رمضان المبارک: روح کی معراج کا مہینہ

ازقلم: محمد رضوان حسین

0
Post Ad

یہ برق رفتار سے گزرتے ہوئے ماہ او سال……. اور یہ شور او گل میں مسروف انسانی زندگی کے شب او روز…. اور برف کی تارہ پگھلتے ہوئے یہ زندگی کے ایام……. آسمان اور چاند پر ایک نئے جہاں کی کھوج میں مشگول انسان اور انسانیت
ان تما م ہنگاموں کے بیچ…. پھر سے اپنے مقصد ے وجود سے آشنا کرانے….. دنیا کے چہ میگوئیو میں زنگ آلود قلب او نظر کو ایک نئی جلا بخشنے…… گناہو سے لبریز انسانوں کے اعمل کےدفتر کو نیکیو کی بہار سے آشنا کرانے کے لیے…. ایک عظیم او شان مہینے کی امد امد ہے ……………………………………………………………………………
……ویسے
اسکی امد کوئی نئی بات نہیں ہے
ہر سال کی ترہ اس سال بھی یہ مہینہ دنیا میں رہنے اور بسنے والے انسانوں کے درمیاان آئے گا اور زمانے کو ایک نئے رنگ میں رنگ دے گا…. مسجدے رکوع اور سجود کرنے والوں سے اوبل پپڑیں گی…… افطار اور سحر کی تیاریںو میں مسرور فزائیں ہونگی…. .بہت سے نئے چہرو کا مسجد میں دیدار بھی ہوگا… … ایک قابیلے رشک فیض ہر طرف چلک رہا ہوگا…. جسے دیکھ کر دل جھوم اٹھے گا…. اور دل سے دعا بھی نکلے گی کہ اے پروردیگار اس پورنور ماہول کو کبھی ختم نہ کرنا….. پر افسوس کے یہ پورنور فضا بھی چند لمہو کے باد پھر اگلے سال تک کے لیے گایب ہوجائیگی…. جیسے موسمے بہار کے بعد…. ایک تویل خزاں کا بسےرا ہو…..
کاش کی یہ امت اس عظیم مہینے کی روح اور اس کے حقیقی مقصد کو سمج پاتی…… یہاں اذانوں کی صدائیں تو ہیں پر قلب پر اسکا اثر نظر نہیں آتا… یہاں تراویح میں قرآن کی تلاوات کی گونج تو ہے پر محلو میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی……. ہم ہر سال اس مہینے کو اسی تارہ گزارتے ہیں…. بلکے ہر گزرتے ہوئے سال کے ساتھ اس عظیم ممہینے سے انسانی وجود پر جو نقوش مرتب ہوتے ہیں یا ہونے چاہئیں ان میں بھی اچھی خاصی کامی نظر آتی ہے….ہم نے اپنے ابا او اجداد کو دیکھا تھا چاہے امیر ہو یا غریب، بیمار ہو یا صحت مند… عمر رسیدہ ہو یا نوجوان… کم سے کم اس مہینے کا تو زارور احترام کیا کرتے تہیں ….. ایسا نہیں ہے کے آج کے دور کے مسلمان اسکا احترام نہیں کرتے…. پر یہ بات تو ہے کے ویسا نہیں کرتے جیسا پہلے کے لوگ کیا کرتے تہیں…..
آپ کو شائد میری یہ بات اچھی نہ لگی ہو…..بہرے حال حقیقت سے مو تو چورایا نہیں جا سکتا…..میرے ایسا کہنے کے پیچھےبہت سی وجوہات ہے…. مجھے آج بھی یاد ہے گُزشتہ سال کے رمضان المبارک کی ہمارے عظیم شہر حیدرآباد کے مسلم محلو کے واقعات اور خبریں…. ایک کے بعد ایک ایسے ایسے واقعات….. جنھے دیکھ کے روح شرم سے پانی پانی ہو جائے ۔ …. قلب او ذہن غمگین اور بیچینی کی کیفیات میں مبتلہ ہو جائے…. ان حلات کو دیکھ کر یہ سوال بار بار بیچین کر رہا تھا کے کیا یہ وہی مسلمان ہے جو محمد عربی ﷺ کے ماننے والے ہیں … کیا یہ وہی عشق رسول کے دعوے دار ہیں……

