تشدّد و تعلیم

از ڈاکٹر قاضی سراج اظہر،چیرمن ڈیپارٹمنٹ آف پیتھالوجی اسوسیٹ کلینکل پروفیسر ،مشیگن اسٹیٹ یونیورسٹی، امریکہ

0
Post Ad
نہایت دکھ و رنج کے ساتھ میں یہ وڈیو آپ تمام اساتذہ کو اس تاکید کے ساتھ بھیج رہا ہوں کہ “اللہ کے واسطے ہمارے طلبہ پر اس طرح کا ظلم و تشدد نہ کریں”۔ کسی نے یہ وڈیو حیدرآباد میں ایک معروف انگلش میڈیم اسکول میں پڑھنے والے طالبِ علم کے تعلق سے بھیجا ہے، جو تلگو ٹیچر کی بربریت کا نشانہ بنا ہے۔ بچّے کی عمر سات سال بتائی جارہی ہے۔ کمرۂ جماعت میں یہ معصوم بچہ اس لئے تشدد کا نشانہ بنا کیونکہ وہ تلگو ٹیچر کی بات سُن نہیں رہا تھا۔ فرش پو چنے والے ڈنڈے (mop) سے اسے مارا اور پیٹا گیا۔ اُس کے پیٹھ پر بھی گہری چوٹ کے نشان ہیں۔ اس طرح معلمہ کا طا لبِ علم کے ساتھ ظالمانہ رویہ ناقابلِ برداشت ہے۔ افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ اسکول میں کوئ منتظم موجود نہیں تھا۔ جب یہ اندوہناک واقعہ ہورہا تھا تو دوسرے ٹیچرس کیا کررہے تھے۔ کیوں ایمبولنس کو کال نہیں کیا گیا؟ کیوں والدین کو آکر دواخانہ منتقل کرنا پڑا؟ جو صاحب پریس سے مخاطب ہوئے ہیں وہ retinal injury کی بات کررہے ہیں۔ عموماً اس طرح کے کُھلے non-surgical wound سے infection کا کافی خدشہ رہتا ہے۔ اللہ کرے آنکھ نکالنا نہ پڑے۔ ویسے اُس آنکھ کی بینائ پر اثر تو ہوگا۔ میں بحیثیتِ فارنسک ماہرِ چاہوں گا کہ بچے کا مکمل طبعی معائنہ بشمول پورے بدن کا CT Scan اور MRI کرایا جائے۔
اساتذہ کو کوئ حق نہیں پہنچتا کہ بچوں کو زد و کُوب کرنا تو در گُذر اُن کو کوئ ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔ کمرۂ جماعت میں بچوں میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کیلئے کئ اور بھی موثر طریقے ہیں، اُن کا استعمال کیا جانا چاہئے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے اساتذہ طلبہ کو ظلم و تشدد کا نشانہ کیوں بناتے ہیں؟ آئیے اس کا تھوڑاسا جائزہ لیتے ہیں۔
۱- اساتذہ جن کے پاس موثر تدریسی صلاحیت نہیں ہوتی اور جو اپنے مضمون پر عبور نہیں رکھتے وہ اس طرح تشدد آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں۔ یعنی اپنی تدریسی کمزوری کو چھپانے کیلئے جسمانی تشدد (مار پیٹ) یا گالی گلوچ (ذہنی تشدد) کا سہارا لیتے ہیں۔
۲- جب طلبہ میں تدریس سے اکتسابی صلاحیت پیدا نہ ہو تو وہ تعلیم میں دلچسپی نہیں لیتے۔ اُن کا ذہن درس و تدریس کی طرف مائل نہیں ہوتا یا مرکوز نہیں ہوتا۔ جس سے کمرۂ جماعت میں نظم و ضبط برقرار رکھنے میں دشواری ہوتی ہے۔
۳- بچوں کو جب غیر مادری زبان یعنی انگریزی میڈیم مدارس میں داخلہ دلوایا جاتا ہے یا ایسی مقامی زبان کا درس دیا جاتا ہے جس کو سمجھنے سے بچے قاصر ہیں تو بچے غیر متوجہ رہتے ہیں۔ نتیجتاً طلبہ اُس علم کو حاصل کرنے کا شوق ظاہر نہیں کرتے جو اُن کو زبردستی دیا جارہا ہے۔ اگر طلبہ کمرۂ جماعت میں موجود ہوں اور خاموشی سادھے ہوئے ہوں تو وہ معلم یا معلمہ کے ڈر و خوف سے خاموش رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کے وہ شوق سے علم حاصل کررہے ہیں۔
