قربانی کاعمل قیامت تک جاری رہے گا، نبی کریم ﷺ کی جانب سے بھی قربانی دینا چاہیے محمدآصف الدین رکن شوریٰ جماعت اسلامی ہند کرناٹک کاہفتہ واری اجتماع سے خطاب

0
Post Ad

بیدر۔ 26/جون (محمدیوسف رحیم بیدری) ماہ ذی الحجہ دراصل رب اعلیٰ کی بڑائی، اس کے شکر کے اظہار کامہینہ ہے۔رب سے محبت کادعویٰ اور اس کے متعلق دلیل کامہینہ ہے۔ قربانی کی تاریخ انسانی تاریخ ہی کی طرح نہایت قدیم ہے۔ ہابیل اور قابیل نے قربانی پیش کی تھی۔ ہابیل کی قربانی اس لئے قبول کرلی گئی کیونکہ اس کے پیچھے تقویٰ تھا۔ خدا کاڈر تھا۔ یہ باتیں جناب محمدآصف ا لدین، رکن شوریٰ جماعت اسلامی ہند کرناٹک نے کہیں۔ وہ آج اتوار کو سید مودودیؒ ہال موقوعہ نورخان تعلیم بیدر میں ”مقاصدِ قربانی“ عنوان پر خطاب کررہے تھے۔ انھوں نے آگے بتایاکہ ان شاء اللہ قربانی کاعمل
قیامت تک جاری رہے گا۔ ہم جو قربانی پیش کرتے ہیں وہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے اسوہ پر مبنی ہے۔ قربانی کاروحانی مقصد اپنی عزیز از جان چیز کو اللہ کی راہ میں قربان کرناہے اور آدمی تب تک تقویٰ کے اونچے مقام پر پہنچ نہیں سکتا۔ جناب محمدآصف الدین نے جانور کی دی جانے والی قربانی کو اپنے آنکھوں سے دیکھنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہاکہ قربانی دینے کامنظر دیکھنے سے حضرت ابراھیم علیہ السلام کس طرح حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی دے رہے تھے، اس کی یاد آنکھوں میں گھو م جاتی ہے۔ قربانی کے عمل کاکوئی بدلہ نہیں ہے۔ 10ذی الحجہ سے 12ذی الحجہ تین دن تک قربانی سے بڑھ کر اللہ کو کوئی عمل پسند نہیں۔ بعدازاں انھوں نے مختلف سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہاکہ حدیث شریف میں ساڑھے باون تولہ چاندی نصاب بتایاگیاہے۔ ایسے صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے۔ انھوں نے بتایاکہ قربانی دینے والا شخص اپنے بال اور ناخن نہ ترشوائے جب تک کہ وہ قربانی نہ دے لے۔ ایک سوال کے جواب میں بتایاکہ اپنے مردوں،اور اپنے محسنوں کے نام سے قربانی دی جاسکتی ہے۔ سب سے زیادہ محسنِ اعظم ﷺ کے نام سے قربانی دی جانی چاہیے۔ آپ ﷺ دس سال تک قربانی دیتے رہے اور ہرقربانی میں کہاجاتاہے کہ 60سے زیادہ اونٹ نحر کئے جاتے۔ ایک اور سوال کے جواب میں کہاکہ فی کس ایک حصہ کم سے کم قربانی ہے ورنہ کوئی شخص چاہے تو 10بڑے جانور، یا50بکرے بھی اپنے ایک فرد کی جانب سے قربان کرسکتاہے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایاکہ ہر عمل کااجر فرد کے شعور وفہم کے مطابق عطا کیاجاتاہے۔ منت اور نذر کے مسائل الگ ہیں، یہ صدقہ ہے۔ قربانی کرنے کی وصیت کامسئلہ بھی صدقہ کے ذیل میں آتاہے۔صدقہ کاگوشت خود نہیں رکھ سکتے اورنہ بیٹا بیٹی کو دیاجاسکتا ہے۔ اسی طرح قربانی اور عقیقہ کا گوشت خود بھی کھاسکتے ہیں اور دوسروں کو بھی دے سکتے ہیں۔ ادھاررقم سے قربانی دی جاسکتی ہے۔ قربانی کے جانور میں عقیقہ کیاجاسکتاہے وہ اس طرح کہ 5حصہ قربانی کے اگر ہوں تو 2حصے عقیقہ کے رکھے جاسکتے ہیں۔موصوف نے خواتین پر بھی زوردیاکہ وہ اپنی قربانی خود اپنے ہاتھوں سے انجام دینے کی کوشش کریں۔ قائم مقام امیرمقامی جناب محمد عارف الدین نے اپنے مختصر خطاب میں شرکائے محفل سے گذارش کی کہ اپنے گھروں میں اور خصوصاً پڑوس تک حضرت ابراھیم علیہ السلام کے واقعات کو سنایاجائے۔ وہ ماحول پیداہو جس میں رہ کر نیکی کے لئے آسانیاں ہوسکیں۔ دعا پر اجتماع اختتام کوپہنچا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!