کہیں قتل کی وارداتیے تھی…تو کہیں عصمت ریزی کا سانحہ….کہیں سسرال والو کے زریعے کسی بیٹی کا قتل.. تو کہیں زکوٰۃ کے پیسے لے جانے والی خاتون سے پیسو کا چن جانا… کہیں کسی کو اگوا کر لینے کی خبریں… .. تو کہیں کسی مسجد سے اسکے سامان کی چوری ہوجانے والی ویڈیوز…..ایسانذر آرہا تھا کہ انسان کو شیطان کے بہکاوے کی اب کوئی زرورت نہیں رہی….ایسا لگ رہا تھا کے شائدشیطان انسان کو اشرف المخلوقات سے حیوان بنانے میں کہیں نہ کہیں کامیاب ہو گیا ہو….
ہمم م م م
جب عبادتیں محض رسمی ادایگی کا مظہر بن جائے… تو شائد مشاعرے کی یہی تسویر ابھر آتی ہوگی…..

آپ کو شائد یہ لگ بھی رہا ہوگا کے میں اس عظیم مہینے کی عظمت پر کچھ کہتا…… یا پھر انکے فیوض او برکت پر اپنے خلم کی سیاہی کو وقف کر دیتا….. میرے ایسا کرنے سے اسکی شان میں کوئی بال برابر بھی فرق نہیں ہوگا…. اور شائد دنیا کا کوئی بھی مصنیف چاہے کتنے ہی اوراق اسکی عظمت کے بیان پر وقف کردے پھر بھی اسکی شان کے بیان کا مکمل حق ادا نہیں کرسکےگا…..
اس مہینے میں اجر کےکئی گنا بڈھ جانے کی باتے….. اس مہینے میں نیک کاموں کی عظمت کا بیان…… اور اس علیشاں پروردیگار کی بےپناہ رحمتوں کے نزول کے تذکرے….. ان سب باتوں کو آپ ہمیشا کی ترہ اس بار بھی کسی مسجد میں… ہراخبار میں…. اور کئی رسالو میں زرور سنیں گے اور پڑھیں گے…اور سن سن کر آپ کو کئی چیزیں یاد بھی ہوجائینگی…..
اسلیئے میں یاہان ان سب کا تذکرہ کیے بگیر…. اس ٹوس اورسخت تربیت سے درکار ناطیج پر آپکی تواجہ مفضول کرانا چاہتا ںہوں…… قرآن مجید اس عظیم مہینے کے بارے میں اس ترہ کہتا ہے کے
“رمضان وہ مہینہ ہے ، جس میں قرآن نازل کیا گیا ، جو انسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے ، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں ۔ لہٰذا اب جو شخص اس مہینے کو پائے ، اس کو لازم ہے اس کے پورے مہینے کے روزے رکھے….) سورة البقرة-185 (
“گویا اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ رمضان المبارک کی ساری عظمت، اہمیت و افادیت، فیوض و برکات، اسی ایک وجہ سے ہے کہ اس عظیم مہینے میں ایک عظیم و شان کتاب کا نزول ہوا۔۔۔۔ گویا عام لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ مہینہ جشن قرآن کا مہینہ ہے۔۔۔۔ایک ایسی کتاب ہدایت کا جشن جس کے عظیم پیغام کو جس جس نے بھی اپنے سینے سے لگایا۔۔۔ وہ ہر دور میں فتح بن کر اُبھرا۔۔۔۔ فتح بن کر ہی اس دنیا سے کوچ کر گیا۔۔۔

