لاک ڈاؤ ن اور زندگی

0
Post Ad

محمد شجاع الدین،شیونگر (شمال)، بیدر۔موبائل:۔ 9986880602
وہ دن بڑی شدت سے یاد آتے ہیں جب ہم بچے تھے۔ رمضان کی آمدپر بے انتہا خوش ہوتے۔ روزے رکھنے کی خوشی اور اس سے بڑھ کر افطار کا انتظار۔ شام کے وقت کچن میں ہرقسم کے پکوان ہوتے۔ ماں کے ہاتھ کاپکوان مت پوچھو، بہت ہی لذیذ ہوتاہے۔ سب مل بیٹھ کر کھاتے۔ ایک دوسرے کے کے گھر اور پڑوس میں لینادینا رہتا۔ کبھی ان کے ہاں ہم جاتے اور کبھی وہ آجاتے۔پھررمضان کے آخری عشرے میں دعوتوں کاسلسلہ چلتارہتا۔ خوب مزے مزے کے کھانے ملتے۔ دعوتوں کا اہتمام ہوتا۔ کبھی بریانی، کبھی نہاری، بگارا کھنا اور دال چاول تو مزے لے لے کر کھاتے۔ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوتیں۔ مساجد نمازیوں سے بھری پڑی رہتی۔ بچوں کامیلہ لگتا۔ پھررمضان کی رخصتی پر آنکھوں میں آنسو آجاتے۔
پتہ نہیں اچھے دن پھر کب ملیں گے؟ بہر کیف آخر کاروہ دن آہی گیا، رمضان رخصت ہوگیا۔ آج عید کادن ہے۔ عید کے معنی ہی خوشی کے ہیں۔ ایک دوسرے سے گلے ملنا، خوشیاں بانٹنا، ایک دوسرے کے گھر آناجانا، دوست احباب، رشتہ دار وں کوعیدکی مبارک باد دینا مگر یہ عید اچھی نہیں ہے۔ پتہ نہیں عید کی اُن خوشیوں کوکس کی نظر لگ گئی؟ کہتے ہیں اپنی نظر اچھی نہیں ہوتی۔ دوسروں سے کیاشکایت۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے میل ملاپ پر پابندی لگادی۔ اپنے دور ہوگئے۔ کوئی کسی سے مل نہیں سکتا۔ گویااپنے بیگانے ہوگئے۔ رشتہ داری ایک طرح سے ختم ہوکر رہ گئی۔ دوست احباب دور ہوگئے۔ ہر طرف ماتم ہے کیونکہ لوگ مرنے لگے ہیں۔ دنیا میں ایک ایسا مہلک وائر س پھیل گیاہے کہ جو بھی انسان اس کا شکار ہوگیا، اس کی زندگی ختم ہوگئی اور جو اس سے بچ گیا سمجھو بچ گیا۔ ایک وائر س نے زندگی کے نظام کوتہس نہس کرکے رکھ دیاہے۔ ہرطرف زندگی ختم ہورہی ہے۔ بچے، جوان، بوڑھے سبھی اس کا شکار بن رہے ہیں۔ مریضوں کے جم غفیر کے سامنے ڈاکٹر بے بس ہیں۔ حکومت نے لاک ڈاؤ ن نافذ کردیاہے۔ دکانیں بند، سڑکیں سنسان اور ویران، بازار پوری طرح بندہوگئے ہیں۔ تجارت چوپٹ ہوکر رہ گئی ہے۔ کالابازاری عروج پر ہے۔ لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ بھوک پیاس، غریبی، اور مرض ہر طرف پھیل چکے ہیں۔ سڑکوں پر آواز آتی ہے تو صر ف پولیس والوں کے سیٹی بجانے کی یاایمبولنس کے سائرن کی جو عوام کو خوف زدہ کردیتی ہے۔دہشت کاماحول ہے۔ یوں لگتاہے زندگی ختم ہوچکی ہے۔
ان حالات میں زندہ لوگ بھی جی کرکیاکریں؟
میں اکیلاکمرے میں بیٹھا ہوں۔فون کی گھنٹی بجتی ہے دل خوف سے دھڑکتاہے۔ پتہ نہیں کیسی اطلاع ہوگی۔ پھر آواز آتی ہے۔ فلاں گذ ر گئے۔ وہ نہیں رہے۔ یہ سب سنتے سنتے میرا دماغ کمزور اور خراب ہوگیاہے۔ اس لئے میں نے فون بند کرکے رکھ دیاہے تاکہ دماغ کو سکون حاصل ہوسکے۔ پھر میں اپنے کمرے سے اپنی چھوٹی سی ننھی منی، پیاری پیاری پانچ ماہ کی پوتی کے قریب آتاہوں۔ اس کو گود میں لے کراس کی مسکراہٹ میں کھوجاتاہوں تاکہ کچھ دیر کے لئے سکون مل سکے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!