۴- بچوں کی بنیادی تعلیم پانچویں جماعت تک مادری یا مقامی زبان میں دی جائے تاکہ بچے سمجھ کر علم حاصل کرسکیں۔ جیسا کہ ہندوستانی تعلیمی پالیسی (NEP2020) کے تحت پانچویں جماعت تک بچوں کو تعلیم صرف مادری زبان میں ہی دینے کی تاکید کی گئ ہے جسکو UNESCO کا ادارہ بھی اپنی تحقیق سے ثابت کرچُکا ہے۔ جب طلبہ اپنی مادری زبان پر مکمل عبور حاصل کرچُکے ہوتے ہیں تو اُن کو دوسری زبانیں سیکھنے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ اوپر جس بچے کا ذکر کیا گیا ہے وہ  پہلی جماعت (عمر سات سال) میں تعلیم پا رہا ہے۔ پہلے تو وہ انگریزی میڈیم کے ظلم سے پریشان ہے اُس پر ایک اور ظلم، بیچارے پر دوسری غیر مادری زبان (تلگو) تھوپ دی گئ ہے۔ بذاتِ خود یہ بچوں کیلئے شدید ذہنی انتشار اور نفسیاتی امراض میں مبتلہ کرنے والا عمل ہے۔ ایک اور بات یاد رکھنا نہایت ضروری ہے کہ نجی انگلش میڈیم مدارس اپنی تعلیمی برتری جتانے کیلئے چھوٹی جماعتوں میں اونچی جماعتوں کا نصاب ڈال دیتے ہیں اور والدین سے کہتے ہیں ہمارے اسکول کا معیار بہت اعلیٰ ہے۔ پہلے تو غیرملکی انگریزی زبان میں تعلیم دی جارہی ہے اُس پر نصاب دماغی عمر سے زیادہ یہی سزا کیا کم تھی کہ اُن پر دوسری غیر مادری زبان کا بوجھ اور بھی لاد دیا  گیا۔ اب آپ ہی بتائیے بچے کیا کریں۔ کس سے اپنے مصائب کا رونا روئیں۔ اللہ رحم فرمائے ہماری کم سِن نسلوں پر۔ آمین
۵- یہاں سب سے زیادہ قصور والدین کا ہے۔ وہ بچوں سے پوچھنے کے بجائے خود ہی فیصلے لیتے ہیں۔ اگر بچوں سے پوچھا جائے کہ وہ کس زبان کے اسکول میں پڑھنا چاہینگے تو بچے کہیں گےہمیں ماں کی زبان پیاری ہے، مادری زبان کے اسکول میں داخلہ دلوائیے۔ بچوں کو ڈرا دھمکا کر انگلش اسکول بھیجا جاتا ہے۔ اس لئے بچے ڈر و خوف کی وجہ سے والدین یا اپنے سرپرستوں کو رائے دینے سے گھبراتے ہیں۔ اسکول میں جب بچوں پر تعلیمی و جسمانی ظلم و ستم ہوتا ہے تو والدین سے شکایت نہیں کرتے کیونکہ اکثر والدین اُلٹا بچوں کو ہی ڈانٹتے ہیں کہ وہ تعلیم سے بچنا چاہتے ہیں۔ “ٹیچر کا مار گلے کا ہار” جیسے محاوروں کا استعمال کرتے ہیں اور بچوں سے کہیں گے، “کم سے کم اُستاد کی مار سے تو کچھ سیکھ لو”۔ آپ ہی بتائیے کیا خاک سیکھیں گے جب زبانِ یار من تُرکی نمی دانم۔ اللہ والدین کو نیک ھدایت دے۔ آمین
اب وقت آگیا ہے والدین کیلئے تربیتی اجلاس رکھنا ضروری ہوگیا ہے۔ اُنہیں سمجھنا ہوگا دماغی سائنس (Neuroscience) اور تعلیمی تحقیق بچوں کی درس و تدریس کے بابت کیا کہتی ہے۔ کس طرح بچے تعلیم کی جانب راغب ہوتے ہیں۔ معیارِ تعلیم میں کیا کیا عوامل شامل ہوتے ہیں۔ مندرجہ ذیل نکات مختصراً پیش کرنا چاہونگا۔ ورنہ اس پر کئ تحقیقی مقالے اور کتابیں لکھی جاچُکی ہیں۔ اس عنوان پر میرا ایک اور مضمون قابلِ مطالعہ ہے۔  “اساتذہ کی تادیب: مار سے نہیں پیار سے”۔
۱- بچوں کو بہترین معیاری تعلیم صرف اور صرف اُن کی مادری زبان ہی میں دی جاسکتی ہے۔ یہ تحقیق شدہ امر ہے۔ یونیسکو (UNESCO) جیسی عالمی تنظیم شدّت سے اس کی حمایت کرتی ہے۔ ہندوستان کی نیشنل تعلیمی پالیسی بھی اس کو ضروری قرار دیتی ہے۔
۲- اگر بچوں کو ذریعۂ تعلیم غیر ملکی اور غیر مقامی زبان میں دی جائے تو وہ سارا زور ایک نئی زبان سیکھنے میں لگا دیتے ہیں۔ اس دوران اہم مضامین جیسے ریاضی، سائنس اور سماجی تعلیم کی بنیادی تفہیم ( basic concept) سے ناواقفیت برقرار رہتی ہے۔ جب بچے کسی بات کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں تو لامحالہ اساتذہ اور والدین کے ظلم و زبردستی سے انہیں رٹنے  (rote learning) پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔
۳- بچے اور بڑے سبھی کھوج اور جستجو سے جِبِّلی طور پر خود کرکے سیکھتے ہیں۔ اس کو انگریزی میں Hands-on Inquiry-based Learning کہا جاتا ہے۔ اس طرح کی تعلیم مکمل طور پر ہماری درسگاہوں سے غائب ہے۔ بچوں کو انگریزی میڈیم کی جماعتوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔ کتابوں اور تختۂ سیاہ یا ڈیجیٹل بورڈ کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرکے اساتذہ کچھ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چاہے بچے سمجھیں یا نہ سمجھیں۔ طلبہ کی ساری تعلیمی زندگی سوالات جوابات (questions answers)، ریاضی اور سائنس کے ضابطے (mathematical formulas), اور سائنسی اصول (scientific principles) رٹنے رٹانے میں گذر جاتی ہے۔آج کل ہندوستانی والدین جس کو معیاری تعلیم سمجھتے ہیں وہ ناکاری تعلیم ہے۔ اللہ خیر کرے۔ آمین
۴۔ جہاں تک بچوں کو دوسری غیرملکی اجنبی زبانیں سیکھانے کا معاملہ ہے، یہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ دوسری نامعلوم زبانیں سیکھنے اور سیکھانے کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔ جب تک بچے اپنی مادری زبان میں اچھی طرح سے لکھنا پڑھنا سیکھ نہ لیں اُنہیں دوسری غیر مادری زبان جو عام بول چال کی زبان نہیں ہے سیکھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ ثانوی زبان جیسے عربی اور انگریزی ہے چھٹی جماعت سے شروع کی جائے۔ جیسا کہ  NEP 2020 پانچویں جماعت تک مادری زبان کی اہمیت کو واضح طور پر لاگو کر چُکی ہے۔
۵- میں نے اردو میڈیم سے ہائ اسکول تک تعلیم حاصل کی ہے۔ ہمیں تیسری جماعت سے بحیثیتِ ایک مضمون انگریزی سیکھایا جاتا تھا، جو ہمارے پلّے کچھ نہ پڑتا۔ ساتویں جماعت میں انگریزی قواعد بھی سیکھنی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا ہم اسکول کو ناغہ کرتے رہے۔ یہ اللہ کا فضل ہوا میں ترکِ تعلیم کرتے کرتے بچ گیا اور آٹھویں جماعت میں ہمیں معصوم جلیل صاحب جیسے شفیق استاد مل گئے۔ نہ صرف میں نے ان سے صحیح معنوں میں انگریزی سیکھی بلکہ سائنس اور ریاضی کو اردو زبان سے خوب اچھی طرح سے سمجھا اور ان مضامین میں  امتیازی نشانات حاصل کرتا رہا۔ امریکہ میں secondary language نویں جماعت میں سیکھائ جاتی ہے جیسے ہسپانوی (Spanish) اور جرمنی (German)۔ ثانوی زبان سیکھانے کی بھی ایک سائنس ہوتی ہے۔ اس زبان میں تدریسی مہارت حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے خاص امتحانات اور کورسس ہوتے ہیں۔ بچوں کو کنڈرگارٹن سے ہی غیر ملکی زبان میں تعلیم دینا دانشمندی کی بات نہیں ہے۔ اِن معصوم ذہنوں پر یہ ظلم و ستم کو ختم کیا جائے۔ ورنہ بچوں کو تعلیم سے ہی نفرت پیدا ہوگی۔ اللہ خیر کرے۔ آمین
قال النبي صلى الله عليه وسلم:” يسروا ولا تعسروا، وبشروا ولا تنفروا”.
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، “آسانی کرو اور سختی نہ کرو اور خوش کرو اور نفرت نہ دلاؤ”۔
آخر میں میری نظم “اساتذہ سے خطاب” کے دو اشعار۔
تشدّد  اور  سزاوٴں  سے  بھلا تعلیم کیا  ہوگی
ملےدَرس و تَدَبُّر‘ گر ہو جسمیں چاہتیں ساری
بیاں اُستاد سے ہو بات اُلفت کی محبّت کی
کلامِ خیر سے  ملتی  ہیں کیسی راحتیں ساری
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!