغت کے بعد اقامت دین کے لئے جد و جہد کرتے رہیں گے۔
لکھنؤ کا امام باڑہ بہت مشہور ہے۔لوگ دور دور سے دیکھنے آتے ہیں۔مولانا انیس صاحب کے ساتھ یہاں پہنچا۔ شاندار عمارتیں،اسلامی تمدن کا شاہکار ۔  وہ بلند میناریں، نقش و نگاری اور بھول بھلیوں کے وہ دروازےجنہیں دیکھنے لوگ تپتی گرمی سے بے پرواہ لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہیں۔
بریلی بھی ایک تاریخی شہر ہے،آزادی ہند کے لئے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دی ہیں۔  ہندوستان بھر میں اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت سے بریلی بہت مشہور ہے ۔لکھنو سے بریلی جانے کے لئےکلکتہ سے اجمیر جانے والی ٹرین سے ہمارا ٹکٹ بک تھا۔6گھنٹے والا یہ سفر بہت دلچسپ رہا۔ہمارے سامنے اور بازو برادران وطن اور وہ بھی نوجوان ۔ بالکل خاموشی چھائی تھی۔آج ماحول ہی ایسا بنادیا گیا ہے کہ پیشانی پر کچھ نشان لگالینے والا آر ایس ایس ،بجرنگ دل اور ہندوتوا وادی اور ادھر ٹوپی ڈاڈھی رکھنے والا ہندو دشمن۔ میں نے خاموشی کو توڑنے میں کامیابی حاصل کی۔ ایودھیا کے سونو چوہان انٹرنیشنل کمپنی میں ہیلتھ کوچ،بھگونداس بزنس مین اور ان کی فیملی،ایک فوجی جو سولہ سال سے ملک کی حفاظت میں لگے ہوۓہیں سے گفتگو کی۔
گفتگو کے دوران اذان،نماز، زکوٰۃ ،صحت، ملکی سیاست اور انسانیت زیر بحث رہے۔رابطہ برقرار رکھنے کے لئے ایک دوسرے کے موبائل نمبرلئے گئے۔
23/مئی کی رات بریلی پہنچ گئے ۔مولانانورالاسلام صاحب فلاحی ہمیں لینے کے لئے اسٹیشن تشریف لاۓ تھے۔بریلی شہرمیں دو مقامی جماعتیں ہیں۔ اتفاق سے آج مولانا اظہار احمد فلاحی ناظم رابطہ عامہ جامعہ الفلاح بلیریاگنج سے ملاقات مولانانورالاسلام  فلاحی صاحب کے دولت کدے پر ہوئی،ہمارے قیام کا نظم یہیں پر تھا۔مولانا جنید فلاحی صاحب بھی تشریف لے آئے ،جامعۃ الفلاح بلیریاگنج کا شمار بڑے مدارس میں ہوتا ہے۔ یہاں سے فارغین دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں
 ہمارا خیال ہے کے فلاح اپنے علمی دائرے کو ملک میں وسعت دینا چاہئے،چھوٹے چھوٹے مدارس اسلامیہ کو الحاق پریا شاخ قائم کرنے پرآمادہ کیا جاۓ،تاکہ علمی و فکری نشوونماہو اور ذہنی تربیت کا موقع مل سکے۔رات کا کھانا، ذائقہ دار،اس میں لکھنوی وبریلوی ڈش ادغام کے علاوہ میزبان کااخلاص و مٹھاس شہد کے مانند تھا۔اللہ انہیں جزاۓ خیر سے نوازے۔
فجرکی نماز صبح ٤.٢٠پر جامعہ مسجد محمدیہ میں ادا کرنے کا موقع ملا۔بڑی خوبصورت مسجد ہے،معلوم ہوا کہ اس کے پنکھے بیرونی ملک سے منگوائے گئے ہیں،اس کی لمبائی ٢٠فٹ ہوگی۔