“یہ وہی کتاب ہے۔۔۔۔ جس نے عرب کی سدیوں سے چلتی ہوئی تہذیب، قبائلی اذبیئتے، نسل پرستی، اپنے ہی جیسے انسانوں کی غلامی میں سسکتے انسان، مردوں کی جرا داری میں اپنے وجود کی بقاء کے لئے تڑپتی خواتین، اور بے زبان ننھی شہزادیوں کو دفناتے بے رحم باپ اور ایک نہایت ہٹدھرم معاشرے کا روخ ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔۔۔۔ یہی عرب جب اس کتابِ ہدایت کے اصولوں کو اپنے سینے سے لگایا تو۔۔۔ ان میں سے اس کتاب نے ایسے مثالی رہنماؤ کو اٹھا کھڑا کیا۔۔۔ کہ رہتی دنیا تک بھی اسکی کوئی نظیر ہمکو نہیں مل سکتی۔۔۔ یہ وہی کتاب ہے جس نے انکے دلوں کو ایسی شجاعت سے سرشار کیا کہ بڑی سی بڑی طاقتیں بھی انکے ایمانی قوت کا مقابلہ نہ کرسکی۔۔۔
“پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی عظیم و شان کتاب جو سدیوں سے ہمارے گھروں کے محرابوں کی زینت بنی ہوئی ہے ایسا غیر معمولی اثر ہم پر یا ہمارے معاشرے پر کیوں مرتب نہ کرسکی۔۔۔ یہ ایک اہم سوال ہے اور بہت قابِلے غور سوال بھی۔۔۔
روئے ارض پر سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب یہی ہے۔۔۔ پر بدقسمتی بھی یہی ہے کہ سب سے زیادہ بِنا سمجھے پڑھی جانے والی کتاب بھی یہی ہے۔۔۔ ہماری ساری محنت اس کی تلاوت کو مزین کرنے، ان کے الفاظ کو بہترین پئی رائے میں ادا کرنے پر وقف کردیتے ہیں۔۔۔ پر کاش کہ اس کے مفہوم کو سمجھنے پر بھی ہم اتنی ہی توجہ دے پاتے۔۔۔ سدیوں سے ہمارے درمیان یہ غلط فہمی رائج کر گئی کہ اس کتاب کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔۔۔ کسی عالم کی رہنمائی کے بغیر اسکو سمجھنا ناممکن ہے۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس دنیا کو بنانے والا غفور الرحیم پروردگار کوئی ایسا پیغام اُسکے بندوں تک بھیجا ہو جسکو سمجھنے میں اُنکو مشقت اُٹھانی پڑے۔۔۔ خدا را اس غلط فہمی کو دور کریے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔۔۔ یہ وہی کتاب ہے جسکو عرب کے اممیوں نے باقوبی اور با آسانی سمجھا جو ان کے دور کے کوئی بڑے ماہر ےادبیات بھی نہیں تھے۔۔۔ یہ قرآن ایک ایسا سمندر ہے جس میں گوتے لگانے والا کبھی خالی ہاتھ نہیں واپس آتا۔۔۔ اس کے کوہ میں ایسے ایسے جوہر ہیں جو جتنا گہرائی میں اترے گا اتنا اس سے ملا مال ہوگا۔۔۔ جب ہم اسکو سمجھنے کے سفر کا آغاز کریں گے تو یہ ایسے ایسے بیش قیمتی خزانوں سے ہمیں آشنا کرائے گا جس کو دیکھ کر ہم ششدر رہ جائیں گے۔۔۔ کبھی یہ دنیا کی زندگی کی حقیقتوں سے پردہ اُٹھا کر ہماری آنکھیں اشقبار کریگا۔۔۔ تو۔۔۔ کبھی اپنے رب کی بے پناہ نعمتوں کے ذکر سے قلب کو سرشار۔۔۔ لیکن جتنا ہم اسکو سمجھیں گے اتنا اس رب کائنات کے قریب ہوں گے۔۔۔ جب ہم اُس کا قرب حاصل کر لیں گے تو پھر کسی چیز کے چھین جانے کا دکھ نہیں ہوگا۔۔۔ نا کسی چیز کے لُٹ جانے کی فکر۔۔۔ وہ رب ہمیں کبھی تنہا ہونے کا احساس ہی نہیں ہونے دیگا۔۔۔ زندگی کے کٹھن سے کٹھن مرحلے میں بھی اُس کے ساتھ ہونے کا احساس انسان کی شخصیت کو ہمیشہ کے لئے بدل دے گا۔۔۔ فر انسان کا ہر کام ہر فعل اُسکی رضاجوئی کے حصول میں لگ جاے گااور تب وہ ہدایت کی روشنی انسان کے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے قلب کو پرنور کردیگی۔۔
“رمضان، روزہ، حج، زکات اور ہمارے تمام مراسمِ عبودیت کا حاصل یہی ہے کہ اُس رب کائنات کا قرب ہمیں حاصل ہوجائے۔۔۔ خوش نصیب ہے وہ انسان جس کو الله تعالی اس دنیا میں اس عظیم دولت سے بہرمند کرتا ہے۔۔۔

افسوس اسی بات کا ہے کہ ہم سب اس دوڑ میں لگے ہوئے ہیں کہ ہماری قرآن کی تلاوت مکمل ہوجائے۔۔۔ چاہے وہ تین دن کی تراویح میں ہو یا… پھر ستائیس دن کی۔۔۔ ہمارے روزے گزر جائے چاہے سوتے ہوئے ہو یا کاروبار میں مشغول۔۔۔ پھر ہمارے صدقات بھی ادا ہوجائے چاہے دکھاوا کرکے ہو یا پھر… احسان جتا کر۔۔۔

