ساگر کھنڈرے جواب دیں کہ وہ بیدر پارلیمانی حلقہ کی اقلیتوں کی ترقی کے لئے کیا اقدامات کریں گے؟ مولاناآزادنیشنل اُرد ویونیورسٹی کا سیٹلائٹ کیمپس تعمیر ہوگایاکسی دوسری ریاست کومنتقل کردیاجائے گا؟ تمام طبقات کے ضعیفوں اور طلبہ وطالبات کو مفت ریلوے سفر کی سہولت دی جائے گی کہ نہیں؟

0
Post Ad

بیدر۔(محمدیوسف رحیم بیدری) کڑی دھوپ ہے، محکمہ موسمیات کاانتباہ ہے کہ کڑی دھوپ کا سفر کچھ اور دن تک جاری رہے گا۔ایسے میں بیدر پارلیما نی حلقہ میں 7/مئی کو ہونے جارہے تیسرے مرحلہ کے انتخابات کی کہیں کہیں گونج سنائی دے رہی ہے۔ مجموعی طورپرجوش وخروش والا سیاسی سین صرف اور صرف سوشیل میڈیاپرہے۔ گویا الیکشن نہ ہوا، کوئی فلم ہوگئی جس کے بارے میں جاننے کے لئے سوشیل میڈیا کھول کر دیکھناپڑے گا۔
ایسے میں کانگریس پارٹی کے امیدوار ساگرکھنڈرے جو اپناموبائل اٹھانے سے بھی قاصر ہیں اور انتخابات میں جٹے ہوئے ہیں۔ ان کی پارٹی کے بڑے بڑے نیتا ان کے لئے عوام سے ووٹ طلب کررہے ہیں۔ ان ہی ساگرکھنڈرے سے سوال ہے کہ اگر وہ انتخاب جیت جاتے ہیں تو کیاوہ بیدر شہر میں موجود مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سیٹلائٹ کیمپس کو تعمیر کریں گے یا خانگی کالجس اور خانگی اسکول والوں کے دباؤمیں آکر اس سیٹلائٹ کیمپس کو دوسری ریاست کو منتقل ہونے دیں گے یاپھر low Profile پراس معاملے کورکھاجائے گا۔ یہ سوال اس لئے ضروری ہے کہ سیٹلائٹ کیمپس کاافتتاح
UPA IIکے آخری دور یعنی 2013؁ء میں بیدر میں ہواتھا۔ان ہی کی پارٹی کانگریس کے دھرم سنگھ سابق وزیراعلیٰ اور رکن پارلیمنٹ نے یہ کام کیاتھا۔ 11(گیارہ) سال بعد بھی وہ سیٹلائٹ کیمپس تعمیر نہیں ہوا۔ ساگر کھنڈرے انتخاب جیتنے کے بعد مولاناآزاد سیٹلائٹ کیمپس کو تعمیر کرتے ہوئے کے جی تاپی جی مفت کلاسیس شروع کریں گے کہ نہیں؟ یہ سوال اردوداں طبقہ ساگرکھنڈرے سے پوچھ رہاہے؟اور جواب کامنتظر ہے۔
دوسراسوال ساگرکھنڈرے سے یہ ہے کہ مرکزی حکومت کے تحت آنے والے محکمہ جات ریلوے، پوسٹ آفس،بی ایس این ایل، ڈیفنس،اور دیگر محکموں میں جملہ کتنے پوسٹ پر اقلیتوں کونوکری دی جائے گی۔ تعداد بتائیں۔ بھلے وہ تعداد 100کی ہو۔ بیدر پارلیمانی حلقہ کی بے روزگاری وہ کس طرح دور کریں گے؟ اور کتنے افراد کو پانچ سال میں روزگار دیں گے؟اقلیتیں یہ بھی پوچھ رہی ہیں کہ خانگی تعلیمی اداروں میں اقلیتوں کے کتنے ہزارغریب بچے مفت اور کم سے کم فیس پر پڑھائی کرتے ہوئے سماجی انصاف حاصل کریں گے۔ اقلیتیں پوچھ رہی ہیں کہ بیدری صنعت کو ملک گیر سطح پر متعارف کرانے کے لئے کتنے کروڑ کاقدم اٹھایاجائے گاکیوں کہ بیدر ی صنعت اس علاقے کی پہچان ہے۔ اقلیتیں پوچھ رہی ہیں کہ ان کے کتنے بچوں کو سڑکوں اور ریلوے کی تعمیر کے ٹنڈر الاٹ کئے جائیں گے؟ اقلیتیں پوچھ رہی ہیں کہ بیدر پارلیمانی حلقہ کے ریلوے اسٹیشن بیدر، کمال نگر، بھالکی، ہمناآباد، وغیرہ پر کتنے اسٹال مسلم اقلیتوں کوالاٹ کئے جائیں گے؟اقلیتیں پوچھ رہی ہیں کہ بہمنی سلطنت کے زمانے کی قدیم یونیورسٹی بنام مدرسہ محمودگاوان کی آرائش وزیبائش کے لئے کتنی رقم جاری کروائیں گے تاکہ یہ یونیورسٹی سیاحوں کی دلچسپی اور مطالعہ کامرکز بنے۔ اقلیتیں پوچھ رہی ہیں کہ بیدر ائرپورٹ کا نام مدرسہ (یونیورسٹی) محمودگاوان کے بانی اور بہمنی سلطنت کے وزیر خواجہ عماد الدین محمودگاوان کے نام پر رکھیں گے کہ نہیں؟اقلیتیں پوچھ رہی ہیں کہ ساگر کھنڈرے مرکزی وزیر کو ہرانے کے بعد بیدر کے مختلف اسٹیشن تک تمام طبقات کے ضعیف افراداورتمام طبقات کے طلبہ وطالبات کو مفت سفر کرنے کی سہولت فراہم کریں گے؟ کیوں کہ بیدر پارلیمانی علاقہ 371(J)کے تحت آتاہے۔ یہاں کی تعلیمی اور اقتصادی پسماندگی سبھی کومعلوم ہے؟اوراس کو دور کرنا عوامی نمائندوں کی آئینی ذمہ داری ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت سمجھ لی جائے کہ ساگرکھنڈرے، ان کے والد ایشور کھنڈرے ریاستی وزیر اور ضلع کانگریس کو اسی پارٹی کے چند افراد اور مسلمانوں میں سے چندسیاسی ٹھیکیداریہ یقین دلارہے ہیں کہ ووٹ توتمام اقلیتیں ساگرکھنڈرے ہی کو دیں گے، انہیں نہ دے کر پھر کسے دیں گے؟۔جب کہ ہمارے نزدیک ایسی اطلاعات ہیں کہ اگر ساگرکھنڈرے نے اقلیتوں کی ترقی کاکوئی وعدہ نہیں کیا اور صاف صاف باتیں عوام کو نہیں بتا ئیں تو کڑی دھوپ کابہانہ بناکر اقلیتی ووٹر ووٹ ہی نہیں کریں گے اور گھر میں بیٹھے رہنے کو ترجیح دیں گے۔اورا گر بہت سے لوگ ووٹ ڈالیں گے بھی تو انھیں ترقی کی امید نہیں ہوگی۔
دیکھتے ہیں کیاہوتاہے۔مولانا آزاد کا سیٹلائٹ کیمپس تعمیر ہونے کاخواب پوراہوتاہے یاٹوٹ جاتاہے؟روزگار ملتاہے یاپھر ایک بار بیدر پارلیمانی حلقہ کے مندروں، پارکوں اور واکنگ ٹریک وغیرہ میں بیٹھنے کے لئے آرسی سی کی کرسیاں ہی ملیں گی؟

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!