عصایے موسیٰ بغل میں تھا

0
Post Ad

بیسوی صدی کے آغاز میں ایک ایسی شخصیت پیدا ہوئی جن کو ہم سید ابوالاعلی مودودی کہتے ہیں۔پوری زندگی آپ نے اعلاےکلمتہ اللہ کو بلند کرنے کےلئے صرف کی ۔ملت میں نہ صرف فکری بیداری پیدا کی بلکہ اقامت دین کے نصب العین کو برقرار رکھنے کے لئے ایک تحریک بھی برپا کی۔ اس وقت دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی تحفظ کی بات کی جاتی ھے تو اس میں مولانا سید ابوالاعلی رح کا بھی حصہ ہوتا ھے۔ مولانا نے مسلمانوں کو ان کا اصل مقصد حیات یاد دلایا اس جد وجہد میں کوئی کثر باقی نہیں رکھی۔فکری غذا فراہم کی۔اپنوں اور غیروں کے ستم بھی برداشت کیے اور پھانسی کے تختے پر چڑھنابھی گوارہ کیا۔بلکہ کہا کہ

میں کہاں رکتا ہوں عرش و فرش کی آواز سے
مجھے جانا ہے بہت آگے حد پرواز سے
زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نھیں آسمان پر ھوا کرتے ھیں۔اگر اللہ کے ہاں میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا ھے تو یہ خود الٹے لٹکے جائیں گے مجھے نہیں لٹکا سکتے۔

مولانا کی جرأت وہمت اس قدر تھی کہ ایک مرتبہ صدر ایوب مولانا کو بلا کر یہ کہا کہ آپ جیسے پاکیزہ اور نیک انسان اس گندی سیاست میں کیوں آتے ہیں ،میں آپ کو یونورسٹی کا وایس چانسلر بناتا ھوں۔تو مولانا نے پیشکش کو ٹھکرا کر کہا کہ ایوب صاحب کیا اس گندی سیاست کو مزید گندہ ہونے کے لے چھوڑ دیا جایے؟
مولانا نے مسلمانوں کو قولی اور عملی شہادت کے لئے ابھارا۔اور کہا میرے علم میں آپ کا حال اور مستقبل معلق ھے اس سوال پر کہ آپ اس شریعت کے ساتھ کیا معاملہ کرنے ھیں جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت سے آپ تک پہنچی ھے۔ اگر آپ اس پر ٹھیک ٹھیک عمل کریں اور اس دین کی ٹھیک ٹھیک شہادت دیں تو یہ سیاہ بادل جو آپ پر چھاپے ہوئے ہیں وہ چند سالوں کے اندر چھٹ جائیں گے
جو قوتیں باطل کے کیمپوں میں ھیں وہ ٹوٹ ٹوٹ کر آپ کے کیمپ میں آنا شروع ہو جاینگی
۔
اور یہ دور تاریخ میں داستان عبرت کی حیثیت سے باقی رہےگا کہ اسلام جیسے جہاں کشاں اور عالمگیرطاقت کے نام لیوا کبھی اپنے بے وقوف ھو گے ء تھے کہ

عصابے موسیٰ بغل میں تھا ، لاٹھیوں اور رسیوں کو دیکھ کر کانپ رہے تھے

اب ذرا کوئی ان مسلم ممالک سے یہ پوچھے کہ آپ کا وہ عصا کیا ہوا جو رسیوں اور لاٹھیوں کو نگلنے کے کے لئے آپ کے حوالے کیا گیا تھا؟

عبدالکریم بڑگن
صدر
ادارہ ادب اسلامی شاخ الکل، کرناٹکا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!