جب تک ہم ان تمام عبادت کا مقصد اورمفہوم نہ سمجھلیں۔۔۔ ہزاروں رمضان بھی ہمارے معاشرہ میں تبدیلی نہیں لاسکتے۔۔۔ ہم نے اس مہینے میں نازل ہونے والی کتاب کا حق ادا نہیں کیا۔۔۔ ہم نے دنیا پر یہ وضع نہیں کیا کہ یہ مہینہ نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔۔۔ اور یہ کتاب ایک غیر معمولی کتاب ہے۔۔۔ ایک مرتبہ کسی بدرانہ وطن نے مجھ سے پوچھا کہ تمہاری ہلیم والی عید کب آرہی ہے؟۔۔۔ وہ مہینہ کب آ رہا ہے جس میں تم لوگ ڈھیر ساری چیزیں کھاتے ہو۔۔۔ ایسے سوال سنکر ہمیں افسوس ہونا چاہئے۔۔۔ اور غمگین بہی۔۔۔ ہم نے اس مہینے کی کیسی تصویر ہمارے غیر مسلم دوستوں کو دکھائی اس بات پر افسوس۔۔۔ کاش ہم انکو یہ بتا سکتے کہ یہ ایک عظیم انسانوں کی کتاب ہدایت کے نزول کا مہینہ ہے۔۔۔ پر ہم ایسا سمجھانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔۔۔ الفاظ سے بھی اور اعمال سے بھی۔۔۔

آئیے اس رمضان کو ایک بدلہ ہوا رمضان بنائیے۔۔۔ ایک ایسا رمضان جو ہمیں اپنے رب کا قرب عطا کرسکے۔۔۔ آئیے اس کتابِ ہدایت کے پیغام کو اپنے سینوں میں پیوست کرلیں۔۔۔ پھر اپنے اردنوا کو اسکے نور سے منور کردیں۔۔۔

اگر اب بھی ہم نے اس کتاب کو نہیں اپنایا تو دنیا کی کوئی طاقت بھی ہمیں نہیں بدل سکتی۔۔۔
ایسے روایتی کئی رمضان بھی ہمیں کامیابی کی ڈگر پر نہیں لاسکتی۔۔۔ ہم نے اس مہینے کی ہر عبادت کو عوامی بنادیا۔۔۔ مثال کے طور پر قیام اللیل کو ہی لیجیے یہ ایک بے شکیمتی عبادت ہے۔۔۔ ایک ایسی میٹنگ جو صرف بندے اور اس کے اقا کے درمیانی خفیہ ملاقات ہے۔۔۔ یہ سحر کے وہ پرنور لمحات ہیں جنمیں ایک بندا اپنے اشکبار آنکھوں سے اپنے مالک کے حضور اپنی التجا اور فریاد لیکر پہنچتا ہے۔۔۔ ہم نے اسے بھی اجتماعی کرکے اس کے اثر کو کم کردیا ہے۔۔۔ کم سے کم کچھ ایسے لمحات ضرور ہی ہونے چاہیے جنمیں ہم اور صرف وہ ہو باقی کوئی نہیں۔۔۔ وہ ہماری بات سنے اور اسکا جواب دے۔۔۔ آزما کر دیکھیے اس عبادت کو اس طریقے سے۔۔۔ وہ رب سنتا بھی ہے اور جواب بھی دیتا ہے۔۔۔ اور ہم اشاروں میں اسکے دیے ہوئے جوابوں سے خوشی سے جھوم اُٹیں گے۔۔
خدا را عبادت کی رسمی ادائیگی سے آگے بڑھ کر اسکی روح پر توجہ دینے کی ضرورت۔۔۔ انشاءاللہ جب ایسا ہوجائے گا تو یہ رمضان کی فضائیں ہمارے محلے اور زندگیاں بدل دیں گی۔۔۔ اور ہماری قدی نا قابلِ فراموش منزلوں پر پہنچ جائیں گی۔۔۔ ورنہ ہمارے معاشرہ کی تصویر ایسی ہی رہیگی جیسے اقبال نے کہا تھا… “رہ گئی رسمیِ اذان روح بلالی نہ رہی…
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی”

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!