ناشتے کے لئے امیرحلقہ اترپردیش مغرب، جناب عزیز احمد خان صاحب کے گھر پہنچے،کافی دیر تک تحریک، اس سے وابستگی،بریلی میں کام،حلقہ میں تحریک اسلامی کے لئے مواقع پرگفتگو رہی۔ ناشتہ تکلف سے بالاتر تھا۔ امیر حلقہ کی گفتگومیں سادگی سے  ایسا معلوم ہورہا تھا، گویاہمارے بہت پرانے تعلقات ہیں۔باربار آپ کا یہ کہنا کہ رام پور،مرادآباد ہو کر واپس بریلی آجائیں، پھر ہم دہلی ساتھ چلیں بہت اچھالگا۔ یہ محبت صرف اللہ کے لئے ہے،تحریک اسلامی کا لٹریچران ہی تعلیمات سے بھرا پڑا ہے، اپنی کار کے ڈرائیور صاحب کا تعارف کراتے ہوۓ کہا ایوب خان ہیں،ہمارے گھر کے آدمی ہیں،آپ سفر اطمینان سے کر سکتے ہیں۔ رام پور ہوتے ہوۓ،مرادآباد تک چھوڑ دیں گے۔امیرحلقہ سے میں نے گزارش کی کہ یہاں تک آۓ ہیں تو حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر کی زیارت کرلیں۔جناپ ایوب خان صاحب نے یہ ذمہ داری لی اور کہا کہ رام پور اسی راستے پر ہے۔مولانا انیس میرٹھی صاحب نے بھی کہا کہ ادھر سے ہوتے ہوۓ چلیں،اچانک بارش سے موسم خوشگوار ہوگیا۔
تنگ گلیوں سے گزرنے کے بعد اعلیٰ حضرت کی قبر کی زیارت کا شرف ملا۔اطراف چھوٹی چھوٹی دوکانیں،سرمہ،ٹوپیاں، مسواک، عطر،کتابوں کی موجود ہیں۔حضرت کی قبر کے بارے میں میرا تصور تھا کہ بڑا گنبد ہوگا،اگربتی،ناریل،بکروں کی دھوم دھام ہوگی،لیکن ایسا نہیں تھا۔سادی سی ایک قبر،قبر کے اطراف ایک فٹ اونچا پتھرر،اوپر کپڑا اور اس پر پھول۔دو افراد تلاوت قرآن میں مصروف نظر آۓ۔ ہم نے دعاۓمغفرت کی.٢٠ویں صدی کی ابتدا میں انگریز مسلم نوجوانوں کو محبت رسولﷺ سے جو ہماری شہہ رگ ہے، دور کرنے کے لئے نت نئے طریقے ایجاد کر رہے تھے۔ حضرت بزرگ وار نے اس طوفان کے خلاف بند باندھنے کی پوری کوشش فرمائی اور محبت رسول ﷺ کا نعرہ دیا تھا۔                      ہمارے بزرگوں کے درمیان کئی باتوں پر اختلاف ہے اور وہ فروعی قسم کے ہیں،لیکن اختلاف بھی ادب و احترام کے دائرے میں رہتے ہوۓ کیا۔مولانا احمد رضاخان بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کے انتقال کی خبر جب دیوبند پہنچی تو حضرت عبدالرشید گنگوئی رحمت اللہ علیہ نے بلند آواز سے *اناللہ وانا الیہ رجعون* پڑھا تو کہنے والوں نے کہاکہ وہ آپ پر کفر کا فتویٰ صادر کئے ہیں اور آپ ان کے انتقال پر اناللہ پڑھتے ہیں۔ مرحوم عبدالرشید رح نے فرمایا،میری ایک تحریر سے انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ خمیں گستاخ رسول ہوں،پھر انہوں نے مجھ پر فتویٰ لگا دیا۔پھر فرمایا *مجھے گستاخ رسول ﷺ سمجھ کر اگر وہ فتویٰ نہ دیتے تو وہ خود کافر بن جاتے* مولانا عبدالشید دونوں ہاتھ اٹھا کربہت دیر تک  دعاۓ مغفرت کرتے رہے۔