جماعت اسلامی ہند بیدر کاہفتہ واری اجتماع

0
Post Ad

بیدر۔ 6جون (محمدیوسف رحیم بیدری)اسلام اللہ کاپسندیدہ مستند اور محفوظ دین ہے۔ جس میں ہمارے مسائل کابہترین حل موجود ہے۔ ہمارے ظاہری اور باطنی جتنے مسائل ہیں ان سب کے لئے اسلام رہبری اور رہنمائی کرتاہے۔ جس کو ہرایک نبی اور پیغمبر لے کر دنیامیں آئے۔آخر میں ختم المرسلین اور خاتم النبیین حضرت محمد ؐ نے کامل واکمل شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔ قیامت تک حضرت محمد آخری رسول، قرآن آخری کتاب اور اسلام سارے انسانوں کے لئے اللہ کی طرف سے آیاہوادین ہے۔ اب کوئی نئی شریعت نئی کتاب، نیا دین نہیں آئے گا۔ قیامت تک جتنی باتیں درپیش ہوں گی سب کا حل قرآ ن وسنت اور دین اسلام میں موجودہے۔یہ باتیں مولوی محمد فہیم الدین صاحب سابق رکن شوریٰ JIHکرناٹکا(حال مقیم حیدرآباد)نے اپنے خطاب میں کہیں۔ وہ آج اتوار کو جماعت اسلامی ہند بیدرکی جانب سے منعقدہ ہفتہ واری آن لائن اجتماع سے ”حضرت عمر ؓ اور اقامت دین“ عنوان پر خطاب کررہے تھے۔ انھوں نے مزید کہاکہ آپ جب عملاً جاننے کی کوشش کریں گے کہ اقامت دین کاسیدھا سادا مطلب کیا ہے تو پتہ چلے گاکہ زندگی کے ہرگوشہ اور شعبہ میں پوری یکسوئی کے ساتھ اسلام کی پیروی کی جائے۔ ہرطرف سے ہٹ اور کٹ کر اللہ تعالیٰ کی مخلصانہ اطاعت ہو۔ جس کا عملی نمونہ حضور نے اپنی زندگی میں پیش کیا۔ اس کے بعد اقامت دین کابہترین زمانہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ، حضرت عمر فاروق ؓ، حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علیؓ اور بعض کے نزدیک حضرت حسن ؓکازمانہ رہا۔ مولوی محمدفہیم الدین نے ترغیب دیتے ہوئے کہاکہ ہم اتباع کرتے ہیں دین کی۔ اتباع کرتے ہیں رسول اللہ کی۔اور ہم اتباع کرتے ہیں خلفائے راشدین کی۔ ہمیں خلفائے راشدین اور صحابہ کرام ؓ کی زندگی دیکھنے سے پتہ چلتاہے کہ انھوں نے کیسے سنت رسول کو اپنایا اور اتباع رسول میں اپنے آپ کولگایا۔ اسی طرح اللہ کی پیروی کی او راس کی پورے امتیاز کے ساتھ اسلامی ریاست نے پیروی کی۔ تمام صحابہ کرام ؓ میں ایک جذبہ تھا اتباع رسول کا۔ خلفائے راشدین تو ا س کا بہترین نمونہ تھے۔ بعدازاں انھوں نے حضرت عمر ؓ کی زندگی سے بہترین مثالیں پیش کرتے ہوئے بتایاکہ انھوں نے اقامت دین کچھ اس طرح پیش کیاکہ ان کے ساڑھے دس سال میں اسلام آدھی دنیا پر غالب ہوگیا۔ وہ اللہ کے دین کی بقااور اس کی حفاظت کے لئے آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ اسی راہ میں شہیدہوگئے۔ جناب محمد عاقب حسین سابق صدر SIOبیدر نے منتخب آیات کادرس قرآن دیتے ہوئے کہاکہ شکرگذاری الحمد للہ کہنے سے ادا نہیں ہوتی۔ اللہ کے رسول کس طرح شکرگذاری کرتے تھے اس کو دیکھنااور برتنا ہوگا۔ بنی اسرائیل کے بارے میں آیات میں کہاگیاکہ وہ شکرگذار ی کے جذبہ سے عاری تھے۔اللہ کی طرف سے انھیں ایمان اور رسولوں جیسی نعمت ملی تھی لیکن وہ اس کی ناشکری کیاکرتے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو فرعون سے بچایا۔انھیں توریت دی گئی۔ اس کے بعد ان کو جہاد کاحکم دیاگیا۔ ان لوگوں نے کہاجاؤ تم اور تمہاراخدا جہاد کریں، یہ ناشکری تھی بنی اسرائیل کی۔ موصوف نے بنی اسرائیل کی طویل تاریخ پیش کرتے ہوئے کہاکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرنانی کی، کتاب میں ردوبدل شروع کردیا۔ ہیکل سلیمانی مسمار ہوا۔تواللہ تعالیٰ نے ان کی سرکوبی کچھ اس طرح کی کہ عزیز علیہ السلام کے دنیا سے جانے کے بعد یونانی اور رومیوں نے انہیں اتنا پیٹاکہ چھ لاکھ یہودیوں کوقتل اورچھ لاکھ کو قید کرلیاگیا۔ محمد صلی اللہ کے آنے سے 600سال پہلے ہیکل سلیمانی مسمارہوا۔ مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ عربوں کے ذریعہ عروج بخشاگیا۔بعدازاں مسلما نوں میں بھی اسلام سے دوری پیدا ہونے لگی تو اللہ تعالیٰ نے تاتاریوں اور چنگیز یوں کے ذریعہ سے مسلمانوں میں قتل وغارت گری کروائی۔ پھر خلافت عثمانیہ کا آغاز ہوا۔ گویامسلمانوں میں بھی عروج وزوال کی داستان اللہ تعالیٰ کے اشارے اور اس کی سنت پر جاری وساری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں زوال سے بچائے اور عروج ابدی عطاکرے۔ آخر میں امیرمقامی سید عبدالستار صاحب نے مختصر خطاب کیا اور دعا پر اجتماع اپنے اختتام کو پہنچا۔ تقریباً100شرکا ء آ ن لائن تھے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!