یہ دراصل بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہیں۔دوران سفر ایوب خان صاحب سے معلوم ہوا کہ 35سال سے محترم عزیز احمد خان صاحب (امیرحلقہ)کے گھر کے ڈرائیور ہیں،انہوں نے کہا کہ اس پورے عرصے میں انہوں نے کبھی اپنے آپ کو ڈرائیور  نہیں سمجھا ،بلکہ اس گھر کا ایک فرد کی طرح ہیں۔ایوب صاحب نے بتایا بیٹا انجنئیرنگ مکمل کرلیا ہے،ایس آئی او کا ممبر ہے اور فی الوقت مرکز جماعت میں خدمت انجام دے رہا ہے،بیٹی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایم ایس سی فائنل ائیر میں ہے ۔ سن کر بہت خوشی ہوئی۔
رامپور ملک کا ایک معروف شہر ہے کل 4لاکھ کی آبادی ہوگی۔مسلمان بڑی تعداد میں ہیں،ایک عرصے سے محترم اعظم خان صاحب یہاں سے اسمبلی کے لئے منتخب ہوتے رہے ہیں۔ شہر کا جائزہ لینے سے معلوم ہوگا کہ خان صاحب نے اپنے اسمبلی حلقہ میں ترقیاتی کاموں کو ترجیح دیا ہے۔آج ہی ان کی جیل سے رہائی عمل میں آئی ہے، غالباً کل وہ حلف لیں گے۔
حضرت مولانا محمدیوسف اصلاحی صاحب کی یاد آتی ہے،اللہ کے نیک بندے آخری سانس تک اقامت دین کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔گزشتہ اجلاس نمائندگان میں مولانا کی شرکت تھی،خاموش تھے,بہت کمزور نظرآرہے تھے‌،  یکم دسمبر 2021 کو اپنے رب کی طرف کوچ کرگئے ۔اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔آمین
جامعۃ الصالحات دیکھنے کی دلی تمنا تھی۔آج اللہ تعالیٰ نے موقع عنایت کردیا،مولانا عبدالسلام بستوی فلاحی ،مولانا عبدالقدیر ندوی،مولاناانیس الرحمن صاحب ،مولانا عبدالخالق صاحب ندوی و مدنی امیر مقامی رامپور،جناب سعود اختر(فرزند مولانا یوسف اصلاحی)اور دیگر ذمہ داران سے ملاقات رہی۔  ان بزرگوں کے ساتھ چاۓ نوشی کا موقع ملا۔جامعہ دو سالوں کے بعد کھلا ہے، داخلے شروع ہو چکے ہیں،طالبات خراماں خراماں تشریف لا رہی ہیں۔جامعہ کی شاندار عمارتیں،صفائی اور نظم و ضبط کے ساتھ علمی و فکری نشوونما کی اپنی مثال آپ ہے۔جامعہ سے فارغ التحصیل طالبات کا ملک  میں ایک مقام ہے۔معاشرہ انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔اس کی بڑی وجہ مقصد زندگی سے آشنائی اور اس کے لئے اپنے دائرے میں مصروف عمل رہنا ہے۔
یوسف اصلاحی رحمت اللہ علیہ کی قبر پر جانا ہوا،مغفرت کے لئے اور جنت میں بلند درجات کے لئے اپنے مالک سے دعا کرنے کا شرف حاصل رہا۔
*درس گاہ اسلامی رامپور* سے ہم سب واقف ہیں،یہاں کے فارغین نے تحریک اسلامی ہندمیں اہم رول ادا کیا ہے۔ ان کی خدمات نمایاں ہیں اور انہوں نے اپنے گہرے  نقوش چھوڑے ہیں ۔جی چاہتا ہے کہ *ہر ریاست میں ایک درس گاہ اسلامی قائم ہو* ہم سب دیکھنے کے لئے وہاں پہنچے ،معلوم ہوا کے انتظار کے بعد منتظمین چلا گئے،باہر سے ہی درودیوار کو دیکھ کر نکل گئے ،علمی شہرت یافتہ *رضاء لائبریری* کو باہر ہی سے دیکھنے کا موقع رہا۔معلوم ہوا کے تین لاکھ کتابیں اس لائبریری میں محفوظ ہیں۔
مولانا عبدالسلام بستوی جامعۃ الفلاح سے فارغ ہیں،رامپور کی معروف اورمتحرک شخصیت ہیں،درس گاہ اسلامی کے سیکریٹری بھی ہیں۔
مولانا عبدالقدیر ندوی صاحب نوجوان عالم دین،مولانا یوسف اصلاحی صاحب کے کہنے پر جامعۃ الصالحات تشریف لاۓ،اب مکمل معاونت کر رہے ہیں،مولانا کے ساتھ سفر کرنے کاشرف انہیں حاصل رہا ہے‌۔
مولانا محمد انیس میرٹھی تقریباً 13سال تک کرناٹک میں رہے اور یہیں تحریک سے وابستہ ہوۓ۔میرٹھ منتقل ہو گئےاب رکن جماعت ہیں۔ہم سب
23 مئی کی دوپہر دفترحلقہ ۔مرادآباد پہنچ گئے۔مولانا عتیق احمد اصلاحی صاحب سیکریٹری حلقہ سے ملاقات رہی،حلقہ میں کام کا تعارف ہوا،یو پی حلقہ مغرب پر گفتگو رہی۔ظہرانے کا نظم تھا،دفترحلقہ کے دیگر ذمہ داران کے ساتھ ہم طعامی کا شرف حاصل رہا۔دفترحلقہ کی گاڑی سے مسوری جانے کا نظم تھا۔الحمدللہ مسوری نماز عصر تک پہنچ گئے۔مدرسہ دارالقرآن کے بانی و مہتمم حضرت مولانا قاری سید محمد قاسم صاحب کے گھر پر طعام و قیام کا نظم تھا،مولاناقاری سید محمدصاحب کے فرزندان مولانا اویس صاحب ،مولانا مفتی شعیب صاحب اور مولانا جنید صاحب کے ساتھ تکلف سے پرےدعوت طعام سے مستفید ہونے کا موقع ملا،اللہ تعالیٰ انہیں خیر و برکت سے نوازے۔رات 9بجے مولانا قاری عابد حسین صاحب قاسمی رکن جماعت کے گھر پر مسوری اور دانسہ کے رفقاء کے ساتھ نشست تھی،اس نشست میں مولانا شاہ نظر قاسمی،مولانا جلیل الرحمان صاحب ندوی اور دیگر حضرات شریک رہے۔
اندازہ ہوتا ہے کہ اس پورے علاقے میں ندوۃ العلماء لکھنؤ،مدرسۃ الاصلاح أعظم گڑھ،جامعۃ الفلاح بلیریاگنج اور دارالعلوم دیوبند کے فارغین علماء بڑی تعداد میں جماعت سے وابستہ ہیں،اس کا اثر معاشرے پر ہے۔ہمیں یہ بات نہیں بھولنا چاہئے کہ مسلم معاشرے میں علماء کا اثر ہے اور آج بھی سماج پر علماء کی گرفت ہے،مدارس کے قیام پر تحریک اسلامی کو توجہ دینے کی ضرورت ہے اوراس سلسلے میں جماعت کے ذمہ داران ،تحریک اسلامی سے وابستہ علماء کو سرجوڑ کر بیٹھنے کی دعوت دینا چاہئے۔تا کہ بڑی تعداد میں علماء کو تحریک اسلامی سے جوڑ سکیں۔
غازی آباد سے دہلی کے لئے میٹرو ٹرین میں سفر کیا۔اس ٹرین سے سفرکا پہلا موقع تھا.

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!